سوال : سر ! اِس دُنیا میں پیش آنے والی بہت ساری مُشکلات اور پریشانیاں جو ہوتی
ہیں۔ وہ ہماری سزائیں ہوتی ہیں یا ہماری آزمائشیں ہوتی ہیں ؟ ہم اِس کو کیسے
Determine
کریں گے کہ یہ جو اَب دُکھ مجھے ملا ہے یا پریشانی جو آئى ہے یہ میری سزا ہے یا یہ
کہ اللہ کی طرف سے کوئى بہتری جو ہے وہ پیدا ہو رہی ہے اور آزمائش سے مجھے گُذارا
جا رہا ہے۔
غامدی صاحب : پہلے تو اصولی طور پر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جو تکلیف ، جو مُصیبت بھی
آتی ہے وہ ہمارے جرائم کی سزا بھی ہو سکتی ہے ، ہماری کوتاہیوں کی سزا بھی ہو سکتی
ہے ، ہماری حماقتوں کی سزا بھی ہو سکتی ہے اور بعض موقوں کے اوپر جو قدرت نے اسباب
پیدا کئے ہیں اُن کو اِستعمال نہ کرنے کا نتیجہ بھی ہوتا ہے۔ یعنی دُنیا اللہ
تعالیٰ نے جِس اصول پر بنائی
ہے اُس میں مادی اسباب کی بھی اہمیت ہے ، اِخلاقی اسباب کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ تو
دونوں چیزیں سزا کا باعث بن جاتی ہیں۔ آپ نے حِفظانِ صحت کے اصولوں کی پیروی نہیں
کی تو آخر کچھ نتیجہ نکلے گا ، آپ نے کھانے پینے میں احتیاط نہیں کی تو آخر کچھ نہ
کچھ بُھگتنا پڑے گا۔ تو یہ چیزیں جتنی بھی ہیں عالمِ اسباب میں بھی اپنا کام کرتی
ہیں۔ اِسی طرح اِخلاقی قوانین ہیں۔ یعنی آپ نے کوئی غلطی کی ہے ، اللہ تعالیٰ کے
ساتھ کوئی بد معاملگی کی ہے ، کوئی اِنسانوں کے ساتھ اِس طرح کا کوئی معاملہ کیا ہے
تو اللہ پاک اُس کی اِس دنیا میں بھی سزا دیتے ہیں۔ اچھا یہ سزا ، اِس دُنیا کے
اندر ایسا نہیں ہوتا کہ صرف اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں سرکشی اِختیار کرنے والوں کو
دی جائے۔ سچے اِہلِ ایمان کو بھی کسی غلَطی سے یہیں نجات دلانے کے لیے دے دی جاتی
ہے تاکہ وہ سزا بھگت کر اللہ کے ہاں پاک ہو کر چلے جائیں ۔ تو سزا وہ تو بہرحال
سامنے رکھنا چاہیئے ۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ دُنیا جِس طرح بنائی گئی ہے ، اُس میں ہر
لحظہ ہم کوئی علمی رائے قائم کر رہے ہوتے ہیں یا کوئی عملی اِقدام کر رہے ہوتے ہیں
۔ تو علم اور عمل دونوں کے معاملے میں ہمارے روّئیے ، خواہ وہ عالمِ اسباب سے متعلق
ہوں یا اِخلاقی اصولوں سے متعلق ہوں ، ہر حال میں ہم پر اثرانداز ہو جاتے ہیں ، کسی
نہ کسی درجے میں۔ دوسری چیز یہ ہے کہ اللہ نے ایک عمومی اِمتحان برپا کر رکھا ہے۔
دُنیا بہرحال اِمتحان کے اصول پر بنائی گئی ہے اور وہ اپنے بندوں کا اِمتحان لے رہا
ہے۔ قُرآنِ مجید میں اُس نے واضع کر دیا ہے کہ یہ اِمتحان میں بیماریوں کے ذریعے
بھی لیتا ہوں ، یہ اِمتحان میں جنگ و جدال کی مُصیبتوں میں مُبتلا کر کے بھی لیتا
ہوں ، یہ اِمتحان میں غُربت کی مُصیبت میں بھی مُبتلا کر کے لیتا ہوں ۔ اچھا ، پِھر
اِس اِمتحان کے دوسرے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے کہ بعض اوقات میں بڑی نعمتیں دے کر
، اِقتدار دے کر ، حُسن دے کر ، بے پناہ عِلم دے کر ، بے پناہ دولت دے کر بھی کرتا
ہوں۔ تاکہ یہ معلوم ہو کہ بندہ اکڑتا ہے ، اُس کو اپنا اِستحقاق سمجھتا ہے یا میرا
شُکر گُذار ہو کر رہتا ہے ۔ تو امتحان بھی بہر حال ہوتا ہے ، اُس میں مصیبتیں اور
تکلیفیں اِمتحان کے اِس پہلو سے بھی آجاتی ہیں۔ پھر ایک اور چیز یہ ہوتی ہے کہ بعض
اوقات اللہ تعالیٰ کسی شخص کے اوپر کوئی مصیبت نازل کرکے ، کِسی تکلیف میں اُس کو
مُبتلا کرکے دوسروں کے لیئے عبرت بناتے ہیں۔ یعنی دوسروں کے لیئے اِس میں گویا
نصیحت کا سامان ہوتا ہے۔ بچوں کو بھی اسی اصول میں تکلیفیں آتی ہیں ۔معصوم لوگوں پر
بھی اِسی اصول پر تکلیفیں آتی ہیں۔ اللہ اِس کا آگے قیامت میں ازالہ فرمائے گا لیکن
دُنیا میں وہ لوگوں کے لیئے یہ معاملہ کر دیتا ہے۔ تو بڑے بڑے پہلو یہ ہیں ۔ اِس کے
علاوہ بھی بُہت سی شکلیں ہیں جِن میں ہم پر مُصیبتیں اور تکلیفیں آجاتی ہیں۔ اب رہ
گئی یہ بات کہ ہم اِس کو کیسے متعین کریں ، تو اللہ تعالیٰ نے ہم کو عقل دے رکھی
ہے، بصیرت دے رکھی ہے۔ اپنے اِحوال پر ہم کو ہر وقت غور کرتے رہنا چاہیے۔ عالمِ
اسباب میں جو غلَطیاں ہم نے کی ہوتی ہیں ، ایسا نہیں کہ وہ ہماری نگاہوں سے اوجھل
ہوتی ہیں۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کہاں ہم نے غلَطی کی ہے۔ بِالکل ایسے ہی اِخلاقی
لحاظ سے بھی اِنسان جب غلَطی کرتا ہے تو اُس کا ضمیر اُس کو بتا دیتا ہے کہ اُس نے
غلَطی کی ہے۔ تو ایسی کسی چیز کا آپ کو تنبعُ ہو جائے، اگر محسوس ہو جائے کہ ایسا
ہؤا ہے تو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیےاور اِس طرح کی ہر مصیبت اور تکلیف کو
یہی خیال کرکے قبول کر لینا چاہیےکہ میرا پروردگار میرے لیے پاکیزگی کا سامان کر
رہاہے اور اِس میں اُس کی بڑی حکمت ہوگی۔ تو یہ پہلو تو آسانی سے معلوم ہو جاتا ہے۔
اب رہ گئی یہ بات کہ آپ کو بظاہر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا معاملہ ہے تو کوئی
بات نہیں ہے۔ اللہ کا اِمتحان اور اللہ کی آزمائش ہو سکتی ہے۔ اِس معاملے میں وہی
روّیہ اِختیار کیجیے جو بندہِ مومِن کو اِختیار کرنا چاہیے۔ وہ جب صبر کے ساتھ اپنے
آپ کو اپنے خُدا کے سامنے ڈال دیتا ہے اور اِس طرح کی تکلیف اور مصیبت میں یہ
اِطمینان دِلا دیتا ہے کہ میں نے اِس کو قبول کر لیا ہے اور میں اِس میں اب تھڑدِلا
نہیں ہونگا تو میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ عام طور پر بہت کم عرصے میں تکلیف ختم ہو
جاتی ہے۔ یعنی اللہ نے اِسی اِمتحان میں اِنسان کو ڈال رکھا ہؤا ہے ۔ اگر آدمی اِس
میں پورا اُترنے کا حوصلہ کر لے تو اللہ اُس کے لیے اسباب پیدا کر دیتے ہیں۔ اور
اگر اِس کے باوجود بھی معاملہ نہیں ہو رہا تو پھِر یہ ہے کہ اللہ ہماری تطہیر کر
رہے ہیں، ہمیں پاک کر رہے ہیں، اِس پر ایمان رکھ کر اپنے پروردِگار کے حضور میں
حاضِر ہو جانا چاہیے۔ دو اور دو چار کی طرح اِنسانی معاملات میں فیصلہ کرنا مُشکل
ہوتا ہے کہ یہ تکلیف اِس وجہ سے آگئی ہے اور یہ تکلیف اُس وجہ سے آگئی ہے۔ اِنسان
ہی اپنا جائیزہ لے کر اِس معاملے میں آرا قائم کر تا ہے۔