New Page 15
(ایک ٹی وی پروگرام میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب سے گُفتگو)
میزبان : بسمِ
اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اسلام ُ علیکُم۔ پروگرام ہے ،11th
Hour، اور میں
ہوں وسیم بادامی۔ اب ماہِ رمضان المبارک کی اِنتہائی
رحمتوں اور برکتوں بھری ساعتوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ آج پورے مُلک میں پہلا روزہ رکھا
گیا اور اِس موقع پر ظاہر ہے کوئی یہ بات نہیں بھولا ہوگا کہ
٢٠٠٥
کے بعد ایک بار پھر ہم اپنے وطنِ
عزیز کے اُن لوگوں کو یاد کر رہے ہیں کہ جنہوں نے بہت ہی دُکھ ، رنج اور ایک
انتہائی عجیب و غریب اور اِنتہائی غیر یقینی اور غم سے بھری پہلی سحری اور پہلی
افطاری کی ہے۔ یہ مناظر ہم نے
٢٠٠٥ میں بھی دیکھے تھے جب ایک تباہ کُن زلزلے نے
کئی جانیں لے لی تھیں اور بہت زیادہ مالی نُقصان بھی ہوا تھا اور وہ آفت جب آئی تو
تب بھی ماہِ رمضان جاری تھا۔ پُرانی یادوں کو ہم تازہ بھی کر رہے ہیں اور ایک بات
پر کچھ لوگ پریشان بھی ہیں۔ آج کے پروگرام میں اِس پر بھی بات کریں گے۔ تو لوگ یہ
کہہ رہے ہیں ، ایک تاثر یہ بن رہا ہے کہ
٢٠٠٥ کے زلزلے کے موقع پر جِس طریقے سے
پوری قوم ایک ہو گئی تھی اور جِس طریقے سے
Foreign
سے اِمداد آنا شروع ہو گئی تھی ، وہ جذبہ شاید نظر نہیں آرہا۔ اگر ایسا ہے ، تو
ایسا کیوں ہے ؟ بہت ہی پریشان کُن بات ہے۔ اِس لئے کہ ہمیں بطور پاکستانی فخر ہے
اپنی اِس کوالٹی پر کہ ویسے آپس میں اختلافات کا شکار رہیں لیکن جب بھی کوئی آفت
آتی ہے ، کوئی مصیبت آتی ہے تو ہم ایک ہو جاتے ہیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ
٢٠٠٥
کے زلزلے کے مقابلے میں اگر ہم اُس طرز کے
اِکٹھے نہیں ہوئے تو اِس کی کیا وجہ ہے۔ بہرحال آج کے پروگرام میں ہم نے بات اِسی
پر کرنی ہے۔ اِس لئے کہ ظاہر ہے کہ اب یہ سیلاب سے بڑا اِس وقت کوئی اور موضوع نہیں
ہے کہ ہمارے مُلک کے ہزاروں نہیں ، لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ اِس وقت عجیب و
غریب کیفیت میں مُبتلا ہیں ، ماؤں کے بچے بِکھر گئے ہیں ، گھروں کے گھر برباد ہو
گئے ہیں ، لوگ برباد ہو گئے ہیں۔ ساٹھ لاکھ ایسے لوگ ہیں جو کہ اِس وقت خوراک کے
مُنتظر ہیں۔ ساٹھ لاکھ لوگ ! اب شاید ایک ایسا مُلک جِس کی آبادی اٹھارہ کروڑ ہو
وہاں ساٹھ لاکھ نسبتاً ایک چھوٹا ہندسہ ہے لیکن یہ تو کئی شہروں ، مُلکوں کی آبادی
ہوتی ہے۔ ساٹھ لاکھ لوگ اِس وقت متاثرین ، جِن میں بچے ہیں اور ساٹھ لاکھ لوگ اِس
وقت ایسے ہیں جن کے خوراک کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
عالمی ادارہ ، اقوامِ متحدہ یہ کہتا ہے کہ
٢٠٠٥ میں جو سونامی آیا تھا ، جس نے ساری دنیا کو ہلا
کر رکھ دیا تھا ، اُس کے متاثرین کی تعداد تھی پچاس لاکھ۔
٢٠٠٥
میں پاکستان میں
جو زلزلہ آیا تھا اُس کے متاثرین کی تعداد تھی تیس لاکھ او ر ـ،
Haiti
، میں جو حالیہ زلزلہ آیا تھا اُس کے متاثرین کی تعدا د بھی تھی
تیس لاکھ۔ لیکن اِس اکیلے سیلاب کے متاثرین کی تعداد ہے ایک کروڑ چالیس لاکھ۔ یعنی
اُن تینوں آفتوں کو ملا کر بھی اگر ہم جمع کریں
تو
یہ جو آفت ہے جِس سے پاکستان کا پورا مُلک گُذر رہا ہے وہ اُن سے بڑی ہے۔
ایک
بریک کے بعد بحث کا باقائدہ آغاز کریں گے ۔۔۔۔۔۔
خوش
آمدید کہتے ہیں آپ کو ایک بار پھر اور بات کریں گے بہت ہی نامور مذہبی سکالر ہیں
جناب جاوید احمد غامدی صاحب۔ اِن سے بات کرتے ہیں اور ۔۔۔ چونکہ اِس وقت ہر جگہ
موضوعِ بحث ہی سیلاب ہے۔ لوگ اپنے اپنے طور پر اِمداد کی بھی کوشِش کر رہے ہیں تو
مختلف باتیں بھی سُنتے ہیں ، کوئی کہتا ہے کہ جناب ، عذاب ہے اللہ کا ، کوئی کہتا
ہے کہ اِمتحان ہے ، آفت ہے۔ تو ہم یہ جاننے کی بھی کوشِش کرتے ہیں اور تصوّرات کو
مزید واضع کرنے کی کوشِش کرتے ہیں اور ایک مسلمان کی حیثیت سے، ماہِ رمضان المبارک
کہ بابرکت ساعتیں جاری ہیں ، ہماری کیا ذمہ داری ہے یہ جاننے کی کوشِش کرتے ہیں ،
جناب جاوید احمد غامدی صاحب سے۔
غامدی صاحب ، السلامُ علیکُم۔
غامدی صاحب : وعلیکُم
السلام۔
میزبان : پہلے
ذرا یہ بتائے کہ اِس وقت جو ساری آفت چل رہی ہے ، اب مجھ جیسا ایک عام آدمی تھوڑا
سا Confused
ہے ، اِس لحاظ سے کہ ٹھیک ہے لوگوں کی مدد کرنا تو سب ٹھیک ہے لیکن یہ جو الگ الگ
باتیں ہوتی ہیں کہ ایک حلقہ یہ کہتا ہے کہ ہمارے اعمال اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ اللہ
کا عذاب ہے ، وارننِگ ہے۔ ایک حلقہ یہ کہتا ہے کہ جناب قیامت کی نشانی ہے۔ کچھ لوگ
کہتے ہیں ، نہیں یہ آزمائش ہے۔ اللہ اِمتحان لے رہا ہے۔ کچھ لوگ تو میں نے سُنا ہے
کہ یہاں تک کہتے ہیں کہ اچھا ہے کہ یہ آفتیں آئیں۔ اِس لئے کہ جب آپ دُنیا میں اِس
طرح کی آفتیں اُٹھاتے ہیں تو آخرت میں اللہ آپ کے لئے مزید بہتری کا سامان پیدا
کرتا ہے۔ مجھ جیسا ایک عام آدمی جس کا زیادہ مطالعہ بھی نہیں ہے ، علمی حوالے سے ،
وہ ذرا Confused
ہے۔ آپ یہ بتائے اِس کو ہم کس طرح لیں ، اِس آفت کو اور اِس طرح کی دیگر آفتوں کو۔
غامدی صاحب: بھائی
یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ اِس کو عذاب تو ہرگِز نہیں کہا جا سکتا۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ
عذاب کا قانون قُرآن میں یہ بیان ہوا ہے کہ وہ اُس وقت آتا ہے جب اللہ تعالیٰ پہلے
لوگوں پرحق کو واضع کر دیتے ہیں۔ پھر نیکوکاروں کو اور بدکاروں کو الگ کرتے ہیں۔
نیکوکاروں کے لئے کوئی کشتیِ نوح
ؑ
فراہم کرتے ہیں ، اِس کے بعد عذاب آتا ہے ، عذاب اِس طرح نہیں آتا۔ عذاب کا قانون
قُرآنِ مجید میں بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے۔ یہ قُدرتی آفات ہیں ، دُنیا میں ہمیشہ
آتی رہی ہیں۔ اور اِن کے تین مقاصد ہوتے ہیں۔ ایک چیز تو یہ ہوتی ہے کہ لوگ بیدار
ہوں ، اپنی عقل کو اِستعمال کریں جو اللہ تعالیٰ نے اُن کو دے رکھی ہے۔اور وہ اللہ
تعالیٰ کے خزانوں کی تحقیق کرکے ایسے طریقے ایجاد کریں جِن سے اِن آفات کا مقابلہ
کر سکیں۔ تہذیب و تمدن کی ساری ترّقی اِسی وجہ سے ہوئی ہے۔ چُنانچہ سائنس کی جتنی
تحقیقات ہیں اُن پر آپ غور کریں تو اُن کے نتیجے میں اِنسان نے بہت سی جگہوں پر اِن
آفات پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔
دوسری چیز جو پیشِ نظر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جب اِس طرح کی کوئی آفت آئے گی ، کوئی
مصیبت آئے گی تو لوگ اِس اِمتحان سے گُذریں گے کہ وہ کیا روّیہ اختیار کرتے ہیں۔
جِن پر آفت آئے گی اُن کے صبر کا اِمتحان ہوتا ہے اور جِن پر نہیں آتی اُن کے شُکر
کا اِمتحان ہوتا ہے کہ اللہ نے اُن کو محفوظ رکھا تو وہ اپنے بھائیوں کی مدد کرتے
ہیں ، وہ آگے بڑھ کر اُن کے دُکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔ اور اپنی طرف سے جو کچھ ہو
سکتا ہے وہ کر گُذرتے ہیں یا نہیں کر گُذرتے۔ اِس امتحان کو اللہ نے ویسے بھی برپا
کر رکھا ہے۔ اِس طرح کے موقعوں پر یہ بہت بڑے پیمانے پر ہو جاتا ہے اور پوری کی
پوری قوم کا ہو جاتا ہے۔ یعنی یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ قوم کے اندر کتنی جان ہے ،
کتنی ہمت ہے ، کتنا حوصلہ ہے اور وہ اِس طرح کے موقعوں پر کِس طرح
Behave
کرتی ہے۔
میزبان : غامدی
صاحب ، میں آپ سے کچھ اور بھی ذرا چیزیں سمجھنا چاہوں گا۔ آپ کو کچھ زحمت ہم دینا
چاہیں گے ، ہمارے ساتھ رہیئے گا۔ چونکہ
Live Calls
کا بھی سلسلہ جاری ہے اور بہت سی ،کالز، کو بھی ہم ، ہولڈ، کروا رہے ہیں لیکن ہم
ایک آدھ ،کال، لے لیتے ہیں۔ شاید وہ آپ سے بھی کچھ پوچھنا چاہیں تاکہ عوام کی رائے
سامنے آتی رہے۔ غامدی صاحب آپ بھی ہمارے ساتھ موجود رہیئے گا۔
صبا
صاحبہ ہمارے ساتھ ہیں۔ السلامُ علیکُم۔ صبا صاحبہ !
صبا
صاحبہ : وعلیکُم
السلام ، وسیم صاحب۔ پہلے تو میں آپ کے ،شو، کو کہوں گی کہ آپ لوگ بہت اچھا ، شو،
کر رہے ہیں۔ لیکن میں جاننا چاہ رہی ہوں کہ جو سیلاب زدگان ہیں بے چارے غریب جِن کے
پاس اِس وقت کھانے کو نہیں ہے ، غیر مُلکی اتنی امداد ہو رہی ہے وہ کہاں جا رہی ہے۔
جو حق دار ہیں اُن کو کیوں نہیں مِل رہی ہے۔ آج کتنے دِن ہو گئے ، سندھ ، سرحد ،
پنجاب ، تقریباً چاروں صوبوں میں یہ حال ہے اور حکومت کیا کر رہی ہے ہماری ؟
میزبان : بہت
بہت شُکریہ آپ کا۔ کئی لوگوں کے یہ اندیشے ہیں۔ حکومتی نمائندے سے بھی بات کریں گے۔
ابھی غامدی صاحب کے بعد اُن سے پوچھیں گے کہ یہ جو لوگوں کے اندیشے ہیں اِس پر کیا
کہا جائے۔ بلکہ غامدی صاحب سے بھی اِسی سے متعلق سوال پوچھتے ہیں۔
غامدی صاحب ، اب لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جِس طرح آپ نے کہا کہ باقی لوگوں کے لئے
بھی ایک پیغام ہے اِس آفت میں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ جناب ، ہم تو اِمداد دینا چاہتے
ہیں۔ اب میں نہیں چاہوں گا کہ آپ کو کسی سیاست میں گھسیٹوں ، لیکن ایک عام تاثر یہی
ہے لوگوں کا کہ جناب ہمیں نہیں معلوم کہ ہماری رقم صحیح لوگوں تک جائے گی یا نہیں
جائے گی۔اب ایسی صورت میں ایک عام آدمی کیا کرے۔ وہ کہتا ہے کہ میں اِمداد دینا
چاہتا ہوں ، خود وہاں تک جانا میرے لئے مُمکن نہیں ہے۔ لیکن حکومت جو اِمداد کا سب
سے بڑا ذریعہ ہے اُس پر مجھے اگر اعتماد نہیں ہے تو کیا کرے وہ آدمی؟
غامدی صاحب : میں
آپ کے اِس سوال کا جواب بھی دیتا ہوں۔ اگر آپ اِجازت دیں تو میں ایک نقطہ جو بیان
کرنا چاہتا ہوں وہ بیان کر لوں۔ دو باتیں میں نے پہلے عرض کی تھیں۔ میں نے یہ بیان
کیا تھا کہ تین چیزیں پیشِ نظر ہوتی ہیں۔ تیسری چیز جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِس
طرح کے موقعوں پر پیشِ نظر ہوتی ہے وہ لوگوں کی تنبیہ ہے کہ وہ بیدار ہوں اور خدا
کی طاقت کو سمجھیں۔ یہ دیکھیں کہ کائنات کا پروردِگار اِسی کائنات کی چیزوں کو کِس
طرح ، جب اُن کی مُہار چھوڑ دیتا ہے تو کتنی بڑی آفت بنا دیتا ہے تو اُس سے ڈریں۔
اُس کی طرف متوجّہ ہوں۔ یہ تین چیزیں ہیں جو ہمیشہ پیشِ نظر ہوتی ہیں، ایسے موقعوں
پر۔
یہ
جو آپ نے ابھی بات کی ہے یہ ایک اُس سے بڑا المیہ ہے یعنی ایک تو قدرتی آفت آئی ہے۔
دوسری طرف ہم اِخلاقی لحاظ سے اِتنے پست ہو چُکے ہیں اور ہماری قیادت اِتنی پستی
میں گِر چُکی ہے کہ لوگوں کو کسی پر اعتماد نہیں رہا۔ چند ایسی تنظیمیں ،آپ کہہ
سکتے ہیں، رہ گئی ہیں کہ جن پر لوگ کسی حد تک اعتماد کرتے ہیں ورنہ بحیثیتِ مجموعی
پورے کا پورا اجتماعی نظم اخلاقی دیوالیہ پن میں مبتلا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ
سیلاب سے بڑی آفت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ آکے نہیں بڑھ رہے۔ تو میری گذارش اِس میں
یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر اگر اعتماد کا بُحران بھی ہو تو لوگوں کے اندر ایک ایسی
طاقت ہونی چاہیئے کہ وہ خود آگے بڑھیں اور ایسے راستے تلاش کریں کہ جن سے بہرحال
اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے پہنچ سکیں۔ اِس المیے میں اپنا کردار مجھے بھی ادا کرنا
ہے ، آپ کو بھی کرنا ہے ، ہر شخص کو ادا کرنا ہے۔ اِس میں اگر اِتنا سخت اخلاقی
بُحران پیدا ہو گیا ہے کہ ریاست پر ، اُس کی مشینری پر لوگوں کا اعتماد نہیں رہا تو
بہرحال خدا کی زمین خالی نہیں ہو جاتی۔ ابھی بھی ایسے ذرائع موجود ہیں۔ آخر ریڈکراس
کی تنظیم موجود ہے ، بعض ایسی جماعتیں اور تنظیمیں موجود ہیں جن پر لوگ کسی حد تک
اعتماد کرتے ہیں۔ تو میرا احساس یہ ہے کہ آگے بہرحال بڑھنا چاہیئے ، راستے تلاش
کرنے چاہیئں۔ راستے بند نہیں ہو جاتے۔
میزبان : میں
آپ سے یہ بھی چاہونگا ، غامدی صاحب ، کہ ذرا اُن لوگوں کے لئے ، کہ شاید کچھ اثر ہو
جائے، اُن لوگوں کے لئے بھی کچھ کہیئے کہ ایک طرف تو حکومت کی آپ نے بات کی۔ باقی
اب یہ بھی خبریں آرہی ہیں کہ جناب چونکہ وہاں پر خیمے ، کمبل ، انِ چیزوں کی بڑی
ضرورت ہے تو کچھ علاقوں میں باقاعدہ اب اِس کے ریٹ طے ہو رہے ہیں۔ اب باقاعدہ یہ
چیزیں مہنگی ہو گئی ہیں۔ جب زلزلے کا موقع آیا تو ہم نے ایسے واقعات تک دیکھے کہ
خاتون بے چاری مری پڑی ہیں اُن کے ہاتھ میں اگر چوڑیاں ہیں تو کوئی شقی القلب
اِنسان وہ ہاتھ کاٹ کر لے گیا، اُن چوڑیوں کی وجہ سے۔ اب یہ وہ واقعات ہیں جو عام
آدمی کو ذرا ماےوس بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ میں کیا امداد کروں ، یہاں تو اِس
طرح کے لوگ ہیں اِس معاشرے میں۔ ذرا کچھ ایسے لوگوں کے لئے بھی کہیں کہ شاید کچھ
معاملے میں بہتری آئے کہ اِس طرز کی آفت میں بھی لوگ اتنی گھٹیا حرکتیں جو کرتے
ہیں۔ تو کیا کہیں گے غامدی صاحب ؟
غامدی صاحب : میں
نے تو اِسی لئے عرض کیا کہ اِس المیے میں جو چیز سامنے آئی ہے وہ ایک مجموعی اخلاقی
بحران ہے۔ یعنی کبھی حکومت اور ریاست اِس طرح برباد نہیں ہوتے جب تک قوم برباد نہ
ہو جائے۔ ہم قومی حیثیت سے بھی بڑی پستی میں گِر چکے ہیں اور بد قسمتی یہ ہے کہ اِس
موقع پر بھی بعض لوگ اِس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں۔ تاہم ایسا نہیں کہ خدا کی دنیا
بالکل ویران ہوگئی ہو۔ آپ کو اِسی دنیا میں ایسے بہت سے لوگ ملیں گے کہ جو اپنی جان
جوکھم میں ڈال کے اِن علاقوں میں پہنچ رہے ہیں ، لوگوں کی اِمداد کر رہے ہیں۔ اور
یہ جو بد قسمت لوگ ہیں اُن کو اندازہ نہیں ہے کہ دنیا میں بھی اپنے لئے کیا بربادی
کما رہے ہیں اورآخرت میں بھی بربادی کما رہے ہیں۔اِس طرح کے موقع پر اِنسان کا
کلیجہ شق ہو رہا ہوتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کی مدد کرنے کے لئے
آگے بڑھے اور اِس میں اگر کوئی چوڑیاں اُتار رہا ہے یا کسی کا مال لُوٹ رہا ہے یا
کسی کو نقصان پہنچا رہا ہے یا خیمے اُکھاڑ رہا ہے تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ اُس نے
اپنے آپ کو بالکل شیطان کے حوالے کر دیا ہے۔ اللہ کی اِس سے پناہ مانگنی چاہیئے اور
ایسے لوگوں کو متنبع ہونا چاہیئے کہ خدا کی زمین کے اوپر اِس طرح کی آفت اگر آج اِن
بھائیوں پر آئی ہے تو کل وہ بھی اِس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اور یہاں پر اگر وہ بچ
بھی گئے تو قیامت کے دن تو بہر حال خدا کے سامنے جوابدہ ہونا ہے اور اُس جوابدہی کے
موقع کے اوپر کسی کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں ہوگا۔ خدا کی عدالت جب اپنا فیصلہ
سنائے گی تو اِس طرح کے لوگوں کو جہنم رسید کر دے گی۔ اِس لئے بہتر ہے کہ یہیں اپنی
اِصلاح کر لیں اور اپنے بھاییئوں کی مدد کریں بجائے اِس کے کہ اس طرح ان کو لوٹنا
شروع کر دیں۔
میزبان : غامدی
صاحب میں آپ کا بہت شکر گذار ہوں کہ آپ نے ہمیں وقت دیا۔ اور آپ سے باتیں تو ابھی
بھی بہت زیادہ پوچھنے اور سمجھنے کی ہیں اور وقت چونکہ کم ہے اور ،کالز، بھی بہت
زیادہ ہیں۔ آپ کا بہت بہت شکریہ آپ نے ہمیں وقت دیا۔
غامدی
صاحب نے ہمیں جو بات کہی ، یہ بہت ضروری ہے۔ کہ ٹھیک ہے آپ کی حکومت اگر نااہل ہے ،
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ لوگ اپنے اپنے طور پر ڈنڈیاں بھی مار رہے ہیں تو یہ بات افسوس
ناک ضرور ہے لیکن یہ بات مجھے اور آپ کو یہ جواز فراہم نہیں کرتی کہ ہم امداد نہ
کریں۔ یعنی میں یہ کہہ کر کہ جناب حکومت تو کچھ نہیں کر رہی ، حکومت تو پیسے کھا
جائے گی ، ادارے تو کچھ نہیں کر رہے تو میں کیوں امداد کروں۔ یہ جواز نہیں ہے۔ اگر
لوگ اپنا کردار ادا نہیں کر رہے ، کوئی ایک بندہ غلطی کر رہا ہے ، کوئی ایک ادارہ
غلطی کر رہا ہے تو اِس کو جواز بنا کر میں گھر میں بیٹھ جاؤں یا امداد نہ کروں یہ
بھی انصاف کی بات نہیں ہے۔ یہ ہم جانتے ہیں کہ جس علاقے میں اس وقت آفت ہے وہاں کے
اکثریتی علاقے ایسے ہیں جن کی خواتین گھروں سے باہر نہیں آتیں۔ آج وہ خواتین کھلے
آسمان تلے بیٹھی ہیں۔ تو وہاں سایئبان کی بہت ضرورت ہے۔ اور یہ میں اور آپ نہ
بھولیں کہ یہ میرے اور آپ کے گھر کو خواتین بھی ہو سکتی تھیں یا ہو سکتی ہیں۔ امداد
ضرور کیجیئے اور ہمیں اپنی رائے سے آگاہ کیجیئے۔ اللہ
حافظ۔