Powered by
UI
Techs
Get password?
Username
Password
ہوم
>
سوالات
>
جہاد
مینو
<< واپس
قرطاس موضوعات
نئے سوالات
سب سے زیادہ پڑھے جانے والے
سوال پوچھیے
مسلم اقلیت اور مخاصمانہ رویہ
سوال پوچھنے والے کا نام Atif Ayub
تاریخ:
2
جون
2005
- ہٹس: 1916
سوال:
میں پچھلے بیس برس سے امریکا میں رہ رہا ہوں۔ میں یہ جانناچاہتا ہوں کہ اسلام اس ضمن میں مجھ پر کیا حقوق و فرائض عائد کرتا ہے ۔ جب مجھے اسلام کے بر خلاف کچھ کرنے کو کہا جائے تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟مجھے بتایا گیا ہے کہ مسلمان جہاں بھی ہو اسے اسلامی ریاست کی قیام کے لیے جدو جہد کرنی چاہیے کیا یہ صحیح ہے؟
جواب:
وہ مسلمان جو غیر مسلم ملکوں میں رہ رہے ہیں وہ اس ملک میں ایک شہری اور عمرانی معاہدے کے تحت رہ رہے ہیں۔ انہیں اس معاہدے کی پابندی کرنی چاہیے۔ اسلام کی روسے وہ اس بات کے پابند ہیں کہ وہ جس معاہدے کے تحت وہاں رہ رہے ہوں اس کی پابندی کریں۔ معاہدوں کی پابندی کے بارے میں قیامت میں پوچھ ہو گی۔ قرآن مجید کہتا ہے
وَأَوْفُواْ بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْؤُولاً
اور اپنے معاہدوں کو پورا کرو کیونکہ ان کے بارے میں تم سے (آخرت میں) سوال ہوگا (17:34(
چنانچہ آپ جہاں بھی ہوں آپ کو اس ملک کے قوانین کي پابندی کرنی ہوگی۔ البتہ اگر کوئی ایسا قانون ہے کہ جس پر عمل کرنے سے کسی اسلامی حکم کی خلاف ورزی لازم آتی ہو تو آپ کو مجاز حکام کے علم میں یہ معاملہ لانا چاہیے اور اگر پھر بھی مسئلہ حل نہ ہو تو آپ کو اس ملک سے ہجرت کر جانی چاہیے ۔ البتہ اس ملک میں فساد اور انتشار برپا کرنے کی آپ کو اجازت نہیں ہے۔
جہاں تک اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد کرنے کا تعلق ہے تو یہ واضح رہے کہ دین نے ایسی کسی ذمہ داری کا آپ کو مکلف نہیں کیا۔ اس سلسلے میں بعض علما حضور نبی کریم کی مثال پیش کرتے ہیں کہ چونکہ آپ نے بھی عرب میں ایک ریاست قائم کی تھی اس لیے مسلمانوں کو بھی اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ میرا خیال یہ ہے کہ یہ استنباط درست نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس ہمارا خیال یہ ہے کہ ایک ریاست کا قائم کرنا سرے سے نبیۖ کے مشن اور منصب میں شامل ہی نہ تھا۔ اور نہ ہی اللہ تعالی کی طرف سے آپ کے ذمے یہ لگایا گیا تھا کہ آپ ایک ریاست قائم کریں۔ بلکہ اللہ تعالی نے خود ہی رسولوں کے بارے میں اپنی سنت کے تحت آپ اور صحابہ کو عرب میں غلبہ عطا کر دیا تھا۔
وہ علما جن کا یہ خیال ہے کہ نبیۖ نے عرب میں ریاست کے قیام کی جدو جہد کی وہ درج ذیل آیت کو اپنی تائید میں پیش کرتے ہیں۔
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ
وہی ہے جس نے بھیجا اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ تا کہ اس کو غالب کرے تمام دینوں پر ، اگرچہ مشرکین کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔ (9:61)
علی الدین کلہ کی بنا پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مسلمانوں پر یہ لازم ہے کہ وہ جہاں بھی ہوں وہ اس دین کے غلبے کے لیے کوشش کریں۔
اس آیت کے سیاق پر غور کیا جائے تو یہ صاف نظر آتا ہے کہ یہ ان احکامات کے ضمن میں بیان ہوئی ہے جو رسولوں کے بارے اللہ کی سنت سے متعلق ہیں اور وہ سنت یہ ہے کہ
إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَئِكَ فِي الأَذَلِّينَ كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے بر سر مخالفت ہیں وہی لوگ ذلیل ہونے والوں میں ہوں گے۔ اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ بے شک میں غالب رہوں گا اور میرے رسول۔ بے شک اللہ بڑ ا ہی زور ور اور غالب ہے۔ (58: 20-21)
اسی اصول کے تحت نبیۖ کو بھی یہ خبر دی گئی تھی کہ وہ اپنی قوم پر غالب رہیں گے۔ نبیۖ اور آپ کے صحابہ کو یہ کہا گیا تھا کہ انہیں مشرکین عرب سے لڑنا ہے جب تک کہ اسلام کا غلبہ قائم نہ ہوجائے۔ اور مشرکین کو بھی یہ بتا دیا گیا تھا کہ اگر وہ باز نہ آئے تو ان کا وہی انجام ہو گا جو رسولوں کو جھٹلانے والی قوموں کا ہوا کرتا ہے۔
قُل لِلَّذِينَ كَفَرُواْ إِن يَنتَهُواْ يُغَفَرْ لَهُم مَّا قَدْ سَلَفَ وَإِنْ يَعُودُواْ فَقَدْ مَضَتْ سُنَّةُ الأَوَّلِينِ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّه
ان کفر کرنے والوں سے کہہ دو کہ اگر یہ باز آجائیں تو جو کچھ ہو چکا ہے وہ معاف کر دیا جائے گااور اگر وہ پھر یہی کریں گے تو اگلوں کے باب میں سنت الہی گزر چکی ہے اور ان سے جنگ کرو تاآنکہ فتنہ کا قلع قمع ہو جائے اور سار ا دین اللہ کا ہوجائے ۔ (8: 38-39)
آیت نمبر9:61 میں لفظ المشرکون استعمال ہوا ہے اور قرآن یہ لفظ نبی کے وقت کے مشرکین کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو آیت میں الدین کلہ سے مراد صرف یہ ہی ہو سکتاہے کہ نبیۖ کی زمانے کے عرب کے تمام ادیان۔ چنانچہ اس آیت کے حکم کا اطلاق نبی کے زمانے کے بعد کے مسلمانوں پر نہیں ھے۔
لہذا یہ واضح ہوا کہ اسلامی ریاست کے قیام کی کوشش کرنا مسلمانوں کی دینی ذمہ داری نہیں ہے اور وہ آیت جس سے یہ استنباط کیا جاتا ہے وہ نبیۖ کی زمانے سے خاص ہے۔
Counter Question Comment
You can post a counter question on the question above.
You may fill up the form below in English and it will be translated and answered in Urdu.
Title
Detail
Name
Email
Note: Your counter question must be related to the above question/answer.
Do not user this facility to post questions that are irrelevant or unrelated to the content matter of the above question/answer.
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top