Powered by UITechs
Get password? Username Password
 
 ہوم > سوالات > عقائد
مینو << واپس قرطاس موضوعات نئے سوالات سب سے زیادہ پڑھے جانے والے سوال پوچھیے  

بیعت اور اس کی اقسام
سوال پوچھنے والے کا نام .
تاریخ:  15 اپریل 2008  - ہٹس: 1989


سوال:
کیا بیعت لینا ضروری ہے، کچھ لوگ اسے نبی صلى اللہ عليہ وسلم کی اور خلفائے راشدین کی بیعت سے استنباط کرتے ہیں ؟

جواب:
نبی صلى اللہ عليہ وسلم نے کن مواقع پر بیعت لی ہے۔ اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک تو حضور صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں سے دین اور اسلام پر بیعت لی ہے یعنی دین کے احکام پر عمل کی۔ بیعت کا مطلب ہے عہد لیا ہے لوگوں سے۔ اس کا ذکر سورہ ممتحنہ میں موجود ہے۔ رسالت مآب صلى اللہ عليہ وسلم کو حکم دیا گیا کو جو لوگ ہجرت کرکے آرہے ہیں، مدینے میں بسنے سے پہلے ا ن سے اس بات کا عہد لے لیا جائے کہ وہ سوسائٹی کے اندر کوئی خرابی نہيں پيدا کریں گے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات کوئی شخص آیا، اس نے اسلام قبول کیا اور اس نے جانا چاہا تو حضور صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے کوئی عہد لیا تو یہ عہد صرف پیغمبر لے سکتا ہے۔ ہم سب برابر کے لوگ ہیں، ہم میں سے کوئی دوسرے کو پابند نہیں کر سکتا۔ صرف اللہ کا پیغمبر، اللہ کے سفیر اور نمائندے کی حیثیت سے یہ بیعت لے سکتا ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بعد میں کسی صحابی نے کسی دوسرے سے یہ عہد نہیں لیا۔ یعنی خود صحابہ کرام رضي اللہ عنہ نے جو دین کا معیار ہیں، یہ بات ثابت کر دی کہ یہ بات صرف رسالت مآب صلى اللہ عليہ وسلم ہی کے شایان شان تھی کہ وہ عہد لے سکتے تھے لیکن وہ میرا، آپ کا یا کسی اور کا کام ہی نہیں۔ بلکہ یہ بہت جسارت کی بات ہے کہ ہم سے کوئی شخص عہد لے۔ خدا عہد لے اپنے دین پر، اس کا پيغمبر عہد لے دین پر، یہ بات تو ٹھيک ہے، میں کون ہوتا ہوں۔ مجھے تو خود عہد کرنا ہے اللہ اور اس کے پیغمبر سے۔ نبی صلى اللہ عليہ وسلم نے اسلام اور اسلام کی تعلیمات پر جو عہد لیا ہے وہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، اس کا اختیار اب کسی اور کو نہیں اور نہ ہی اس کی جسارت کرنی چاہيے۔ دوسری بیعت حضور صلى اللہ عليہ وسلم نے بطور حکمران لی ہے۔ سمع و طاعت کی بیعت۔ یہ بیعت حکمران کی حیثیت سے ہے پيغمبرانہ حیثیت سے نہیں۔ چنانچہ آپ کے بعد آپ کے خلفا نے بھی یہ بیعت لی۔ اب بھی ہماری حکومت اسی بیعت پر قائم ہوتی ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے نمائندے منتخب ہو جاتے ہيں تو وہ اسمبلی میں جا کر اس آئین سے وفاداری کا عہد کرتے ہیں،وہی چیز ہے آپ ہاتھ میں ہاتھ دیکر عہد کرلیں یا پڑھ کر حلف لے لیں۔ حکمرانوں کو حق ہے کہ وہ اس عہد کا مطالبہ کریں اور یہ خلفائے راشدین نے بھی لیا، لے سکتے ہیں، لازم نہیں۔ حکمران سمع و طاعت کی بیعت لے سکتا ہے کیونکہ قرآن نے اس کو مطاع قرار دیا ہے۔ اطیعو اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم۔ اللہ کی اطاعت کرو، اللہ کے پیغمبر کی اطاعت کرو اور حکمرانوں کی اطاعت کرو تو حکمران کو اللہ تعالی نے واجب الاطاعت قرار دیا ہے اس ليے وہ یہ اطاعت کی بیعت لے سکتا ہے جبکہ ہم میں سے کسی کو واجب الاطاعت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بیعت کی ایک اور قسم جہاد کی بیعت ہے۔ نبی صلى اللہ عليہ وسلم نے جب کوئی جہاد کا موقع آیا تو آپ نے جہاد کی بیعت لی یا لوگوں سے ثابت قدمی کی بیعت لی۔ یہ مسلمانوں کے حکمران کی حیثیت سے ہے۔ کوئی جنگ درپیش ہو تو کسی خاص دستے کو بھیجتے وقت حکمران یہ بیعت لے سکتا ہے۔ ان میں سے کسی مقام پر بھی ہمارے لیے بیعت کی گنجائش نہیں نکلتی تو اس وجہ سے جو لوگ ایسی بیعت کے دعوے کرتے ہیں یا ایسی بیعت لیتے ہیں، وہ اپنے آپ کو غلط جگہ پر کھڑا کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی اصلاح کرنی چاہيے اور انہیں بتانا چاہيے کہ آپ عام انسان ہیں اور آپ کو یہ حق حاصل نہیں۔

علامہ جاوید احمد غامدی
ترتیب و تہذیب، عمر فاران بخاری


Counter Question Comment
You can post a counter question on the question above.
You may fill up the form below in English and it will be translated and answered in Urdu.
Title
Detail
Name
Email


Note: Your counter question must be related to the above question/answer.
Do not user this facility to post questions that are irrelevant or unrelated to the content matter of the above question/answer.
Share |


Copyright Studying-Islam © 2003-7  | Privacy Policy  | Code of Conduct  | An Affiliate of Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top    





eXTReMe Tracker