سوال : اسلام میں الکوحل
کو حرام قرار دیا گیا ہے لیکن الکوحل پرفیوم میں بھی استعمال ہوتا ہے اور دواؤں میں
بھی ہوتا ہے۔ تو کیا یہ اس شکل میں بھی حرام ہے ؟ قرآن میں الکوحل کا لفظ تو
استعمال نہیں ہوا ، نشے کا لفظ استعمال ہوا ہے کہ نشہ حرام ہے۔ تو جتنی مقدار میں
آپ کو نشہ نہیں ہوتا اس سے کیا اتنی مقدار جائز ہے ؟
غامدی صاحب : نشہ ممنوع ہے۔ نشہ جس چیز میں بھی ہوگا اس سے اجتناب کرنا چاہیئے۔
رسول اللہ ؐ نے یہ فرمایا ہے کہ نشہ ایک ایسی چیز ہے کہ جو چیز نشہ کرنے والی ہے اس
کی آپ تھوڑی مقدار کو بھی آپ استعمال کرنا شروع کر دیں گے ، نشے کے مقصد سے ، تو یہ
ہو سکتا ہے کہ آپ کو عادت ہو جائے اور اس کے بعد آپ زیادہ مقدار استعمال کریں۔ تو
دین میں دونوں چیزوں کا لحاظ کرنا پڑتا ہے۔ اس چیز سے ایک چیز روکی گئی ہے۔ اور ایک
یہ کہ ایسی کسی چیز پر پابندی لگا دی گئی ہے جو اس چیز پر جانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
تو یہ دونوں چیزیں اپنی جگہ ملحوظ ہیں۔ اب رہ گیا الکوحل ، اگر وہ نشہ دیتی ہے تو
اس کے دوسرے استعملات ، اس میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ وہ آپ کر سکتے ہیں۔ لیکن نشے کے
لیے نہ اس کی کم مقدار استعمال کی جا سکتی ہے ، نہ زیادہ مقدار استعمال کی جا سکتی
ہے.
میزبان : چاہے نشہ ہو یا نہ ہو؟
غامدی صاحب : اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ آپ بے شک دائیں
ہاتھ گاڑی چلا کے پوری سلامتی سے کہیں پہنچ جائیں لیکن قانون تو یہی بنایا جایئے گا
نا کہ آپ کو بائیں ہاتھ گاڑی چلانی ہے تاکہ لوگوں کی جان کو اتلاف سے بچایا جا سکے۔
آپ نے اگر دو گھونٹ شراب پینا شروع کردی تو گھر میں آئے گی ، بچے دیکھیں گے اور پھر
کچھ معلوم نہیں کہ کب آپ اس میں آگے بڑھ جائیں۔ تو سدِّ ذریعہ کے طور پر ذرا دور
پابندی لگا دی جاتی ہے.
میزبان : سدِّ ذریعہ سے کیا مراد ہے ؟
غامدی صاحب : یعنی کسی چیز میں اگر دوسری چیز تک لے جانے کی کوئی طاقت موجود ہے تو
آپ اس کو پہلے مرحلے میں روک دیں ، یعنی اس کا راستہ بند کر دیں۔
میزبان : کیا اس میں کوشش کرنی چاہیئے کہ الکوحل کا استعمال نہ ہو کیوں کہ وہ ایک
ناجایئز چیز ہے۔
غامدی صاحب : نہیں ، دوسرے استعمالات میں تو کوئی ہرج کی بات ہی نہیں۔ ۔ ۔ پینا
نہیں چاہیئے۔
میزبان : کوئی ضروری نہیں کہ وہ جان بچانے والی دوا ہو بلکہ کوئی دوا بھی ہو سکتی
ہے؟
غامدی صاحب : کوئی بھی دوا ہو سکتی ہے۔ دوا میں بھی دیکھیں نا ، دو چیزیں ہیں۔ ایک
یہ کہ بطور دوا اس کا استعمال ، یہ تو جائز نہیں ہے۔ یہ تو حضور ؐ نے خود بھی بتا
دیا۔ ایک یہ کہ دوا کو محفوظ رکھنے کے لیے اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ وہاں اصل میں
بطور دوا بھی وہ استعمال نہیں ہو رہی ہوتی۔ اس میں آپ استعمال کر سکتے ہیں .
میزبان : اسی طرح سے پرفیوم میں۔ ظاہر ہے کہ وہ کوئی ناگزیر چیز تو نہیں ہے۔
غامدی صاحب : نہیں تو وہاں تو کچھ کھایا پیا نہیں جا رہا۔ وہ تو ایسی کوئی چیز نہیں
ہے ، نشے کا تو کوئی سوال نہیں ہے۔ تو آپ پرفیوم کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں .
میزبان : کچھ روایات میں آتا ہے کہ پسند نہیں کیا حضرت عمرؓ نے کسی ایسی چیز کو
استعمال کرنا ، جیسے زخم پر لگا لیتے تھے ، اس دور میں۔
غامدی صاحب : جی وہ یہی بات ہے کہ رسالت مآب ؐ سے لوگوں نے پوچھا کہ بعض جگہوں پر
تو ہمیں یہ بیماری کے علاج کے لیے ضرورت پڑتی ہے تو آپ ؐ نے کہا کہ یہ خود بیماری
ہے اس سے بچنے کی کوشش کرو۔ تو علاج کے طور پر بھی استعمال نہیں کرنی چاہیئے لیکن
دوا کو محفوظ رکھنے کے لیئے محّلل کے طور پر استعمال کرنا ، یہ بالکل دوسری چیز ہے۔
میزبان : لیکن اب آپ کی بات سے یہ لگ رہا ہے کہ شاید آپ ، جیسے حضور ؐ کی بات آپ نے
یہاں فرمائی ، اس میں تو لگتا تھا کہ discourage کیا جا رہا ہے۔ آپ یہ کہہ رہے ہیں
غالباً کہ اس میں کوئی ہرج نہیں ہے۔
غامدی صاحب : نہیں ، پینے کے معاملے میں تو ایسا ہی کیا جائے گا۔ یعنی کسی چیز کو
اگر آپ استعمال کرتے ہیں ، خواہ آپ اس کو استعمال کریں دوا کے طور پر ، خواہ
استعمال کریں اس کو نشہ حاصل کرنے کے لیے ، اس کی قلیل ترین مقدار کو بھی حضور ؐ نے
ممنوع قرار دیا ہے۔ تاکہ کہیں لوگ عادی نہ ہو جائیں۔ تو یہ تو بالکل ٹھیک ہے اپنی
جگہ۔ لیکن دوسرے استعمالات جو ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جس طرح بکری حرام ہے اس
کا گوشت حرام ہے تو اس کا یہ مطلب کیسے نکل آیا کہ آپ اس کی کھال کو بھی استعمال
نہیں کر سکتے۔