اسلام میں منافع کی حد
سوال پوچھنے والے کا نام Israr Khan تاریخ: 15 جنوری 2007 - ہٹس: 2681
|
سوال:
کسی ہول سیل مارکیٹ سے میں پچاس روپے فی میٹرکے حساب سے کپڑا خریدتا ہوں اور اس کو اپنی دکان میں لے جاکر سو روپے میٹر فروخت کر دیتا ہوں۔ کیا اسلام میں منافع کی کوئی حد مقرر ہے ؟
|
جواب:
اس کی کوئی حد مقرر نہیں کی جا سکتی۔ اسلام کا عمومی مزاج مارکیٹ اکانومی کا ہے۔ یعنی یہ اصل میں طلب اور رسد کا عمومی قانون طے کرے گا کہ کیا قیمتیں ہوں گی۔ انسان کو البتہ اپنے ضمیر پر نگاہ رکھنا ہوگی۔ اور دوسرا یہ ہے کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے بارے میں آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ مارکیٹ کو خراب کرنے کاحق کسی کو بھی نہیں ہے۔ سیدنا عمر کے زمانے میں بڑا دلچسپ واقعہ پیش آیا تھا ان کو کسی نے مسجد میں بیٹھے ہوئے بتایا کہ مدینے کے بازار میں ایک صاحب نے ٹوکرا کھجوروں کا رکھا ہوا ہے اور دو دو آنے بیچ رہا ہے آپ وہاں گئے اور اس سے پوچھا یہ کیا مسئلہ ہے ؟اس نے کہا کہ میرے ہاں اصل میں کھجوروں کا ایک تحفہ آیا تھا۔ میں نے کہا کہ چلو بازار میں جاکر بیچ آتا ہوں۔ حضرت عمر نے کہا کہ وہ جو دکان دار خرید کر لائے ہیں چھ آنے سیر وہ شام کو گھر کیا لے کرجائیں گے؟ تم یہاں سے چلے جاؤ۔ جب مارکیٹ گرے گی تو پھر بیچنا۔ تو یہ مسئلے اتنے سادہ نہیں ہوتے۔ البتہ آپ اپنے گھرکی کوئی چیز بیچ رہے ہیں۔ کار بیچ رہے ہیں اس میں آپ کہتے ہیں کہ مجھے اتنا ہی منافع کافی ہے تویہ اچھی بات ہے۔ یہ عام فہم کی چیز ہے دین اگر منافع کا کوئی ریٹ مقرر کر دیتا توتمدن نہیں چل سکتا تھا۔
جاويد احمد غامدي مترجم : عبد اللہ بخاري
|