Powered by
UI
Techs
Get password?
Username
Password
Home
>
Articles
>
معاشرتی مسائل
>
معاشرتی مسائل
Menu
<< Go Back
Home
New Articles
Popular Articles
Top Rated Articles
Submit an Article
شادی میں ولی کی رضا مندی کی اہمیت
Author/Source:
Posted by:
Kaukab Shehzad
Hits:
8582
Rating:
13 (2 votes)
Comments:
2
Added On:
Wednesday, November 2, 2005
Rate this article
کیا بچوں کی شادی کے وقت ماں ، باپ یا سر پرست کی رضامندی کا ہونا ضروری ہے؟ آج کے اس دور میں جب بچے ماں باپ کی رضامندی کے بغیر شادیاں کرنے لگے ہیں تو یہ سوال بہت اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ اس معاملے میں اسلام کا نقطہء نظر یہ ہے کے ماں ، باپ یا سر پرست کی رضا مندی کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتی۔ قانونی طور پر صرف دو چیزیں اہمیت رکھتی ہیں ایک عورت اور مرد جو شادی کرنا چاہتے ہیں ان کا پارسا ہونا بہت ضروری ہے اور دوسرا مرد کا اس عورت کو جس سے وہ شادی کرنا چاہتا ہے اسے مہر دینا اگرچہ ماں ، باپ یا ولی کی رضامندی معاشرتی اور تہذیبی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں بالعموم ان شادیوں کو پسند کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا جو والدین کی مرضی کے بغیر ہو۔ جہاں تک ان روایات کا تعلق ہے جیسے ۥۥلا نکاح االابولی‘‘ یا اس طرح کی اور روایات تو ان میں درحقیقت اسی معاشرتی پہلوکی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اسلام نے معاشرے کے استحکام ( جس کا انحصار گھر کے ادارے کے مضبوط ہونے پر ہے ) کے لیے جو احکامات دیے ہیں یہ اس کا منطقی نتیجہ ہے اور ان میں بڑی حکمت پائی جاتی ہے۔ اگر خاندانی نظام کی مضبوطی اور تحفظ کی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت ہے تو اس کا فطری تقاضا ہے کہ شادی ماں ، باپ سے ہونی چاہیے جو اولین سرپرست ہوتے ہیں۔ زاہر بات ہے کہ اگر یہ شادی ماں باپ کی اجازت اور رضا مندی سے ہوتی ہے تو ایک نئے وجود میں آنے والے گھر کو ماں ، باپ کی دعاؤں ، ساتھ ، محبت اور پیار کا سہارا ملے گا اور آئندہ زندگی میں اگر اس شادی شدہ جورے کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو پورا خاندان اس مشکل میں ان کے ساتھ ہوگا۔ بہرحال ہر معاملے میں کچھ استثناء ہوتے ہیں۔ اگر مرد اور عورت یہ سمجھتے ہیں کہ اس رشتے سے انکار کی ماں ، باپ کے پاس کوئی معقول وجہ نہیں اور وہ محض ضد کی وجہ سے یا اپنی حمیت کی وجہ سے ایسا کررہے ہیں تو ان کو یہ پورا حق ہے کہ وہ اس معاملے کو عدالت تک لے جائیں اور اب یہ عدالت کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ پورے معاملے کا اچھی طرح تجزیہ کرے اور صحیح نتیجے تک پہنچے۔ اگر وہ مرد اور عورت کے اس فیصلے سے مطمئن ہے تو وہ ان کو شادی کرنے کی اجازت دے سکتی ہے اور اس معاملے میں جیسے کہ اس حدیث سے واضح ہے "ریاست" کواس جوڑے کا ولی یا سرپرست تصور کیا جائے گا۔ اس کے برعکس اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ ماں ، باپ کا اس شادی سے انکار صحیح ہے تو وہ ہے اس شادی کو رکوا سکتی ہے البتہ اگر عدالت اس شادی کو منظور کرتی ہے تو کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس شادی محض اس وجہ سے قبول نہ کرے کیونکہ یہ شادی ماں ، باپ یا ولی کی مرضی سے نہیں ہوئی۔ یہاں ہم نے اس بارے میں اسلام کا نقطہء نظر دلائل کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔واللہ اعلم بالصواب۔ شہزاد سليم ترجمہ (كوكب شہزاد)
Comments
victor
This article caused me to think and to consider how well i am doing in the fight against evil in my community. Thank you for the insights.
najeeb351
I am a bit disappointed on the second half of the views expressed by Shahzad Saleem. In the early part the writer has stated that the consent of the parents of wali does not hold any legal position. He adds further that from the legal point of view there are only two things that are important --- the partners being of impeccable character and morals and the second payment of the mehr. The writer further adds, that from a socail perspective it is preferable that the marriage meets with the approval of the parents for a harmonious post-marriage relationship. Up to this point I have no problem with the writer's point of view. However the writer then negates himself by saying that if the parents or the wali does not agree with the marriage, the would be couple should go to a court and abide by its decision. By saying this the writer has destroyed his earlier position saying that the permissions of parents or wali has no legal basis.By bringing in the requirement to seek courts permission, the writer has simply substituted the parents or wali's consent with the consent of the Court. Knowing how the court system work in most Muslim countries, this puts the process back into square one. If there is no legal requirement to obtain parents' or wali's consent, that should be the end of the matter.
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top