New Page 11
سوال:اِسلام میں سختی نہیں ہے اور آپ ؐ ' رسولِ پاک ؐ کو قُرآنِ پاک میں مخاطب کر
کے کہا گیا ہے اکثر کہ آپ کو نگران بنا کے نہیں بھیجا . ایک حدیث ہے بڑی مشہور 'جو
ہم سب جانتے ہیں کہ اگر آپ کوئی
بُرا کام ہوتے دیکھیں تو اپنے ہاتھ سے روکیں ' نہیں تو زبان سے روکیں اوریا کم از
کم دِل میں بُرا جانیں. تو مجھے تھوڑا سا اِن دونوں چیزوں میں تضاد محسوس ہو رہا ہے
تو آپ ذرا اِس کے بارے میں وضاحت فرمایں گے.
غامدی صاحب : اِس میں کوئی
تصادم نہیں ہے ، یہ اِنسان کے دایئرہ ِ اِختیار کے بارے میں یہ بات بیان کی گئي ہے.
ہر اِنسان جو دنیا میں جیتا ہے اُس کا ایک دایئرہِ اِختیارہوتا ہے جیسے شوہر کا ایک
دایئرہِ اِختیار ہے ، باپ کا ایک دایئرہِ اِختیار ہے، کِسی ادارے کے سربراہ کا ایک
دایئرہِ اِختیار ہے ، کسی حکومت کے سربراہ کا ایک دایئرہِ اِختیار ہے ، تواِس میں
آدمی کو یہی کرنا چاہیئے کہ اگر کوئى جُرم ہو رہا ہے تو اُس کووہ ہاتھ سے روک دے.
حُکمرانوں کا یہ کام نہیں ہے کہ مِلاوٹ ہو رہی ہے تو وہ کہیں کہ بُہت اچھی بات ہے
ہم اِس پر وعظ کریں گے. کوئی آدمی قتل ہو رہا ہے اور وہ خیال کریں کہ اِس پر اُنہیں
نصیحت کرنی چاہیئے. ایسا ہی معاملہ گھر کے نظم و نسق کو جِس کے سپُرد کیا ہے ، اللہ
تعالیٰ نے ، باپ کی حیثیت سے ، شوہر کی حیثیت سے ، اُس کو کرنا چاہیئے. ایسے ہی ،
کسی ادارے کا سربراہ ہے تو اُس کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اندر اِس کا
اہتمام کرے . تو یہ دایئرہِ اِختیار سے متعلق ہے. یعنی ایسا نہیں ہے کہ آپ شوہر تو
ایک بیوی کے ہیں لیکن آپ مُنکر کہیں اور دور کرنے چلے جایئں. حُکمران آپ پاکِستان
کی ہیں اور حُکم آپ ہندوستان میں نافذ کرنے چلے جایئں. تو ہر آدمی کے دایئرہِ
اِختیارمیں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اُس کو طاقت سے بُرائی کو روکنا چاہیئے . اور
مُنکر سے کون سی بُرائی مُراد ہے؟ اِس سے شرعی احکام مُراد نہیں ہوتے. اِس کا مطلب
ہے ، وہ بُرایئیاں جِن کے بارے میں اِنسان مُسّلمہ طور پر جانتا ہے کہ یہ بُرائی
ہے. جیسے غبن ہے ، رِشوت ہے ، چوری ہے ، ملاوٹ ہے ، ظُلم ہے ، اِستحصال ہے . تو اِ
ن چیزوںکو ، ہر آدمی کو اپنے دایئرہِ اِختیارکے اندر طاقت سے ہی روکنا چاہیئے. اور
اگر دایئرہِ اِختیارمیں بھی آدمی طاقت سے نہیں روکتا ہے اور زبان سے بُرا کہتا ہے
تو ظاہر ہے کہ یہ دوسرا درجہ ہے. اور اگر دِل سے بُرا کہنے کی نوبت آ گئی ہے ، جبکہ
آپ کو اِختیار بھی حاصل ہے تو اِس کے بعد ، ٹھیک فرمایا حضورؐ نے کہ پھر تو اِس کا
مطلب یہ ہے کہ اِس کے آگے تو پھر رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان باقی نہیں رہ
جاتا ہے. تو اِس روایئت کا کوئی تعلُق عام لوگوں کے معاملات سے نہیں ہے ، دایئرہِ
اِختیار سے ہے. وہاں آپ کو حق حاصل ہے اور وہاں کوئی فساد بھی پیدا نہیں ہوتا۔