Powered by UITechs
Get password? Username Password
 
Menu << Go Back Home New Articles Popular Articles Top Rated Articles Submit an Article
اسلام میں چار شادیوں کی اجازت
Author/Source: Javed Ahmad Ghamidi / Amjad Mustafa  Posted by: admin
Hits: 5857 Rating: 0 (0 votes) Comments: 0 Added On: Monday, November 29, 2010 Rate this article

(ایک ٹی وی پروگرام میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی گُفت گُو)

 

میزبان : اسلامُ علیکُم ، ناظرین پروگرام غامدی میں آپ کا میزبان ، آصف افتخار ، آپ کو خوش آمدید کہتا ہے حسبِ معمول اس پروگرام میں ہم جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے ساتھ کچھ دینی موضوعات پر گفتگو کریں گے اِس دفعہ پروگرام میں ہمارے ساتھ گفتگو کے لیے ہمارے شُرکاء میں شامل ہیں ، مولانا محمد اجمل قادری صاحب ، جو کہ ایک معروف عالمِ دین ہیں اور ہمارے ساتھ موجود ہیں ، مہرین ملک صاحبہ ، کہ جو اِنسانی حقوق کی کارکُن ہیں اور ،،شرکت گاہ،، نامی این۔جی۔او۔ سے اِن کا تعلُق ہے۔

مولانا اس پروگرام میں ہمارا اصل موضوع تو خواتین کے حقوق ہیں اور اس حوالے سے میں سوالات کی ابتدا تعدّدِ ازواج کے مسئلے سے کرنا چاہتا ہوں اور چاہتا یہ ہوں کہ آپ ہی سے سوالات کی ابتدا کی جائے۔ سوال میرا یہ ہے کہ عام رائے یہی ہے کہ مسلمان مردوں کو اِسلام میں یہ ایک کُھلی اجازت ہے کہ وہ چار شادیاں کر سکتے ہیں اور اِس بارے میں کوئی خاص تحدید نہیں کی گئی ، کوئی خاص قانون نہیں ہے۔ مسلمان مردوں کو یہ آزادی ہے۔ جبکہ خواتین کے اوپر بہت ساری Confinements ہیں ، بہت سارے ان کے اوپر جو اس کے مقابلے میں ایک Discrimination پائی جاتی ہے۔ اِس کے بارے میں کچھ اِظہارِ خیال فر مائیں گے۔

مولانا قادری صاحب : تعدّدِ ازواج ہے ، یہ پوری دنیا میں نفسیاتی بیماریوں کو کم کرنے اور وہ لوگ جو عام حالات میں بے کار ہو جاتے ہیں ، قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں یا ان کی پس پردہ اور پس منظر کی زندگی لوگوں کے سامنے نہیں آتی۔ یہ اس کے مقابلے میں ایک اچھا حل ہے۔ مثلاً فرانسیسی سوسائٹی میں یہ عام بات ہے کہ ایک آپ کی بیوی ہے ، ایک آپ کی راکھیل ہے۔ تو اسلام نے ہر چیز کو غیر قانونی سے قانونی دائرے میں لانے کی سعی کی ہے۔ اور یہ جو تعدّدِ ازواج کا مسئلہ ہے اس کو یورپ نے اور عیسایوں کے اس بیچ کے عہد کے لوگوں نے اسلام پر ایک گالی کے طور پر ، ایک پھبتی کے طور پر کسا ہے۔ وگرنہ تعدّدِ ازواج میں ایک شخص کو اپنے یہاں جو کنیزیں تھیں ، جو غیر شادی شدہ تھیں ، ان سے استفادے کا اور التفا کا حق حاصل تھا لیکن دھیرے دھیرے وہ ختم ہوگیا۔ اب آپ دیکھیے پوری دنیا میں ، مثلاً میں اپنے ملک کی بات کرتا ہوں ، ہمارے ہاں آبادی میں ٣٣۔ ٥١ فی صد عورتیں ہیں تو اِس اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں ، خود پاکستان میں اگر ہر عورت کی شادی ہو تو اس کے لیے مرد دستیاب نہیں۔

 

میزبان : مولانا کی بات کافی حد ہمارے سامنے آئي کہ وہ یہ فرما رہے ہیں کہ فطرت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ، معاشرتی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام نے ایک بہتری کی صورت پیدا کی ہے۔ اِس سوال سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے۔

مہرین ملک صاحبہ : ہمارے ہاں یہ ہوگیا ہے کہ اس Provision کو ایک بہت ہی مختلف انداز میں یا پھر بہت ہی غلط انداز میں لوگوں نے خود ہی تاویل کرکے تو یہ کہہ دیا گیا ، یا لوگوں نے خود فرض کر لیا ہے کہ ہمیں تو اجازت مل گئي ہے ۔ لیکن یہ اجازت ، میں اس سے بالکل اتفاق نہیں کروں گی ، یہ اجازت نہیں ہے۔ یہ ایک مصلحت کے تحت ایک گنجائش رکھی گئی ہے۔ اور اس میں اب یہ ہے کہ جو اب ہم فیلڈ میں جو کام کرتے ہیں اس میں یہ آرہا ہے ۔ عورتوں کے بہت مسائل ہیں کہ جن کے خاوندوں نے ایک سے زائد شادی کر لیے ہیں ان عورتوں کے لیے یہ مسائل ہیں کہ اُن وہ باقاعدہ نان نفقہ ادا نہیں کر رہے اور بیویوں کے مابین اور ان دونوں بیویوں سے جو اولادیں ہیں ان کی ، ان کے مابین ، وہ جو باقاعدہ ، کہتے ہیں نا ، انصاف یا باقاعدہ نان نفقہ ادا کرنا یا ان کے حقوق پورے کرنا ، وہ نہیں ہو رہے۔ تو تاویل جو ہے وہ ہم نے غلط ا س کی کر دی ہے۔

 

میزبان :  اِسلام کا اصل مقصد کیا ہے اور جو تعدّدِ ازواج کی اجازت دی گئی ہے اس کا پس منظر کیا ہے اور اس کے کیا شرائط ہیں آپ کے نزدیک ؟

غامدی صاحب :  پہلی بات تو میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کروں گا کہ یہ بات میری کبھی سمجھ میں نہیں آسکی کہ جب یہ کہی جاتی ہے کہ اسلام نے ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی ہے۔ اس کے معنی تو یہ ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ؐ کی بعثت ہوئی اس سے پہلے دنیا میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت نہیں تھی ، لوگ ایک ہی شادی کرتے تھے۔ نبیؐ کی بعثت ہوئی  ، قرآن نازل ہوا تو اس میں پہلی مرتبہ لوگوں کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دے دی ہے  ، یہ صورتِ واقع نہیں ہے۔ جب سے یہ دنیا بنی ہے  ، تمدنی حالات کے لحاظ سے  ، اور اپنے سماجی پس منظر کے لحاظ سے لوگ ایک سے زیادہ شادیاں کرتے رہے ہیں۔ یعنی یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے جس کو اسلام نے آ کر مُباح قرار دیا اور اس کے بعد لوگوں نے ایک سے زیادہ شادیاں کرنی شروع کر دیں۔ ابھی مولانا نے اس جانب اشارہ کیا کہ خود عربوں کے ہاں ایک سے زیادہ شادیاں کی جاتی تھیں اور بعض اوقات ان کی تعداد غیر محدود ہو جاتی تھی۔ اسی طریقے سے اگر آپ بائبل کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ انبیاء ِ بنی اسرائیل کے ہاں بھی اس کا پورا رواج رہا ہے اور بنی اسرائیل کے اپنے قومی مزاج میں بھی یہ بات شامل رہی ہے۔

آپ دنیا کی دوسری تہذیبوں کا مطالعہ کریں تو وہاں پر بھی یہ چیز آپ کو ملے گی۔ تو اس وجہ سے صورتِ حال یہ نہیں ہے اور نہ اس کو اس طریقے سے پیش کرنا چاہیے کہ اسلام آیا اور اسلام نے آکر ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دے دی۔ بات اگر کہنی ہو تو یوں کہنی چاہیے کہ دنیا میں جو اجازت پہلے سے موجود تھی ، لوگ اس کو مانے ہوئے تھے ، اس کے مطابق عمل کر رہے تھے ، اسلام نے اس کے اوپر پابندی نہیں لگائی۔ یعنی جو پابندیاں لگائیں وہ اصلاح کی نوعیت کی تو لگائیں لیکن اس چیز کو بالکل ممنوع نہیں قرار دے دیا کہ آپ ایک سے زیادہ شادی نہیں کر سکتے۔

دوسری بات جو میں عرض کرنا چاہوں گا ، وہ یہ ہے کہ جہاں تک اسلام کے مزاج کا تعلق ہے وہ اصل میں قصہِ آدم و حوّا سے معلوم ہو جاتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ بات وہاں واضع کر دی ہے کہ فطری طور پر مرد کو ایک ہی بیوی کے ساتھ معاملات کرنے چاہئیں ۔ اسی سے ایک اچھا گھر بنتا ہے  ، اسی سے اچھا خاندان وجود میں آتا ہے  ، اسی سے تعلقات کی صحیح نہج قائم ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی فطرت اصل میں یہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ایک مرد کی ضرورت ایک سے زیادہ شادیوں کے لیے تھی یا زیادہ خواتین ہونی چاہئیں تھیں تو پھر اللہ تعالیٰ کو اس دنیا کی ابتدا کرتے ہویئے آدم کی بھی ایک سے زیادہ بیویاں بنانی چاہئیں تھیں۔ تو آدم کے لیے ایک ہی حوّا بنائی گئی اور اسی سے اس پوری کائنات میں انسانیت کی ابتدا ہوئی۔ یہ چیز خود بتاتی ہے کہ اصلاً کیا مطلوب ہے ۔

اب رہ گئی یہ بات کہ انسان کے تمدنی ، سماجی ، تہذیبی تقاضے ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں وہ ایک سے زیادہ شادیاں کرتا ہے۔ تمدن تبدیل ہوتے رہتے ہیں ، تہذیبی روایات تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔

ہمارے ہاں ہندوستان کا مزاج بالکل الگ ہے ، عربوں کا مزاج بالکل الگ ہے۔ یورپ کا مزاج پچھلے کم و بیش ایک ہزار سال سے مسیحی تہذیب کی وجہ سے بالکل الگ ہو چکا ہے وہ اس لحاظ سے فیصلے کرتے ہیں۔ اسلام نے پابندی نہیں لگائی ، صحیح چیز یہ ہے۔ یعنی یہ کہنا چاہیئے کہ پابندی نہیں لگائی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا مزاج واضع کر دیا ہے۔ اور انسان کی بنائی ہوئی فطرت کو بھی واضع کر دیا ہے کہ آپ ایک بیوی کے ساتھ گھر بسائیں اور اسی کے حقوق کو ٹھیک طریقے سے ادا کرتے ہوئے زندگی بسر کریں۔ لیکن اگر کوئی تمدّنی ضرورت تقاضہ کرتی ہے تو بہرحال آپ ایک سے زیادہ شادی کر سکتے ہیں۔ یہ پابندی لگائی گئی ہے اور جس لحاظ سے یہ زیرِ بحث آئی ہے اس کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیئے۔ قرآنِ مجید میں یہ کوئی اجازت دینے کے محل میں مذکور ہی نہیں ہے۔ وہاں تو مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ کچھ یتیموں کی سرپرستی کا مسئلہ در پیش ہو گیا ہے ۔ جنگیں ہوئی ہیں ، اس میں عورتیں بیوہ ہوئی ہیں ، ان کے بچے یتیم ہیں۔ قرآنِ مجید نے اس موقع پر ، جیسے زلزلہ آتا ہے یا کوئی طوفان آتا ہے تو آپ بعض اوقات اپیل کرتے ہیں ، تو اس موقع پر یہ اپیل کی ہے۔ اس وقت کے حالات میں اس سے بہتر کوئی صورت نہیں ہو سکتی تھی ، کہ لوگ ایک سے زیادہ شادیاں تو کرتے ہی ہیں ۔ قرآنِ مجید نے یہ کہا کہ یہ نیکی کا کام کرنے کے لیے ، ان بچوں کو سہارا دینے کے لیے ، ان کی ماؤں سے ایک ایک ، دو دو ، تین تین ، چار چار شادیاں کر لو۔ اور اس میں خاص طور پر یہ بات واضع کر دی کہ تمہیں ہر حال میں انصاف کرنا ہوگا۔

انصاف کے بارے میں جو آپ نے سوال کیا ہے تو وہ دل کے میلان کا نام نہیں ہے۔ بلکہ معاملات میں انصاف ہے۔ اور دنیا میں معاملات ہی میں انصاف کا تقاضہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہ دل کا میلان ایک ایسی چیز ہے جس میں ایک طرف تو آپ ایک نیکی کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں ۔ آدمی کی بیوی ہے گھر میں ، اور آپ اس سے تقاضہ کر رہے ہیں کہ وہ بچوں کو سہارا دینے کے لیے ، یتیموں کی سرپرستی کے لیے ایک سے زیادہ شادی کرے اور اس کے بعد اس سے یہ تقاضہ بھی کرتے ہیں کہ اس کی بیوی جو پہلے سے ہے ، اس کے اور ان کے درمیان دِلی میلان میں بھی کوئی فرق نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ خلافِ فطرت ہے۔ چنانچہ یہ بات نہیں کہی گئی۔ بلکہ یہ بات واضع کردی قرآنِ مجید نے ، سورہ ئ نساء میں ہی آگے جا کر ، کہ اصل میں جس چیز کا تقاضہ کیا گیا ہے وہ معاملات کا انصاف ہے اور اسے ہر حال میں ملحوظ رکھنا چاہیئے اور اس میں اتنی سختی برتی گئی کہ یہ کہا کہ اب تم اپنے ضمیر کے اندر جھانک کر دیکھ لو ، انصاف کرنے کی قوّت نہیں رکھتے ، معاملات کو برابر نہیں رکھ سکتے تو ’’فواحدہ‘‘ ۔ ۔ پھر ایک ہی شادی کے اوپر اکتفا کرنا ہوگا۔

 

میزبان :  جو غامدی صاحب نے اشارہ کیا ہے کہ حضرت آدم ؑ کی طرف ، جو ظاہر ہے کہ بہترین فطرت پر پیدا کیے گیے تھے ، تو اس سے کیا اس طرف اشارہ نہیں ہوتا کہ اصل میں تو شاید ایک ہی شادی مقصود ہے۔ ایک سوال کا پہلو یہ ہے اور دوسرا جو نفسیاتی تفاوت کی بات کی ، تو یہی بات کیا خواتین کے حوالے سے نہیں کہی جا سکتی ؟ بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر نفسیاتی فرق ہی بنیاد تھا تو پھر یہ اجازت ، اس قسم کی اجازت ، Polyandry کی اجازت کیوں نہیں دی گئی؟

مولانا قادری صاحب :  دیکھیے ، ابھی غامدی صاحب محترم نے بھی فرمایا کہ قرآنِ مجید نے بیٹوں کو بھی نعمت فرمایا ، بیٹیوں کو بھی نعمت فرمایا ہے۔ اور وہ بیٹے ، وہ ،،بنینِ شہود،، جو آپ کے contact میں ہوں ، آپ کا ان سے ربط و ضبط ہو۔ وہ آپ کے لیے ہوں اور آپ ان کے لیے ہوں ، تو یہ اللہ کی نعمتوں کا ایک بہت بڑا ، اور اس کے احسانات کا ایک بہت بڑا اِظہار ہے۔ دوسری طرف قرآنِ پاک نے جب شادیوں کی اجازت دی ہے وہاں پر ،ایک، کا لفظ ہی استعمال نہیں کیا۔ وہاں یہ ابتدا ہی دو سے کی ہے اور اِس سے بعض مفسرین نے یہ مطلب اخذ کیا ہے کہ جب مرد کے دو گھر ہوتے ہیں تو اس کو بہتر deliver کرنے میں سہولت رہتی ہے۔ اور سیدنا آدم ؑ کا جہاں تک تعلق ہے ، کیوں کہ وہ اولین انسان تھے ، سب سے پہلے آدمی تھے تو جب وہ جنت میں گھومتے پھرتے تھے لیکن ایک خاض قسم کی بے کلی تھی ، ایک کمی کا احساس تھا تو حق تعالیٰ نے ان کے لیے ایک ساتھی ان کے لمس سے اور ان کی ذات سے دنیا کے سامنے لا کے کھڑا کر دیا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد عورت کے بغیر ادھورا ہے ، عورت مرد کے بغیر ناقص ہے۔ یہ دونوں ایک ہوں تو پھر معاملات آگے بڑتے ہیں ۔

 

میزبان : قطع کلامی معاف کیجیئے گا ـ، لیکن عورت کو یہ جو نفسیاتی آپ نے تفاوت کی بات کی اس کے حوالے سے عورت کو کیوں نہیں اجازت دی گئی Polyandry کی کہ وہ بھی تعدّدِازواج ۔۔۔۔۔۔۔

مولانا قادری صاحب :  اس طرف میں آ رہا ہوں۔ قرآنِ پاک نبّاضِ فطرت ہے۔ مرد کو اللہ تعالیٰ نے پیدا اتنا مضبوط کیا ہے کہ اس کی ہر چیز جو ہے اس کے اندر ایک تاثیر رکھی ہے۔ عورت جو ہے وہ ایک وقت میں دو بچے پیدا کر سکتی ہے ، تین بچے پیدا کر سکتی ہے۔ اور اگر اس سے زیادہ بچے ایک وقت میں عورت پیدا کرے تو عورت بھی پوری طریقے سے ان کو پیدا نہیں کر پاتی۔ اس لیے کہ اس کی جو ساخت ہے وہ بھی محدود ہے۔ عورت جو ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے سب کچھ ویسا ہی عطا کیا ہے لیکن حوصلے اور جسمانی ساخت میں وہ ایسی ہو نہیں سکتی۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اسلام کا نظام جو ہے وہ خاندانی اور معاشرتی نظام پربنا ہوا ہے۔ جیسے ایک گھر میں مالکہ تو ایک ہی ہوگی۔ اسی طرح سے جو عورت کا انداز ہے اور عورت کا ایک مقام ہے اس نے اولاد کو پیدا کرنا ہے اور اس کی تربیّت کرنی ہے ۔ اس لیے اگر بیک وقت وہ بہت سے مردوں سے اس کا تعلق ہوگا تو وہ کسی سے کماحقہ ، انصاف نہیں کر پائے گی۔ اور بچے جو ہیں وہ اپنی ماں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ماں کی طرف ہر معاملے میں دیکھتے ہیں۔ یہ فطرت کا تقاضہ ہے ۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر عورت کو شریعت اس بات کی اجازت دے دے تو اس سے اتنے ڈھیر سارے معاشرتی مسایئل پیدا ہوں گے۔

 

میزبان : غامدی صاحب ، کیا آپ مولانا سے متفق ہیں ؟ اس حوالے سے کہ اصل میں بنیادی طور پر ایک تو Biological reason انہوں نے بتایا اور دوسرا جو ، ریزن، انہوں نے بتایا کہ وہ گھر کے نظم کے حوالے سے انہوں نے بات کی کہ اس میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے ۔ آپ کیا ان کی دونوں باتوں سے متفق ہیں ؟

غامدی صاحب :  اس سوال کے جواب سے پہلے میں ایک وضاحت کرنا چاہوں گا۔ آپ نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ غالباً میں نے بھی یہ کہا ہے کہ قرآنِ مجید میں یہ اجازت یتیموں کے حوالے سے دی گئی ہے۔ میں نے تو بڑی وضاحت سے یہ بتایا ہے کہ قرآنِ مجید کی یہ آیت اصل میں کوئی اجازت دینے کے لیے آئی ہی نہیں۔ یہ اجازت پہلے سے موجود تھی۔ سوسائٹی میں پہلے سے اس کا رواج تھا۔ دنیا کی تمام معاشرتوں میں اس کا رواج رہا ہے۔ بہت کم معاشرتیں ایسی ہیں جن میں اس کو ناجائز قرار دیا گیا ہو۔ بالعموم لوگ ایک سے زیادہ شادیاں کرتے تھے۔ قبائلی تمدن میں یہ چیز ہمیشہ سے مُباح رہی ہے اس وجہ سے یہ سوال ہی نہیں تھا کہ اسلام اس کی اجازت دے۔ سوال یہ پیدا ہو سکتا تھا کہ کیا اسلام اس کو ممنوع قرار دینے جا رہا ہے ؟ تو اس نے اِس کو ممنوع قرار نہیں دیا۔

آیت کے بارے میں نے یہ گذارش کی تھی کہ اس میں درحقیقت کوئی قانون بیان کرنا مقصود ہی نہیں تھا۔ تعدّدِ ازواج اس کا موضوع ہی نہیں ہے۔ اس کا موضوع درحقیقت یہ ہے کہ اس وقت ایک صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے اور چونکہ لوگ بالعموم ایک سے زیادہ شادی کرتے ہیں ، تو جس طریقے سے دنیا میں ہم اور بہت سے جائز کام کر رہے ہوتے ہیں اور ایک خاص موقع پر ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ اگر تمہارے پاس مال ہے ، تم لوگوں کو دیتے ہو تو اس وقت زلزلہ آگیا ہے ، اس وقت طوفان آ گیا ہے ، اپنا مال ان کے لیے بھی خرچ کرو۔ بالکل اسی سیاق و سباق میں یہ بات کہی گئي کہ بچے یتیم ہو گئے ہیں۔ اگر تم ان کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتے اور ان کی تربیت اور ان کی نگہداشت میں تم سے کوتاہیاں ہونے کا اندیشہ ہے تو بہتر ہے کہ ان کی ماؤں سے شادی کرلو۔ اور ظاہر ہے کہ چونکہ یہ زیادہ تر شادی شدہ لوگوں کو کہا جا رہا ہے ، اس لیے یہ فرمایا کہ دو ، دو تین ، تین چار ، چار عورتوں سے شادی کر لو۔

تو میں نے آپ سے یہ عرض کیا تھا کہ اصل میں اس آیت کا سیاق یہ ہے۔ ا س لیے اس پر یہ پابندی نہیں لگائی گئی کیوں کہ ضرورتیں بہت سی ہو سکتی ہیں۔ ضرورتیں تمدنی بھی ہو سکتی ہیں ، معاشرتی بھی ہو سکتی ہیں ، سماجی بھی ہو سکتی ہیں ، نفسیاتی بھی ہو سکتی ہیں۔ ایک چیز مباح تھی ، جائز تھی اس کو جائز ہی رہنے دیا گیا ، اسے ناجائز نہیں قرار دیا گیا۔ البتہ انصاف کی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہ چیز وضاحت سے قرآنِ مجید نے کہہ دی کہ اگر معاملات میں انصاف نہیں کر سکتے تو ،فواحدہ،۔ اور اس سے میں نے یہ اشارہ کیا تھا کہ قرآنِ مجید نے یہ پیغام دیا ہے کہ یتیموں کی بہبود جیسے مسئلے میں بھی ، یعنی جو مسئلہ معاشرے کا ایک بڑا مسئلہ بن گیا تھا اس میں بھی اللہ تعالیٰ کو یہ پسند نہیں ہے کہ اگر تم انصاف نہیں کر سکتے تو پھر تم ایک سے زیادہ شادی کرو۔ ایک تو میں اس بات کی وضاحت کرنا چاہتا تھا ، میرا زاویہِ نظر اس میں اور اس آیت کو دیکھنے میں بالکل مختلف ہے ۔

 

غامدی صاحب : جہاں تک اس چیز کا تعلق ہے کہ عورت کو بھی یہ اجازت دے دی جائے تو میں اس سے پہلے بھی شاید کسی پروگرام میں بڑی وضاحت سے یہ بات بیان کر چکا ہوں کہ اسلام میں شادی کے تصور کو بہت اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے۔ دیکھیئے ، شادی کا تصور اسلام میں یہ نہیں ہے کہ آپ عورت اور مرد کے جسمانی تعلق کو قانونی حیثیت دے رہے ہیں۔ عام طور پر لوگ یہی سمجھتے ہیں اور مغرب میں تو اب یہ تصور کم و بیش بہت محکم ہوتا جا رہا ہے۔ اسلامی شریعت میں یہ خاندان کے ادارے کو بنانے کے لیے کی جاتی ہے۔ یعنی اس کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے۔ اور یہ بات قرآنِ مجید کے ارشادات سے بالکل واضع ہو جاتی ہے ، رسالت مآبؐ کے ارشادات سے بالکل واضع ہو جاتی ہے کہ خاندان انسان کی ضرورت ہے ، اتنی بڑی ضرورت ہے کہ اس کے بغیر وہ زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح بنایا ہے اس کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ ایک خاندان میں جئے ، ایک خاندان اس کے گِرد و پیش ہو ، رشتے وجود میں آئیں ، ان رشتوں کے حقوق طے ہوں اور ان کے اندر وہ اپنی زندگی بسر کرے۔ میں نے اس کی بڑی تفصیل ایک مرتبہ کرکے آپ کو بتایا تھا کہ انسان اس طرح نہیں پیدا ہوتا کہ وہ دس بیس سال کی عمر میں آسمان سے آتا ہے اور پھر اس کے بعد دس بیس سال جوانی کے گذارا کر دنیا سے رُخصت ہو جاتا ہے۔ وہ باکل ناتواں بچے کی حیثیت سے جنم لیتا ہے ، وہ بچپن اور لڑکپن کے مراحل سے گذرتا ہے ، اسے تعلیم کی ضرورت ہے ، اسے تربیت کی ضرورت ہے۔ وہ تو اپنی ناگزیر ضرورتوں کو بھی پورا کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ اور پھر اس کے بعد اِسی زندگی میں اس کے اندر اِضمحلال پیدا ہوتا ہے ، وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچتا ہے اور قرآنِ مجید نے اس کی تصویر کھینچی ہے کہ ، لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِن بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا (5:22)، یعنی سب کچھ جاننے کے بعد پھر وہ ہر چیز سے نا آشنا ہو جاتا ہے۔ یہ چونکہ پورا انسان ہے اس پورے انسان کو خاندان چاہیئے ، اس کو ماں چاہیئے ، اس کو باپ چاہیئے ، اس کو نگہداشت چاہیئے ، اس کو مالی تعاون چاہیئے ، اس کو تعلیم و تربیّت کے لیے ایک ماحول چاہیئے اور جب یہ بوڑھا ہو جائے اور جب تمام اس سے تعلقات ۔۔۔۔ ختم ہو جائیں ، اس کا فائد ہی ختم ہو جائے اس وقت بھی کچھ لوگ ہونے چاہئیں کہ جو محبت کے ساتھ پورے نفسیاتی طور پر اس سے متعلق ہو کر اس کا سہارا بنیں ، اس کو اپنے کاندوں پر اٹھایئں۔ یہ پورا انسان ہے ، اس پورے انسان کے لیے خاندان کا ادارہ قائم کیا گیا ہے۔ لہٰذا شادی ہمارے ہاں خاندان کے ادارے کو وجود میں لانے کے لیے ہوتی ہے۔ کوئی بھی ادارہ اس وقت تک وجود میں نہیں آ سکتا جب تک کہ آپ اس میں تین چیزوں کے بارے میں سراہت نہ کریں کہ اس میں آپ کیا رائے قائم کر رہے ہیں۔ وجود ہی میں نہیں آ سکتا۔ ایک یہ کہ آپ یہ بتائیں کہ اس ادارے کی نمائندگی کون کرے گا۔ یعنی خارج میں کون ہے کہ جس کو اس ادارے کے سربراہ کی حیثیت دی جائے گی۔ یہ آپ کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے ، اس لیے کہ کوئی ادارہ بھی اگر ایک معاشرے کا جُز ہے تو اس کو باہر بھی اپنا تعلق قائم کرنا ہے۔ اس میں اس گھر کی ، اس ادارے کی یا اس خاندان کی نمائندگی کون کرتا ہے۔ دوسری چیز یہ ہوتی ہے کہ مالی ذمہ داری کس پر ہے۔ اس لیے کہ یہ انسان کی ناگزیر ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اس نے کھانا ہے ، پینا ہے ، اس نے کپڑے پہننے ہیں ، اس نے کسی مکان میں رہنا ہے ، اسے تعلیم پانی ہے ، اپنی ضروریات پوری کرنی ہیں۔ تو دوسری یہ چیز ہوتی ہے کہ بتایا جائے کہ وہ کون شخص ہے کہ جس کے اوپر مالی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور تیسرے یہ کہ اگر کسی موقع کے اوپر کوئی نزاع پیدا ہو جاتی ہے تو فیصلہ کُن حیثیت کس کو حاصل ہے۔ ہر ادارہ اصل میں ان تینوں Ingredients کی بنیاد پر وجود میں آتا ہے ، ان کے بغیر کوئی ادارہ وجود میں نہیں آسکتا۔ چونکہ قرآنِ مجید یہ چاہتا ہے اور انبیاء علیہ السلام کی شریعت بھی یہ چاہتی ہے کہ خاندان کا ادارہ وجود میں لایا جائے۔ خاندان کے ادارے میں قرآنِ مجید کا فیصلہ یہ ہے کہ اس میں شوہر کو سربراہ کی حیثیت دی ہے۔ اور سربراہ کی حیثیت دینے کے بعد آپ یہ نہیں کر سکتے کہ سربراہوں میں تعدّد پیدا کریں۔ کیونکہ اس سے یہ پورے کا پورا نظم درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ شریعت کے مقاصد ہی بالکل فوت ہو جائیں گے۔ اور گھر ، جس کو اسلام بنانا چاہتا ہے ، شریعت جس کو قائم کرنا چاہتی ہے ، خاندان ، جس کے اوپر وہ اساس قائم کرتا ہے پوری معاشرت کی ، وہ خاندان اپنی بنیادوں سے بالکل ہِل جائے گا۔ اس وجہ سے عورتوں کے لیے اس کی اجازت نہیں رکھی گئی ، اس کو ہمیشہ سے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ یہاں بھی یہ بات نہیں ہے کہ قرآن نے آ کے اس کو ممنوع قرار دیا ہے ۔ عورت کے لیے دوسرے خاوند سے شادی کرنا ، یعنی ایک شادی میں ہوتے ہوئے کسی دوسرے سے شادی کرنا ، یہ ہمیشہ سے ممنوع رہا ہے۔ یہ بائبل میں بھی ممنوع تھا۔ یہ اس سے پہلے سیدنا ابراہیمؑ کی شریعت میں بھی ممنوع تھا۔ یہ آدم ؑ سے لے کر تمام انبیاء کے ہاں ممنوع رہا ہے۔ بلکہ اچھے معاشروں میں معاشرتی بنیاد پر بھی یہ ممنوع رہا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان ہمیشہ سے اپنی فطرت کے تقاضے جانتا ہے کہ خاندان اس کی ضرورت ہے اور خاندان نظم کے بغیر قائم نہیں ہوسکتا۔ اور خاندان کا نظم اگر مرد کے پاس ہے تو پھر اس بات کی اجازت عورت کو نہیں دی جا سکتی کہ وہ خاندان کے اس نظم سے باہر ایک دوسرا سربراہ تلاش کر لے۔ کیوں کہ دو یا تین سربراہوں کے تحت کوئی نظم وجود میں نہیں آ سکتا۔ تو میرے نزدیک اس کی بنیادی وجہ یہ ہے۔

 

میزبان : غامدی صاحب ، ایک اعتبار سے آپ نے مولانا کی بات کی وضاحت کر دی۔ لیکن مولانا نے ایک دوسری طرف بھی اشارہ کیا تھا۔ یعنی خاندانی نظم کے حوالے سے تو آپ نے اس بات کی مزید تفصیل اور وضاحت فرمادی لیکن مولانا نے یہ بھی فرمایا تھا کہ کچھ بایولاجیکل فیکٹر ہیں۔ عورت بعض چیزوں کی متحمل نہیں ہو سکتی اور مرد کی جو ہے ساری فیزیالوجی ، اس کے اندر اس کی گنجائش ہے کہ وہ زیادہ اولاد بھی پیدا کر سکتا ہے۔ تو اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟

غامدی صاحب : میں اس سے پہلے اپنا نقطہ نظر عرض کر چکا ہوں۔ اور ظاہر بات ہے کہ کسی چیز کو سمجھنے میں کچھ تھوڑا بہت اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی جو بنائی ہوئی فطرت ہے اس کے لحاظ سے تو ایک مرد کے لیے ایک عورت ہی ہونی چاہیئے اور اسی میں اس کو زندگی بسر کرنے کا سلیقہ سیکھنا چاہیئے۔ اسی سے اچھا گھر وجود میں آتا ہے ، اسی سے اولاد کے تنازعات ختم ہوتے ہیں ، اسی کے ذریعے سے آپ اپنے لیے بڑھاپے کا بہتر سامان کرتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر جو اشارہ کیا وہ یہی تھا۔ ظاہر ہے کہ آدمؑ اگر اضطراب میں تھے اور کچھ خواتین فراہم کرنا ضروری تھا اور مرد کے اندر اس کے داعیات اتنے غیر معمولی ہوتے ہیں ، تو انبیاء ؑ تو بہت پرفیکٹ حیثیت رکھتے ہیں ، تو اللہ تعالیٰ کو دو تین یا چار پانچ عورتیں پیدا کر دینا چاہئیں تھیں ، ایسا نہیں کیا گیا۔ اب بھی اگر آپ غور کرکے دیکھیں تو اصل میں ایک اچھا گھر ، ایک اچھا خاندان ، ایک بیوی ہی سے بنتا ہے۔ اور اسی کی اولاد کے اندر وہ موافقت ، وہ محبت ، وہ تعلقِ خاطر ہوتا ہے جس کی بنیاد پر حقیقی رشتے وجود میں آتے ہیں ۔ ان میں جس حد تک بھی افتراق پیدا ہوتا جائے گا اتنا ہی زیادہ آپ کے لیے مشکلات بھی بڑھتی چلی جائیں گی۔ بعض تمدن اس کو نسبتاً کم پیدا کرتے ہیں ، بعض تمدن اس کو بہت زیادہ پیدا کرتے ہیں ۔ اس وجہ سے میرے نزدیک جو بنیادی بات ہے وہ یہ ہے۔ جس کی طرف میں نے اشارہ کر دیا۔ تاہم کسی چیز کو سمجھنے میں مختلف اہلِ علم مختلف چیزوں کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں ۔ جس چیز کو میں درست سمجھتا تھا اسے میں نے دلائل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔

 

میزبان : جی ، مہرین صاحبہ ، دونوں علماء کی بات آپ کے سامنے آئي۔ کیا دونوں باتوں سے آپ متفق ہیں ؟ کیا یہ جو بات ہے ، خاص طور پر جس کي طرف اشارہ فرمایا غامدی صاحب نے کہ نظم گھر کا جو ہے وہ قائم کرنے کے لیے بڑا ضروری ہے کہ ایک ہی سربراہ ہو اور وہی ۔۔۔ اور دوسرا پھر مولانا نے بھی بایولوجیکل فیکٹر کی طرف ۔۔۔ دونوں کی طرف اگر آپ اپنا ویو بتائيں؟

مہرین ملک صاحبہ : اس میں بنیادی میں جو بات کرونگی وہ پاکستانی سوسائٹی میں رہتے ہوئے ہم ان تمام نظریات کو جس طرح ایپلائي کر رہے ہیں اس کے حوالے سے ، اور جو ہم لوگوں کا تجربہ ہے عورتوں کے ساتھ ایکچؤل اور عملی ایشو پر کام کرتے ہوئے ، اس کے حوالے سے بات کرنا چاہوں گی۔ ایک تو یہ ہے کہ اگر ہم جسٹی فیکیشن دیں کہ چونکہ بایو لاجیکل ریزن یا سایئکولاجیکل ریزن کی وجہ سے بھی ان میں کچھ اس طرح کی طاقت ہے کہ جس کو کہہ سکتے ہیں کہ ایکٹیو ہو سکتا ہے ، بچے پیدا کرنے کے حوالے سے ، اور لیکن اس چیز کو جسٹیفائي کرنا دوسری شادی کے لیے ، میرے خیال سے کافی غلط ہے۔ لیکن وہی بات کہ مونوگیمی کو بھی پروموٹ اس حوالے سے جس طرح میڈیکل سائنس اتنی ترقی کر گئي ہے۔ اتنے کونٹرا سیپٹیو اور اس طرح کے میکانزم آگئے ہیں کہ میرے خیال سے ایک خاتون ایک مرد اپنی بیوی کے ساتھ ، ایک بیوی کے ساتھ ہی رہتے ہوئے جو ہے ، میرے خیال سے وہ ایک تعلق اس طرح کا مضبوط بنا سکتا ہے۔ اور اس میں میرا نہیں خیال کہ یہ بایو لاجیکل ریزن کو مدِنظر رکھتے ہوے دوسری شادی کی کا جواز نکالنا چاہیئے۔

خاندانی نظم کے حوالے سے جیسے غامدی صاحب نے ابھی کہا کہ خاندان کا سربراہ ، جو کہا کہ ایک آدمی کو لیا جاتا ہے لیکن میرے خیال سے ، میرا یہاں تھوڑا سا ایک نظریاتی اختلاف کہہ لیں ، یا تھوڑا سا کہہ لیں کہ اس حوالے سے ہے کہ اگر ہم اب کے دیکھیں ہماری عورتیں جو ہیں وہ خواتین ہیں ، گرل ہیں ، ان کا تعلیمی معیار اتنا اونچا ہے ، وہ اس معاشی سرگرمی میں ، not in terms of formal sector but informal sector میں بھی اس قدر active participation ہے ان کی کہ میرے خیال سے کافی ایسی جگہوں میں جہاں پہ فیملیز ہیں ، جہاں پر خواتین جو ہیں ان کی جو Economic participation اور معاشرتی حوالے سے وہ مردوں کی نسبت زیادہ ہے۔ یہ بھی ایک نظریات کا اختلاف ہے کہ خاندان کا سربراہ ہم گِن کس کو رہے ہیں۔ آدمی کو لے رہے ہیں یا خواتین کو۔

 

میزبان : گویا آپ کے نزدیک کوئي مانع نہیں ہے کہ خواتین کو بھی اجازت ہونی چاہیئے کہ وہ تعدّدِ ازواج ان کے لیے بھی ہونا چاہیئے۔

مہرین ملک صاحبہ : دیکھیں ممانعت ، اس حوالے سے جو خیال ہے ، یہاں میں اپنا نقطہِ نظر دوں گی ، جو خواتین کے لیے بنیادی طور پر جو ممانعت ہم کہتے ہیں وہ میرے خیال میں اس طرح ہے کہ جب ایک عورت زیادہ شادیاں کرے ، ایک مرد ایک شادی کے ہوتے ہوئے تو ولدیت کا ایشو جو بچوں کا ہوتا ہے وہ پیدا ہو سکتا ہے۔

 

میزبان :  وہ تو ڈی۔این۔اے سے طے کیا جا سکتا ہے نا۔

مہرین ملک صاحبہ : لیکن آپ یہ دیکھیں نا کہ آج کل کتنا کوئي جو میڈیکل سائنس ہے جو ہمارے ایکچوئل کورس میں کیسز ہیں ، کتنے ڈی ۔این۔اے ٹسٹ جو ہے کیا جاتا ہے۔ دڑاڑ جو ہے معاشرے میں جب ڈی۔این۔اے ٹسٹ سے بچوں کی ولدیت تو آ گئي لیکن آپ یہ دیکھیں کہ ہماری جس طرح میراث کے قوانین ہیں یا دوسرے قوانین کی جو ایپلیکیشن ہیں ان میں پھر جو بچوں کے اوپر جو باپ کی متعلقہ جو ان کا باپ ہوگا اس کی ذمہ داری کے حوالے سے اختلاف ہوگا۔ دڑاڑ جو ہے فیملی سیٹ اپ میں وہاں یہ پڑے گی۔ جو ہم ایک فیملی یونٹ کی ایک اور سپورٹ کرنے کو ، مضبوط کرنے کی بات کرتے ہیں وہ پھر نہیں ہو سکتی ۔ جو خواتین ہیں یا ہمارا جو فیمیل پاپولیشن ہے وہ بھی کافی زیادہ جو ہے جو جس کے مختلف سیکٹرز ہیں۔ سوشل اور اکنومک جو ہیں ان میں اتنی پارٹیسی پیشن کر رہی ہیں۔ اب اگر میں ان کو اس طرف اس طرح سے لے لوں کہ وہ پارٹیسیپیٹ کر رہی ہیں تو وہ مختلف کثیر الازواجی بھی کریں ۔ یہ پروموٹ ۔۔۔۔۔۔۔

مولانا قادری صاحب : تو یہ پھر اس تربیّت کے اوپر بھی انحصار ہے ، انسان پر بھی انحصار ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بہت سارے مردوں میں اس کی خوبی موجود ہوتی ہے ، استعداد ہوتی ہے ، صلاحیت ہوتی ہے ، یا یہ کہ ایک ملکہ ہے۔ ہر طرف انصاف کرنے کا ، چیزوں کو بیک وقت دیکھنے کا اور یہ ضروری نہیں کہ ہر کسی میں یہ صلاحیت ہو لیکن یہ مرد سے مرد میں فرق رہتا ہے۔ اور بالکلیہ اس کو ایک دم غلط کہہ دینے سے جن عوامل کی طرف میں نے اشارہ کیا۔ پھر بہت ساری ایسی عورتیں ہیں جو گھر بسا نے کی آرزورکھیں گی ، گھر بسا نہیں پائيں گی۔

 

میزبان : آپ کی رائے یہی ہے کہ یہ کوئي داخلی کیفیت کا نام نہیں ہے بلکہ حقوق کا جو ہے پورا کرنا ہے۔

مولانا قادری صاحب : اور اس کا داخلی ، آپ خارجی کو داخلی کیفیت سے جدا تو نہیں کر سکتے ۔ وہ بھی ایک فیکٹر موجود ہے۔ وہ مستقل ایک چیز ہے۔

 

میزبان : عملاً کیا پرابلم ہمارے معاشرے میں ہو رہی ہے۔ ایک دو تین چار بڑے مسئلے کیا پیدا ہو رہے ہیں۔ اس قانون یا اس تاویل سے کیا غلط استعمال ہو رہا ہے ہمارے ہاں ؟

مہرین ملک صاحبہ : ایک تو یہ کہ اس حوالے سے ہے کہ اگر دیکھیں قرآن کی صحیح تاویلات جو ہیں۔ وہ قانون میں ایک چیز ہماری موجود ہے کہ ہمارا جو قانون ہے اس میں بھی اجازت ہے تعدّدِ ازواج کی۔ لیکن کچھ پابندیوں کے ساتھ۔ وہاں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ just اور ضروری کے ہیں۔ وہاں یہ بھی انہوں نے بارہ تیرہ grounds رکھی ہیں کہ آپ ان وجوہات کی بنا پر apply کر سکتے ہیں ، اس فورم کو ۔ وہ آپ کو اجازت دیگا ، آپ کی بیوی سے مشاورت کرکے، پہلے والی جو موجودہ بیوی ہے۔ اس کی اجازت سے ہی مرد وہ دوسری شادی کر سکتا ہے۔ لیکن یہ کہہ دینا کہ ہمارے معاشرے میں جو ہے خواتین چونکہ تناسب مردوں سے بہت زیادہ ہے ، آبادی کے لحاظ سے۔ تو ایک یہ جواز دینا کہ ایک آدمی اگر چار عورتوں کو رکھ لے گا تو وہ ایک تناسب جو ہے عورتوں کی وہ left out نہیں ہوگی۔ غیر شادی شدہ کی صورت میں ، میرے خیال میں یہ غلط ہے۔ ابھی بے شک اس پروویژن کا بھی اتنا زیادہ استعمال ہو رہا ہے لیکن پھر بھی ایک vested interest ہیں لوگوں کے بھی تعلقات میں جاتے ہویئے بھی۔ کہ جو ابھی بھی ہم دیکھیں تو بہت ساری جو خواتین ہیں ، لڑکیاں ہیں ، وہ بیٹھی ہوئي ہیں۔ تو بنیادی طور پر یہ تاویل ہے۔ پھر ہماری اپنی نظریات ہیں کہ ہم ایک چیز کی جو گنجائش رکھی گئي ہے اس طرح سے کر رہے ہیں۔ اس کا استعمال کس طرح سے کر رہے ہیں۔ اور پرابلم جو ہیں وہ اس حوالے سے ہیں کہ جو مرد کثیر الازواجی کرتے ہیں وہ بالکل بھی نان نفقہ کے حوالے سے ، اگر اس شادی کے بعد ٹوٹ جاتی ہے ۔ اس کے بعد کا جو خرچہ ہے بیوی کا ، Dower Amount جو ہے ، وہ والے تو حقوق پورے نہیں ہو رہے۔

 

میزبان :  اور استحصال بالعموم کیا جاتا ہے ، اس حوالے سے۔

مولانا قادری صاحب : Use and abuse کا مسئلہ ہوا۔

 

میزبان : ایک اہم پہلو ، غامدی صاحب ، جس کی طرف انہوں نے توجہ دلائي ہے ، وہ یہ پابندی ہے، قانونی پابندی ہے کہ مرد کو لازماً اجازت لینا پڑتی ہے کسی فورم سے۔ ظاہر ہے ، یہ کورٹ بھی ہو سکتا ہے اور اس میں یہ بھی شرط ہے کہ وہ اپنی پچھلی بیوی سے بھی اجازت لے۔ یہ کیا کوئي دینی تقاضہ ہے یا یہ کوئي ضروری تقاضہ ہے۔ کیا دین اس کو عائد کرتا ہے؟

غامدی صاحب : میں نے جو مقدمات بیان کیے ہیں انہیں ایک مرتبہ پھر ذہن میں تازہ کر لیجیئے۔ اس کے بعد آپ کو اس سوال کا جواب مل جائے گا۔ ان مقدمات میں پہلی بات میں نے یہ عرض کی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اصولی طور پر اپنا منشا بیان کر دیا ہے کہ اچھا گھر ایک میاں بیوی سے بنے گا۔ اور یہی فطرت کا تقاضہ ہے۔ دوسری بات میں نے یہ عرض کی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس معاملے میں پابندی نہیں لگایئ ۔ یعنی جو پابندی لگائي وہ عدل کی پابندی لگائي لیکن ایک سے زیادہ شادیاں کرنے پر پابندی نہیں لگائي۔ کیوں پابندی نہیں لگائي ؟ اس لیے کہ اگر تمدنی تقاضے ، معاشرتی تقاضے ، سماجی تقاضے کسی وقت یہ آدمی سے چاہئیں کہ وہ ایسا کرے اور اگر شریعت میں پابندی لگ گئي ہوتو پھر شریعت کی پابندی کو تو قیامت تک کوئي نہیں اٹھا سکتا۔ محمد الرسول اللہ ؐ خدا کے آخری پیغمبر تھے۔ ان کے ذریعے سے اللہ کی آخری شریعت دے دی گئي۔ اب اگر فرض کر لیجیئے کہ قرآن پابندی لگا دیتا کہ ایک سے زیادہ شادی آپ نہیں کر سکتے تو پھر اس کا کوئي امکان ہی نہیں تھا کہ وہ پابندی کبھی اٹھائي جا سکتی۔ یہ میں اٹھا سکتا تھا نہ آپ اٹھا سکتے تھے ، نہ کوئي بڑے سے بڑا کوئي فقہیہ نہ کوئي عالم اٹھا سکتا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے پابندی نہیں لگائي۔ لیکن چونکہ یہ مباحات کا دائرہ ہے یعنی یوں نہیں ہے کہ چار شادیاں کرنے کا حکم دیا گیا ہے یا اسے مستحب قرار دیا گیا ہے یا اسے واجب قرار دیا گیا ہے یا اسے فرض قرار دیا گیا ہے، یا شریعت کے قانون کا کوئي حصہ اس کو بنا دیا گیا ہے۔ ممانعت نہیں کی گئي ، بس اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ ہماری فقہہ کی اصطلاح میں یہ نکلے گا کہ یہ دائرہِ مباحات کی چیز ہے۔ دائرہ ِمباحات میں ریاست کو سوسائٹی میں قانون سازی کا حق حاصل ہے۔ اور میرے نزدیک یہی حق ہے جس کو استعمال کرکے اس سے پہلے بھی قانون سازی کی گئي ہے ۔ اس میں ہمیں اپنے معاشرے کا جائزہ لینا چاہئیے۔ دیکھیئے قانون سازی کا حق ہمیں حاصل ہے ، اس کے معنی کیا ہیں ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم قانون بنائيں گے ، اگر اس کی غلطی ہم پر واضع ہو جائے گی تو ہم اس قانون کو تبدیل کر دیں گے۔ یعنی ایسا ہوتا ہے ، انسان قوانین اسی طرح بناتے ہیں ۔ اپنے تجربے کو دیکھتے ہیں ، اپنی ضرورتوں کو دیکھتے ہیں اور اس کے بعد یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ پابندی لگا دی جائے ، یہ قانون بنا دیا جائے۔ اس کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ترمیم کی ضرورت ہے تو ترمیم کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات قانون کی لغویت واضع ہو جاتی ہے تو قانون ہی پورا کا پورا ختم کر دیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے انسانی قانون جب دائرہِ مباحات میں بنتا ہے تو اس میں یہ گنجائش ہوتی ہے کہ اسے تبدیل کیا جا سکے۔ اللہ کے قانون میں کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پابندی نہیں لگائي تاکہ آپ کے لیے کوئي تنگی پیدا نہ ہو جائے ۔ آپ پابندی لگانا چاہتے ہیں ، اپنے معاشرے کا جائزہ لیں اور قانون سازی کر لیں۔ اور پھر جس طرح کی چاہیں آپ قانون سازی کر سکتے ہیں لیکن مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے ۔ یعنی یہ چیز ضرور سامنے رکھیں کہ کوئي ایسا قانون آپ نہ بنا بیٹھیں جو بڑے مقاصد کے لیئے بربادی کا باعث بن جائے۔ ان کو سامنے رکھ کر ہمارے ہاں ایک قانون بنایا گیا ، اس پر کوئي عمل نہیں کرتا اس وقت۔ میں اپنی بہن سے پورا اتفاق کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں نہ تو شریعت کے حدود کو دوسری شادی میں بالعموم خیال رکھا جاتا ہے۔ دیکھیئے مستشنیات ہر جگہ موجود ہوتی ہیں۔ بالعموم خیال نہیں رکھا جاتا۔ نہ اس کے اسباب و وجوہ ، جو واقعی اسباب و وجوہ ہوتے ہیں۔ یعنی آدمی ایک عورت کے بارے میں بیزاری کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور اس کے بعد دوسری عورتوں کو تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے اور پھر اس کے بعد اپنے اس تعلق کو قانونی بنانے کے لیے بالعموم شادی کرتا ہے۔ میں نے تو جتنے تجربات اب تک دیکھے ہیں ان میں بالعموم یہی چیز ہے۔ عدل کیا چیز ہے ، انصاف کیا چیز ہے ، ہماری سوسائٹی کو اس کا شعور ہی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ہمارے سیاسی نظام میں عدالت اور عدل نام کی کوئي چیز نہیں ، ہمارے معاشرتی نظام میں بھی کوئي چیز نہیں ہے۔ ہمارے تو گھروں کے اندر ساس اور بہو کے معاملے کو دیکھیں ، آپ شوہر اور بیوی کے معاملے کو دیکھیں ، آپ بچوں کے معاملات کو دیکھیں ، لڑکیوں اور لڑکوں کے معاملات کو دیکھیں ، انصاف نام کی کوئي چیز آپ کو میسر نہیں آتی۔ ہماری سوسائٹی اخلاقی لحاظ سے اتنی پستی میں اُتر چکی ہے کہ بالعموم لوگ انصاف کرنا تو ایک طرف رہا ، ضروری حقوق کو بھی ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ مالی معاملات میں تفاوت پیدا ہو جاتا ہے ۔ زندگی کے معاشرتی تقاضوں میں ایک عورت کو بالکل معلق کرکے رکھ دیا جاتا ہے ۔ دوسری بیوی کیا آتی ہے ، پہلی بیوی کے لیے زندگی گزارنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ پھر اس کے ساتھ ہمارے کچھ تمدنی مسائل ہیں۔ وہ تمدنی مسائل اپنی جگہ کچھ پرابلم پیدا کرتے ہیں۔ اس وجہ سے میرے خیال میں اس معاملے میں قانون سازی ہونی چاہیئے۔ کچھ پابندیاں لگانی چاہیئں اور ان پابندیوں کو پھر پوری قوّت سے نافذ کرنا چاہیئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ یہ نہیں کرتے تو فِل واقع اس میں کوئي شُبہ نہیں ہے کہ استحصال اور ظلم کی ایسی ایسی صورتیں گھروں میں دیکھتے ہیں جن کے دیکھنے کے بعد آدمی محسوس کرتا ہے کہ یہ انسان ہیں جو یہ معاملہ کر رہے ہیں یا جانور ہیں جو یہ معاملہ کر رہے ہیں۔ اور اس میں ، میں آپ سے عرض کروں کہ میرا تو جو کچھ تجربہ ہے اس میں مذہبی اور غیر مذہبی لوگوں میں بھی میں نے کوئي فرق نہیں دیکھا۔ ایسے ایسے معاملات دیکھے ہیں کہ جن کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں تو کچھ دیر کے لیے پابندی لگا دینی چاہیئے تاکہ گھر برباد نہ ہوں ، بچے برباد نہ ہوں۔ اور پھر اس کے بعد میں آپ سے عرض کروں کہ اس میں جو جھوٹ بولے جاتے ہیں ، جس طرح دوسری بیوی کی اولاد کو چھپایا جاتا ہے۔ بعض اوقات جس طرح میراث کے معاملات میں تفاوت پیدا کیے جاتے ہیں۔ ایک دنیا ہے پوری کی پوری مسائل کی۔ اس لیے میں اس کی حمایت کرتا ہوں۔ میں نے وہ اصولی بات بیان کردی کہ شریعت نے پابندی نہیں لگائي۔ کیوں نہیں لگائي ؟ اس کی وجہ میں نے آپ کو بتا دی ، یعنی مردوں کے معاملے میں ، کوئي قانون بنایا جائے ، کوئي حدود قائم کیئے جائيں ، یہ بالکل میرے نزدیک جائز ہے۔ شریعت کی رو سے بھی بالکل جائز ہے۔ جو قانون بنایا گیا تھا اس میں بعض بہت اچھی چیزیں رکھی گئي تھیں۔ اور اگر اس معاملے میں معاشرے کو بھی ساتھ شامل کردیا جائے۔ میں جب طلاق کے قوانین کو پڑھتا ہوں ، نکاح کے قوانین کو پڑھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ قرآنِ مجید اس میں معاشرے کو شامل کرنا چاہتا ہے۔ تو معاشرے کو بھی آپ شامل کر لیں کہ اگر کوئي آدمی یہ شادی کرنا چاہتا ہے تو وہ مطمعن کرے ہمیں کہ وہ کیوں یہ کام کرنے کے لیے جا رہا ہے ۔ اور یہ بتائے کہ اس کے بعد کن حدود کا خیال رکھے گا۔ ا ور جو حقوق اس پر عائد ہوتے ہیں وہ کیسے ادا کرے گا۔ اور پہلی بیوی اگر موجود ہے تو اس کے حقوق کی حفاظت کس طریقے سے ہو گی۔ میں اس میں قانون سازی کو درست سمجھتا ہوں کیونکہ ہم جو قانون بنائيں گے ، کل جب ہمیں تجربے سے معلوم ہوگا کہ اس میں خامی ہے تو ہم اسے تبدیل کردیں گے۔ اس سے کوئي فرق نہیں پڑتا۔ شریعت کا معاملہ ابدی ہے ، اس وجہ سے اس میں اس طرح کا کوئي قانون نہیں دیا گیا۔

 

میزبان : مولانا ، آپ کے نزدیک بھی مباحات کا وہ دائرہ ہے کہ اس میں قانون سازی کی جا سکتی ہے ؟

مولانا قادری صاحب : جی ہاں ، بالکل درست ہے کہ مباحات کے اس دائرے میں قانون سازی کی گنجائش موجود ہے ۔ لیکن ہماری سوسائٹی کو ہم نے اتنا upgrade نہیں کیا ، اس کی اس درجے کی تربیّت نہیں ہو سکی اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ سرِدست ابھی قانون سازی کا وہ مرحلہ نہیں آیا کہ قانون کسی کے حق میں استعمال ہو اور کسی کے خلاف استعمال ہو۔ جب معاشرہ اتنا بہتر ہو جائے ، اتنا منضبط ہو جائے کہ قانون واقعی قانون ہو اور اس کا اطلاق واقعی اطلاق ہو سکے تو پھر کوئي حرج نہیں۔

 

میزبان : ناظرین آپ نے ہماری گفتگو سنی اور اس میں تعدّدِ ازواج کے حوالے سے دینی نقطہ نظر کیا ہے ؟ اس کے اندر معاشرتی اور قانونی اصلاحات کی کس قدر گنجائش ہے اس بارے میں تفصیلی بات کی گئي۔ اگلے پروگرام تک کے لیے اجازت چاہتا ہوں۔ اللہ حافظ۔

 


Share |


Copyright Studying-Islam © 2003-7  | Privacy Policy  | Code of Conduct  | An Affiliate of Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top    





eXTReMe Tracker