Powered by
UI
Techs
Get password?
Username
Password
ہوم
>
سوالات
>
معاشی مسائل
مینو
<< واپس
قرطاس موضوعات
نئے سوالات
سب سے زیادہ پڑھے جانے والے
سوال پوچھیے
ربا اور غیر مسلم
سوال پوچھنے والے کا نام Usman
تاریخ:
8
مارچ
2005
- ہٹس: 2651
سوال:
۔کیا ربا کی ممانعت مسلم اور غیر مسلم دونوں پر یکساں لاگو ہوتی ہے ؟ غیر مسلموں یا غیر مسلم ممالک سے جو قرض لیے گئے ہیں کیا ربا کی ممانعت کا اطلاق ان پر بھی ہوتا ہے؟ جب کہ ان ممالک کی پالیسیاں حکومت پاکستان کے کنٹرول میں نہیں ہیں؟
جواب:
جہاں تک ربا کی ممانعت کا تعلق ہے مسلم اور غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں۔ البتہ قرضوں پر ربا لینے اور دینے میں ایک فرق موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ اصلا سود لینے کو منع کیا گیا ہے مثلا 2: 275، 280 اور 30: 39 وغیرہ
ان آیات میں مقروض کی مذمت بیان نہیں کی گئی بلکہ سود لینے کی مذمت بیان کی گئی ہے اور قرآن نے اس بات کی پر زور ترغیب بیان کی ہے کہ تنگی کے حالات میں مقروض کو مہلت اور سہولت دی جائے۔البتہ جب انسان بغیر کسی معقول وجہ کے محض مال کی بڑھوتری کے لیے قرض لے تو یقینا وہ گناہ میں تعاون کا مرتکب ٹھہرے گا۔
خلاصہ یہ ہے کہ
1۔ حکومت پاکستان نے ماضی میں غیر ممالک سے جو سودی قرضے لے چکی ہے اسے اس کی پاسداری کرنی چاہیے کیونکہ عہد کو پورا کرنا بھی ایک دینی ذمہ داری ہے (1۔5)
2۔ حکومت کو تدریجا یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اس قسم کی صورت حال پیدا نہ ہونے دے کہ جہاں اسے غیر ملکی سودی قرض لینے پڑیں۔
3۔ حکومت کو اپنے معاشرے میں بھی ایسی اصلاحات نافذ کرنی چاہییں کہ کسی کو سود پر قرض لینے کی ضرورت نہ پڑے۔
4۔مسلم ہو یا غیر مسلم ، سود لینے کا جواز بہر حال ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
(آصف افتخار)
ترجمہ: صديق بخاري
Counter Question Comment
You can post a counter question on the question above.
You may fill up the form below in English and it will be translated and answered in Urdu.
Title
Detail
Name
Email
Note: Your counter question must be related to the above question/answer.
Do not user this facility to post questions that are irrelevant or unrelated to the content matter of the above question/answer.
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top