ہمارے معاشرے كا فساد مزاج
ايك طرف اسلامي معاشرے كے اس اصول كو سامنے ركھيے اور دوسري طرف اپنے معاشرے كا جائيزہ ليجيے تو آپ كو معلوم ہوگا كہ آج اس كے بالكل بر عكس اصول كارفرما ہے-
آج نظريہ يہ ہے كہ ہر شخص سوئے ظن كا مستحق ہے الا آنكہ كسي شخص كے ساتھ اپني كوئي شخصي يا گروہي غرض وابستہ ہو اور دوسروں كي نسبت سنسني پيدا كرنے والي افواہيں پھيلانا تو اس زمانے ميں ايك مستقل فن اور ايك نہايت كامياب پيشہ بن گيا ہے - ہماري قوم ميں كتنے اہل قلم ہيں جن كا پيشہ يہي ہے كہ وہ اس طرح كي افواہوں كي تلاش ميں ہوئي صبح اور ركھ كر كان پر گھرسے قلم نكلے
يہ افواہيں نہايت جلي عنوانيت سے اخبارات و رسائل ميں چھپتي ہيں اور سب سے زيادہ كامياب اخبارات و رسائل وہي ہيں جو اس طرح كي افواہيں ايجاد كرنے ميں سب سے زيادہ شاطر ہيں-
معاشرے كے فساد مزاج كا حال يہ ہے كہ لوگ اس طرح كي چيزيں پڑھتے ہيں اور 'ھذا افك مبين' كہنا تو دركنار ان كي ہر بات پر' آمنا و صدقنا' كہتے اور وحي و الہام سمجھ كر ان كي نقل و روايت كرتے ہيں-
)تدبر قرآن - مولانا امين احسن اصلاحي- تفسير سورہ نور- آيات ١١-٢٦. جلد ٥: صفحہ ٣٨٤)
|