Powered by
UI
Techs
Get password?
Username
Password
ہوم
>
سوالات
>
متفرقات
مینو
<< واپس
قرطاس موضوعات
نئے سوالات
سب سے زیادہ پڑھے جانے والے
سوال پوچھیے
مذہب اور اہل مغرب
سوال پوچھنے والے کا نام .
تاریخ:
16
ستمبر
2009
- ہٹس: 3330
سوال:
اہل مغرب کے ہاں مذہب تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خدا کا اب پوری کائنات میں کوئی دخل نہیں ہے۔ اس کے باوجود ان کے ہاں ایک بے مثال نظام احتساب ہے۔ وہ لوگ ذمہ دار یاں پوری کرتے ہیں جبکہ جو اہل مذہب ہیں، خدا کا نام لیتے ہیں، بالخصوص مسلمان تو ان کی حالت تو ابتر ہے۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب:
دراصل اس بارے میں ایک غلط مقدمہ قائم کر لیا گیا ہے۔ وہ مقدمہ یہ ہے کہ مذہب ہماری دنیوی زندگی کی کامیابی کے لیے آیا ہے۔ جبکہ یہ بات مذہب کا موضوع ہی نہیں ہے۔ انسان اگر دنیا میں ترقی پانا چاہتا ہے تو اس کے لیے اس کو علم حاصل کرنا ہے، اپنی طبعی زندگی کا مطالعہ کرنا ہے، اپنے اخلاقی وجود کو بہتر بنانا ہے، اپنے اندر آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہے۔ اگر وہ علم کے میدان میں آگے قدم بڑھاتا ہے اور مادے کو توانائی میں بدلنے کی کوئی نئی صورت دریافت کر لیتا ہے تو وہ آگے بڑھے گا، اس کو روکا نہیں جا سکتا۔ یہ ہیں وہ چیزیں جن پر قوموں کی ترقی کی بنیاد ہوتی ہے۔ یہ مغرب کر لے یا مشرق کر لے، یکساں نتائج نکلیں گے۔
دنیا کی زندگی کے اندر تین چیزیں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ ایک چیز آپ کے مادی وسائل ہیں، دوسرے آپ کا علم ہے، تیسرے آپ کی اخلاقی شخصیت ہے۔ مذہب کا موضوع آپ کی اخلاقی شخصیت ہے یعنی اس معاملے میں وہ اثر انداز ہو گا۔ آپ جو اخلاقیات اہل مغرب کے ہاں پاتے ہیں یہ دراصل سیدنا مسیح علیہ السلام کا اعجاز ہے۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کا اخلاقی وجود مغرب کے ریشے ریشے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ اس کو نکالا ہی نہیں جا سکتا۔ اس کو آپ نام دیں، نہ دیں، وہ ان کی شخصیت، ان کی نفسیات کا حصہ بن گیا ہوا ہے۔ یہ ہمدردی، محبت، انسانوں کے معاملے میں حساسیت، یہاں تک کہ جانوروں تک کے معاملے میں حساسیت اور ان کے حقوق کی پاس داری، یہ ساری کی ساری تعلیم درحقیقت سیدنا مسیح کی دی ہوئی تعلیم ہے۔ لیکن بعض اوقات جب انسان کے اندر ایک خاص طرح کا انحراف پیدا ہوتا ہے تو اس کے پاس جو کچھ ہوتا ہے اس کے معاملے میں وہ دینے والوں کے لیے بھی ناشکری کا رویہ اختیار کر لیتا ہے۔
اس کے بعد بڑا مسئلہ موت کا ہے۔ اور یہ مسئلہ مغرب میں ختم نہیں ہوا، بلکہ آج بھی پوری قوت کے ساتھ موجود ہے۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ مثال کے طور پر بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ آپ انھیں بتائیں کہ کھانے پینے میں احتیاط کرو، ورنہ تمھیں کوئی بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نہیں، اس وقت کی زندگی گزارنے دو 'بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست' (یعنی اے بابر عیش وعشرت میں زندگی بسر کرو یہ دنیا دوبارہ حاصل نہیں ہوگی)، جب بیماری آئے گی، دیکھا جائے گا۔ اس طرح کے بے شمار لوگ ہوتے ہیں۔ مغرب بھی بحیثیت مجموعی مذہب کے ساتھ دراصل یہی معاملہ کر رہا ہے۔ وہاں موت کے مسئلے کو کچھ دیر کے لیے نظر انداز کر دیا گیا ہے، لیکن یہ اپنی پوری طاقت سے نمودار ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہاں ہر شخص نے یہ فیصلہ کر لیا ہے۔ مغرب میں اس وقت بھی آپ کو ایسے کروڑوں لوگ ملیں گے جو غیر معمولی مذہبی وابستگی رکھتے ہیں۔ مذہب کے معاملے میں بڑے حساس ہیں۔ ان کے ہاں جو مذہبی روایت تھی، اس کے ساتھ دو آفات لاحق تھیں۔ ایک یہ کہ مذہب کے عقائد بدقسمتی سے صوفیانہ مظاہر کے زیر اثر بائبل سے بہت دور ہو چکے تھے۔ اس کو ہر عاقل نے رد کرنا ہی تھا، وہ رد ہو گئے۔ دوسری یہ کہ ان کے ہاں مذہب ایک Institution (ادارے) میں تبدیل ہوگیا تھا اور وہ پوپ کا Institution تھا۔ اس کو ایک سیاسی اقتدار حاصل ہوگیا تھا۔ اس سے کچھ مفاسد پیدا ہوئے اور انھوں نے اس کے خلاف بغاوت پیدا کی۔ لہٰذا مغرب کے معاملے کو اس طرح دیکھنا چاہیے۔
جاوید احمد غامدی
ترتیب و تہذیب ، شاہد محمود
Counter Question Comment
You can post a counter question on the question above.
You may fill up the form below in English and it will be translated and answered in Urdu.
Title
Detail
Name
Email
Note: Your counter question must be related to the above question/answer.
Do not user this facility to post questions that are irrelevant or unrelated to the content matter of the above question/answer.
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top