سائنس کی ایک مستند شاخ کے ایک سند یافتہ استاد صاحب ایک انٹرنیشنل تعلیمی ادارے میں اپنے ایک ساتھی استاد سے کہتے ہیں، میری سمجھ میں آج تک یہ نہیں آسکا کہ مطالعہ پاکستان، اسلامیات اور اردو پڑھانے والے لوگوں (یہ ان مضامین کے اساتذہ کو استاد کہنا بھی مناسب نہیں سمجھتے بلکہ لوگ کہنے کو ترجیح دیتے ہیں) کو ہمارے برابر تنخواہ کیوں ملتی ہے؟ دوسرے استاد صاحب (دو غلیظ گالیاں) ظلم ہے ظلم!، اسی اثنا میں دو اور سائنسی استاد بھی ان کی اس 'علمی' گفتگو میں شامل ہو جاتے ہیں۔ تیسرے استاد صاحب، سائنس پڑھانے والے اساتذہ کا ایک خاص سٹیٹس ہوتا ہے جو اس ادارے اور معاشرے میں کہیں نظر نہیں آتا، پھرترقی کیسے ہو؟ چوتھے صاحب، ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے فرماتے ہیں، غضب خدا کا، ظلم کی حد تو یہ ہے کہ ہم موٹی موٹی کتابیں پڑھائیں اور یہ چھوٹی چھوٹی کتابیں پڑھائیں، پھر بھی تنخواہ ہمارے برابر پائیں؟
یہ اس سوچ کی ہلکی سی جھلک ہے جو آج ہمارے تعلیمی اداروں سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ اس ذہن کے خیال میں معاشرتی علوم یعنی سوشل سائنسز ایک بےکار چیز ہے اور تعلیمی اداروں میں انہیں پڑھانا قوم کا وقت اور پیسہ ضائع کرنا ہے۔ ان کے خیال میں تعلیمی اداروں میں صرف ٹیکنیکل، سائنس اور کامرس کے مضامین پڑھانے چاہیں گویا یہ لوگ اپنی قوم میں صرف ''مستریوں'' اور ''منشیوں'' کی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں کسی قوم میں اگر ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ جائے تو وہ قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتی ہے۔ ان کے خیال میں ترقی اس بات کا نام ہے کہ ہماری قوم میں دو جمع دو چار کرنے والے لوگ زیادہ ہوں یا پھر آلات بنانے والے اور یا ان آلات کے علم کا کھوج لگانے والے۔ ان کے خیال میں نہ تو مشینوں کی حکومت سے دل کی موت واقع ہوتی ہے اور نہ آلات، احساس مروت کو کچلتے ہیں۔ کیونکہ دل ان کے خیال میں ایک ایسا پمپ ہے جو جسم کو خون پہنچاتا ہے اور مروت جیسے احساسات گزرے وقت کی کہانیاں ہیں۔ اس سوچ کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے سے اقدار کا جنازہ نکلتا جا رہا ہے۔ اخلاقیات ایک اضافی چیز بن کر رہ گئے ہیں۔ شرافت، مروت، عزت، احترام، رواداری، برداشت، شرم وحیا، اور حفظ مراتب جیسی اقدار قصہ پارینہ بنتی جارہی ہیں۔ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ اتنی قربانی کے باوجود بھی وہ نہ ہوسکا جو یہ لوگ کرنا چاہتے تھے کیونکہ یہ ذہن اس بات سے آگاہ ہی نہیں کہ مشینیں بڑھانے سے معاشرے ترقی نہیں کیا کرتے بلکہ ترقی انسان بنانے سے ہوتی ہے اور انسان ہمیشہ معاشرتی یا آرٹس کے علوم بناتے ہیں نہ کہ سائنس کے علوم۔
معاشرتی علوم بحث ہی انسان یا انسانی اقدار سے کرتے ہیں جبکہ سائنسی علوم یا تو مشینوں سے بحث کرتے ہیں یا مشینی قواعد و ضوابط سے۔ چنانچہ ان کے ہاں ترقی کا منتہا بھی یہی قرار پاتا ہے کہ انسان کو بھی ایک مشین بنا دیا جائے۔ اور جب انسان ایک مشین بنتا ہے تو معاشرے سے انسانی اقدار، جذبات اور احساسات کا خاتمہ شروع ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ افراتفری، فساد اور اجتماعی بگاڑ کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم اس بات سے آگاہ ہی نہیں کہ جن قوموں کی نقالی میں ہم یہ سب کرنا چاہتے ہیں، ان قوموں نے معاشرتی علوم کو نہ صرف یہ کہ سائنسی علوم کے شانہ بشانہ رکھا بلکہ ان کا درجہ اور سٹیٹس ان کے ہاں ہمیشہ سائنس سے کہیں بڑھ کر رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم جیسوں کو بیوقوف بنانے کے لیے وہ اس بات کا ڈھنڈورا پيٹے رہے کہ ان کی ترقی سائنس کی مرہون منت ہے۔ ان قوموں کے لیڈر ہمیشہ وہ رہے جو معاشرتی علوم کے ماہر تھے۔ کبھی کوئی سائنس دان ان کا لیڈر نہ بن سکا۔ اور جب بھی قوم پر کڑا وقت آیا تو انہوں نے سانئس کو بچانے کے بجائے اقدار کو ترجیح دی۔ دوسری جنگ عظیم میں جب کہ برطانیہ شکست کے قریب تھا تو چرچل نے مشورے کے لیے کابینہ کا اجلاس بلایا جس میں اس ممکنہ شکست کے اسباب اور اس سے بچاؤ پر بحث کی گئی۔ وہاں چرچل نے تمام باتوں سے قطع نظر ایک سوال کیا۔ اس نے کہا مجھے صرف یہ بتاؤ کہ کیا ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں ،اگر کر رہی ہیں تو پھر برطانیہ کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ وہی ہوا جو چرچل نے کہا تھا اور جرمنی اپنی تمام تر سائنس اور اسلحے کے باوجود ڈھیر ہوکر رہ گیا کیونکہ جرمنی کی عدالتوں میں ظلم کا دور دورہ تھا۔
اس ساری بحث سے ہماری یہ مراد ہرگز نہیں کہ سائنس ایک بری چیز ہے۔ بلکہ ہم پوری دیانتداری سے یہ سمجھتے ہیں کہ سائنس ایک رحمت ہے۔ ہمارا کہنا صرف یہ ہے کہ معاشرتی علوم اور اقدار کی قیمت پر اس کا حصول اور فروغ اسے رحمت سے زحمت بنا دیتا ہے۔ اس زحمت سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے پاس انسانوں کی وافر کھیپ موجود ہو۔ اگر ہمارے پاس صرف ڈاکٹر، انجنیر، ماہرین حساب کتاب اور سائنس دان موجود ہوئے اور انسان نہ ہوئے تو سب بے کار جائے گا کیونکہ یہ سب انسانوں کے لیے بنایا جاتا ہے نہ کہ انسان اس کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ہاں اگر ڈاکٹر کو ڈاکٹر بنانے کے ساتھ ساتھ انسان بھی بنایا جائے انجینر کو انجنیرنگ کے ساتھ ساتھ انسان بننا بھی سکھایا جائے تو پھر بلا شبہ سائنس قوم کو ترقی کی منازل طے کرائے گی اس کے برعکس سانئس ترقی تو ضرور کرے گی مگر صرف سائنس ہی اور معاشرہ وہیں کا وہیں کھڑارہ جائے گا۔ جیسا کہ ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے۔
آج ہماری معاشرتی حالت سانئسی اعتبار سے پچاس برس قبل کی حالت سے کہیں آگے ہے لیکن ہمارا معاشرہ امن و سکون، اور اخلاق و اقدار کے اعتبار سے کہیں پیچھے ہے۔ اس لیے کہ ہم نے ان علوم کو اپنے تعلیمی اداروں سے نکال باہر کیا جو انسان کو انسان بناتے تھے۔ گلستاں بوستاں کے نام سے بھی آج ہمارے بچے واقف نہیں۔ کلیلہ دمنہ بھی ان کے لیے اجنبی اور حافظ، سعدی، رومی، اقبال و حالی بھی غیر۔ نتیجتاً وہ سب باتیں بھی ہمارے لیے اجنبی ہیں جن کا درس یہ لوگ یا کتابیں دیتی تھیں۔ ہم نے اپنے معاشرے میں ہر شعبہ زندگی کے لوگ پیداکرنے کی جدوجہد کی۔ ہم نے ڈاکٹر بنائے، انجینر بنائے، سائنس دان بنائے، ٹیچر بنائے، صنعت کار بنائے لیکن انسان نہ بنائے۔ اسی طرح ہم نے معاشرے میں بہتری لانے کے لیے بہت سے قانون اور کمیٹیاں بنائیں مگر ان قوانین کو نافذ کرنے والے صالح ہاتھ نہ بنائے چنانچہ آج سب طر ح کے لوگ ہونے کے باوجود اور ہر طرح کے قانون ہونے کے باوجود معاشرہ ابتری کا شکار ہے۔
معاشرتی علوم کے ماہرین کے بغیر قومیں ایک کٹی پتنگ کی طرح ہوتی ہیں۔ ان کی تقدیر ہوا سے بندھی رہتی ہے جس طرف ہوالے چلے وہ چل پڑتی ہیں اور جس جھاڑی پر ہوا گرا دے وہ گر پڑتی ہیں۔ وہ لوگ جو قوموں کو نشان منزل دیتے ہیں اور عزم و ہمت کی راہوں کی روشنی فراہم کرتے ہیں وہ معاشرتی علوم کی پیداوار ہی ہوا کرتے ہیں۔ یہی علوم ہیں جو اقبال، قائد اعظم، سر سید، شبلی، محمد علی جوہر اور ابوالکلام پيدا کیا کرتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی قسمت ان لوگوں کی جدوجہد نے بدلی نہ کہ سائنس کی گود میں پناہ لینے والوں نے۔ اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں میں سائنسی علوم پڑھنے کی شوق پیدا کیا۔ قوموں کی تقدیر اپنے لیڈروں کے ساتھ بندھی ہوتی ہے اور لیڈر پیدا کرنا انہی علوم کا کام ہے جنہیں آج ہم آرٹس کہہ کر حقارت کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کی ماؤں نے لیڈر جننے بند کر دیے ہیں شاید ایسا نہیں بلکہ ہم نے لیڈر بنانے والے علوم کی ناقدری کرکے خود ہی یہ راہیں بند کر دی ہیں۔ جبر و استبداد، ظلم اور آمریت کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ انہی لوگوں میں ہوا کرتا ہے جو ان علوم کی پیداوار ہوتے ہیں کیونکہ ان علوم کا خمیر ہی آزادی، حریت اور مساوات سے اٹھا ہے۔ یہی علوم ہیں جو قوموں میں عزت نفس، وقار اور خود داری پیدا کرتے ہیں۔ اور ان علوم کے بغیر ایٹم بم کے ہوتے ہوئے بھی لوگ بھیگی بلی بنے رہتے ہیں۔
دنیا کی ہر قوم کی جدوجہد آزادی پر نظر ڈالیں تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے ان میں جذبہ اور آزادی کی روح پھونکی۔ لنکن تو ذرا دور کی بات ہے امریکہ میں کالوں کی جدوجہد کو حال کے زمانے میں جس شخص نے منزل نصیب کی وہ بھی ایک مذہبی لیڈر اور قانون دان ہی تھا یعنی مارٹن لوتھر کنگ۔ خود وطن عزیز کی مختصر سی تاریخ میں اگر کسی کو آمریت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر نے کی ہمت ہو ئی ہے تو وہ بھی معاشرتی علوم کے حاملین ہی تھے۔ تاریخ میں دور جھانکنے کی ضرورت بھی نہیں۔ وطن عزیز کی عمر رواں کے شب و روز بھی اس بات پر گواہ ہیں کہ ملک کو ایٹمی قوت بنانے والا سائنس دان اپنی جبین نیاز آمریت کی چوکھٹ پر جھکا بیٹھا لیکن ایک قانون دان جس بہادری اور ہمت سے آمر کے سامنے ڈٹ گیا وہ انسانی حریت اور آزادی کی تاریخ کا ایک نیا باب ہے۔ اس ایک شخص کی اس ایک ادا نے قوم کو کتنا حوصلہ دیا تاریخ کے پیمانے ابھی آنے والے دنوں میں اس کو ماپنے کی کوشش کریں گے۔ انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو نے سچ کہا تھا کہ حکمرانوں کا اصل کام قوموں کو نشان منزل دینا ہے اور اس تک پہنچنے کا حوصلہ۔ باقی رہا راہیں بنانا تو وہ مستری مزدورں کا کام ہے وہ بناتے رہیں گے۔ یہ بات انہوں نے اس وقت کہی جب انڈیا کے نہرو نے انہیں یہ بات بتائی کہ انہوں نے اتنے کارخانے اور صنعتیں لگا ڈالی ہیں۔ تو سوئیکارنو نے کہا نہرو تم کس کام کے پيچھے پڑ گئے اس کام کے لیے تو بہت لوگ موجود ہیں۔ سائنس دان ڈاکٹر انجینر یہ کام کرتے رہیں گے ہمارا تمہارا کام کارخانے بنانا نہیں قوموں کی تقدیر بنانا ہے۔
جس طرح وجود زن سے تصویر کائنات میں رنگ ہے اسی طرح قوموں کی تقدیر میں رنگ یہ علوم بھرا کرتے ہیں۔ سائنس وہ خاکہ ضرور بنا سکتی ہے جس سے معاشرے ترقی کریں مگر ان خاکوں میں رنگ یہ علوم ہی بھریں گے کیونکہ ان علوم کے ماہرین ہی یہ بتا سکتے ہیں اور یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ایک ہی سائنسی ماڈل اور خاکے میں کس جگہ، کس ملک اور کس معاشرے میں کون سا رنگ بھرنا ہے۔ زندگی کے حسن، رعنائی اور تنوع کے امیں یہی لوگ ہوا کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے بغیر انسانی معاشرے اس محل کی طرح ہوتے ہیں جس پر دیو کا آسیب مسلط ہو یا پھر جو مکینوں کے بغیر اجڑ کررہ گیا ہو۔ مکان کی رونق اینٹیں اور سیمنٹ نہیں بلکہ مکیں ہوا کر تے ہیں اسی طرح انسانی معاشروں کی رونق، رعنائی، حسن اور تنوع سائنس نہیں بلکہ معاشرتی علوم کا مرہون منت ہوا کرتا ہے۔
ہم ایک بار پھر یاد دلا دیں کہ اس ساری بحث سے ہمارا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ ہم سائنس یا کامرس کے علوم کے دشمن ہیں بلکہ ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمیں اپنے معاشرے میں معاشرتی علوم کو ان کا جائز مقام دینا چاہیے۔ ان کے ساتھ ہماری عزت اور وقار وابستہ ہے۔ ان کی ناقدری اصل میں چند علوم کی ناقدری نہیں بلکہ اپنے پورے مستقبل اور آنے والی نسلوں کی ناقدری ہے۔ ہم وقتی فائدے کے لیے اپنی نسلوں کی راہیں کھوٹی کر رہے ہیں۔ سائنس کو ضرور آگے بڑھائیے مگر معاشرتی علوم کی قربانی کر کے نہیں بلکہ ان کے سائے میں۔ سائنس ان کے سائے میں پروان چڑھے گی تو معاشرے کے لیے رحمت بنے گی ورنہ زحمت۔
ہم پوری دیانتداری سے یہ سمجھتے ہیں کہ آج بزدلی، کم ہمتی، کرپشن، بددیانتی، ڈر، خوف، کے ماری کشکول زدہ پاکستانی قوم کو عزت نفس دینے، وقار مہیا کرنے اور حوصلہ فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور سب کچھ فراہم کرنا یقینا سائنس کے بس کا کام نہیں۔ سائنس اپنے سارے ایٹم بم بنا کے بھی ہمیں عزت نفس، خود داری اور غیرت و حوصلہ مہیا نہ کر سکی جب کہ ہمارا یقین ہے کہ معاشرتی علوم یہ سب کچھ ہمیں بہت تھوڑے عرصے میں فراہم کر سکتے ہیں بشرطیکہ ہم ان کو ،ان کا مناسب مقام دینے کے لیے تیار ہوں۔ جتنا ہم ان کے لیے کریں گے اس سے کہیں زیادہ یہ ہمارے لیے کریں گے۔ اللہ کرے کہ مہلت ختم ہونے سے پہلے پہلے ہمیں یہ سب باتیں سمجھ آ جائیں۔
|