Powered by UITechs
Get password? Username Password
 
 ہوم > سوالات > سیاسی مسائل
مینو << واپس قرطاس موضوعات نئے سوالات سب سے زیادہ پڑھے جانے والے سوال پوچھیے  

کیا ایک عورت اسلامی ریاست کی سربراہ ہو سکتی ہے
سوال پوچھنے والے کا نام Ahmad
تاریخ:  20 اپریل 2005  - ہٹس: 2843


سوال:
میرا خیال ہے کہ اسلام عورت و مرد کو برابر کے حقوق دیتا ہے۔ لیکن میں نے سنا ہے کہ اسلام میں اس بات کی اجاز ت نہیں ہے کہ ایک عورت حکومت کی سربراہ ہو۔ کیا یہ صحیح ہے؟ اگر ہے تو کیوں؟

جواب:
اصل معاملہ یہ نہیں۔ اسلام میں حکمرانی کا حق اسے حاصل ہوتا ہے جسے اکثریت کی تائید حاصل ہو۔ قطع نظر اس سے کہ وہ مرد ہے یا عورت۔
قابل غور امر صرف یہ رہ جاتا ہے کہ یا عورت اپنی طبعی خصوصیات اور مزاج کی وجہ سے اس کام کے لیے موزوں ہے یا نہیں۔ اس کے باوجود اگر اکثریت اسے منتخب کر لیتی ہے تو پھر کسی کو ویٹو کا اختیار نہیں رہتا۔ تا ہم اس کے برخلاف یہ حدیث پیش کی جاسکتی ہے۔

عن أبي بكرة قال لقد نفعني الله بكلمة سمعتها من رسول الله e أيام الجمل بعد ما كدت أن ألحق بأصحاب الجمل فأقاتل معهم قال لما بلغ رسول الله e أن أهل فارس قد ملكوا عليهم بنت كسرى قال لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة

ابو بکرہ کہتے ہیں کہ جنگ جمل کے زمانے میں جب کہ میں اہل جمل کے ساتھ شامل ہو کر جنگ کرنے والا تھا تو اللہ کے رسول کی ایک بات نے بہت فائدہ دیا۔ جب اللہ کے رسول نے سنا کہ اہل فارس نے بنت کسری کو حکمران بنا لیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جو اپنے امور عورت کے سپرد کر دے (بخاری ، رقم: 4163)

بخاری کی حدیث ہونے کے باوجود اس میں درج ذیل مسائل موجود ہیں
1۔ جنگ جمل 36 ہجری میں وقوع پذیر ہوئی اور اس وقت تک یہ حدیث کسی کے علم میں نہ آئی تھی کیونکہ اس سے پہلے اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ یہ اس وقت سامنے لائی گئی جب حضرت عائشہ حضرت علی کے مقابلے میں آئیں۔ اس سے پہلے اتنے عرصہ تک اس کا معلوم اور اس کا ذکر نہ کیا جانا ایک نا قابل فہم بات ہے۔
2۔ اس حدیث کے ایک راوی عوف بن ابی جمیلہ ہیں جن کے بارے میں علماۓ رجال کی یہ رائے ہے کہ وہ حضرت علی کی فضیلت کے قائل تھے اور انہیں حضرت عثمان پر فضیلت دیتے تھے۔ جب حضرت عائشہ نے حضرت عثمان کی طرف داری کی تو حضرت علی کے گروپ میں سے ایک گروہ نے ان کو ہدف تنقید بنایا۔ مزید برآں یہ کہ ، یہ حدیث حضرت عائشہ کے معاملے میں منطبق نہیں ہو سکتی کیونکہ انہوں نے کبھی حکمرانی کادعوی نہیں کیا۔

3۔ یہ ایک غریب حدیث ہے۔ علم حدیث کی اصطلاح میں غریب حدیث اسے کہتے ہیں جس کے سلسلہ روایت میں کہیں صرف ایک ہی راوی ہو۔ یہ صرف ابو بکرہ ہیں جو اسے شروع میں روایت کر رہے ہیں۔ حدیث کے مضمون کی نوعیت یہ ہے کہ بہت سے صحابہ کو حضورۖ سے یہ بات روایت کرنی چاہیے تھی۔ جبکہ اس کے بر خلاف ہم صرف ایک ہی راوی کو پاتے ہیں جو اتنی اہم بات کو روایت کر رہے ہیں۔

4۔ خود متن حدیث بھی اس سے ابا کرتا ہے کہ اسے پیغمبرۖ سے منسوب کیا جائے۔ جب کہ تاریخ سے یہ ظاہر ہے کہ نبیۖ سے قبل اور آپ کے بعد بھی بہت سی قوموں نے ترقی کی جن کی حکمران عورتیں تھیں۔ جبکہ حدیث کے الفاظ عموم پہ دلالت کرتے ہیں۔ ان کے اعتبار سے تو عورت کی حکمرانی والی کسی بھی قوم کو ترقی نہ کرنی چاہیے تھی۔

5۔ یہ حدیث قرآن سے بھی متضاد ہے۔ قرآن یہ کہتا ہے کہ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ (38:42) کہ ان کا نظام حکومت باہمی مشورے سے طے پاتا ہے۔

اس اعتبار سے جسے بھی اکثریت کا اعتماد حاصل ہو گا وہ حکمرانی کا اہل ہوگا۔ چاہے عورت ہو یا مرد۔ قرآن نے اپنے اس حکم کو عورتوں کو کہیں بھی اس حق سے محروم نہیں کیا۔


(شہزاد سلیم)
ترجمہ: صديق بخاري


Counter Question Comment
You can post a counter question on the question above.
You may fill up the form below in English and it will be translated and answered in Urdu.
Title
Detail
Name
Email


Note: Your counter question must be related to the above question/answer.
Do not user this facility to post questions that are irrelevant or unrelated to the content matter of the above question/answer.
Share |


Copyright Studying-Islam © 2003-7  | Privacy Policy  | Code of Conduct  | An Affiliate of Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top    





eXTReMe Tracker