سوال : میرا تبصرہ یہ ہے
کہ آج کل کے زمانے میں جب ہر دوسرا بندہ atheist ہے تو اس زمانے میں شرک کا تصور جو
ہے وہ بہت ہی فرسودہ اور غیر متعلق محسوس ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہم ، وہ
سب لوگ جن کا تعلق ایسے مذہب سے ہے جہاں متعدد خداؤں کا تصور ہے ، اگر ہم ان لوگوں
کو دیکھیں تو ان کے طرزِ زندگی میں ، ان کی کارگذاری میں ، ان کی شخصیت میں کسی قسم
کی کوئی abnormality or malfunctioning نظر نہیں آتی۔ اس کا مطلب ہے کہ شرک کرنا
اور نہ کرنا ہمارے لیے برابر ہے اور اس کا ہماری شخصیت یا طرزِ زندگی پر کوئی فرق
نہیں پڑے گا ، اس سے ہمیں نقصان نہیں ہوگا۔ اور آخر میں یہ کہ اسلام میں شرک کے
اوپر اتنا زور دیا گیا ہے کہ اس سے ہمارے سامنے جو خدا کا تصور پیدا ہوتا ہے وہ ایک
حاسد ، غیر محفوظ اور narcissistic خدا کا ہے۔ اس کو سارا وقت اسی بات کی فکر لگی
رہتی ہے کہ کہیں اس کی اتھارٹی کو چیلنج نہ کیا جائے۔ مجھے اس کے اوپر رائے چاہیئے۔
غامدی صاحب : آخری بات
کے بارے میں پہلے ذکر کروں گا۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا بنائی کس سکیم کے
تحت ہے ، اس کو بہت اچھی طرح پہلے سمجھنا چاہیئے۔ یہ دنیا اس سکیم پر نہیں بنی کہ
اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہاں بھیج دیا ، نعمتوں بھری زندگی دے دی اور پھر یہ کہا کہ
اطمینان کے ساتھ رہیئے ، مرئے اور جیئے اور پھر یہیں دنیا میں ختم ہو جائے۔ جب
زندگی کو اس دنیا کی زندگی کے ساتھ اور آخرت کے ساتھ آپ ملا کر دیکھتے ہیں تو زندگی
بحیثیتِ مجموعی اس وقت سامنے آتی ہے۔ اس پوری زندگی میں ، جس طریقے سے ہماری ماں ہے
، ہمارا باپ ہے ، ہمارے بھائی ہیں ، ہماری بہنیں ہیں یہاں پر ، اسی طرح ایک اس
کائنات کا خالق بھی ہے جس نے ہم کو پیدا کیا ہے۔ تو اگر آپ خالق کو ایک زندہ حقیقت
کے طور پر اپنے سامنے رکھ کر دیکھتے ہیں تو یہ کہہ رہی ہیں نا کہ کوئی فرق نہیں
پڑتا اس سے! اگر میں ماں کے ساتھ برا سلوک کرنا شروع کردوں تو اس سے کوئی فرق پڑتا
ہے یا نہیں پڑتا ؟ عین ممکن ہے کہ میری ماں کو کسی میرے حُسنِ سلوک کی ضرورت ہی نہ
ہو۔ یعنی میری ماں کھاتی ہے ، پیتی ہے ، دوسرے بچے اس کی بہت خدمت کر رہے ہیں اس کو
میری کویئ ضرورت نہیں ہے لیکن میں ہر روز اس کو گالی دوں ' اس کے ساتھ ایک بُرا
روّیہ اختیار کروں۔ اس سے زندگی میں کوئی فرق پڑے گا کہ نہیں پڑے گا ؟ یہ فوراً اس
بات کو تسلیم کریں گی کہ یقینا پڑے گا۔ اب صورت ِحال کیا ہے یہ ؟ صورتِ حال یہ ہے
کہ ماں کے معاملے میں تو یہ جذبات موجود ہیں ، وہاں اخلاقی سوال پیدا ہو جاتا ہے ،
خدا کے معاملے موجود نہیں ہیں۔ یعنی جو خالق ہے آپ کا ، جس نے آپ کو بنایا ہے۔ اصل
میں وہ خدا کے حوالے سے سارے معاملے کو لے رہی ہیں جبکہ دیکھنا تو اصل میں انسان کے
حوالے سے چاہیئے۔ انسان کی حیثیت سے میرے اخلاقی وجود کا مطلب کیا ہے ؟ میرے اخلاقی
وجود کا مطلب یہ ہے کہ میرے جتنے تعلقات ہیں ان کو میں وہ حقیقی مرتبہ دوں جو مجھے
دینا چاہیئے۔ یہ میرا شرف ہے۔ یعنی میں نے آپ سے عرض کیا نا کہ میری ماں اور میرے
باپ دونوں کو ہو سکتا ہے میری کوئی ضرورت نہ ہو ، کسی خدمت کی بھی ضرورت نہ ہو۔
ایسے دسیوں ماں باپ ہوں گے۔ لیکن بحیثیت ایک بیٹے کے میرا روّیہ کیا ہونا چاہیئے ان
کے بارے میں ؟ بتایا جائے گا نا کہ میرا روّیہ ان کے بارے میں عزت کا ہونا چاہیئے ،
احترام کا ہونا چاہیئے ، ان کی حیثیت کے اعتراف کا ہونا چاہیئے ، ان کی خدمت کا
ہونا چاہیئے ، ان سے حُسنِ سلوک کا ہونا چاہیئے۔ یہ جو چیز ہے یہ اخلاقی تقاضا ہے
یا نہیں ؟ تو اخلاقی تقاضا خالق کے بارے میں کوئی کیوں پیدا نہیں ہوگا۔ اگر کوئی
آدمی خالق کے بارے میں یہ رائے قائم کرتا ہے کہ اس کا کوئی اور بھی خالق ہے یا خالق
کے ساتھ اس کے معاملات میں کوئی اور بھی شریک ہے۔ وہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ بول رہا
ہے ؟ اگر وہ جھوٹ بول رہا ہے تو جھوٹ بولنا ان کے نزدیک کوئی بُرائی ہے یا نہیں ؟
بُہتان باندھنا کوئی برائی ہے یا نہیں ؟ اگر کوئی آدمی کھڑا ہو کر یہ کہے کہ میری
جو اصل ماں ہے اس کو تو میں کوئی خاص اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں۔ چار مائیں میری
اور بھی ہیں جن کو میں ماں بنا کر رکھنے کے لیے تیار ہوں۔ کیا روّیہ ہو گا ان کا ؟
تو اصل میں یہ جو شرک کا معاملہ ہے یہ میرے اخلاقی وجود سے پیدا ہوتا ہے۔ اخلاقی
وجود کا مطلب کیاہے ـ کہ گردوپیش میں میرے اور جتنے تعلقات ہیں مجھے ان کا حق اد
کرنا ہے۔ تو خدا کا حق یہ ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ جس طریقے
سے ماں باپ کا حق یہ ہے کہ ان کے ساتھ حُسن ِ سلوک کیا جائے ، یہ خدا کا حق ہے۔ اور
یہ حق میرے حوالے سے پیدا ہوتا ہے خدا کے حوالے پیدا نہیں ہوتا۔ خدا کی بڑی عنایت
ہے مجھ پر کہ وہ مجھے والدین کے حقوق بھی بتاتا ہے ، وہ مجھے اعزا و اقرابا کے حقوق
بھی بتاتا ہے اور وہ مجھے اپنے حقوق بھی بتاتا ہے۔
میزبان : اصل میں جب
اپنے حقوق خود بتاتا ہے تو وہاں سے یہ خیال ہوتا ہے ان کو کہ وہ کیوں اپنے بارے میں
یہ حقوق بتا رہا ہے۔
غامدی صاحب : یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے والدین بچوں کو یہ بتاتے ہیں کہ والدین کے
حقوق کیا ہیں۔ یہ اپنے بچوں کو بتائیں گی نا۔ اپنے بچوں کو بتائیں گی کہ دیکھو
تمہارے والدین کی حیثیت سے میرا کیا حق تم پر قائم ہوتا ہے ، تمہاری ماں کی حیثیت
سے کیا ہوتا ہے ، تمہارے باپ کی حیثیت سے کیا ہوتا ہے۔ تو یہ حقوق بتانے کا کام
تعلیم دینے کا کام ہے۔ تو خدا جس طریقے سے ہمارا خالق ہے اسی طریقے سے ہمیں تعلیم
بھی دیتا ہے۔ یہ اس نے تعلیم دی ہے اور یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے کہ آپ اپنے
سارے تعلقات میں ہر جگہ کہیں کہ میں بہت اچھا ہوں اور یہ بہت اچھے آپ کہاں ہیں ؟
بہت اچھے آپ اس دنیا کی زندگی میں ہیں۔ جس وقت یہ پردہ اٹھے گا اور وہ زندگی وجود
میں آئے گی اور اس میں وہ تعلق جو خدا کا تعلق ہے وہ زندہ حقیقت بن کر سامنے آ
جایئے گا۔ یوں سمجھ لیجیئے نا کہ آپ کی ماں اور آپ کے باپ نہیں تھے وہ وجود پذیر ہو
گئے۔ اب بتائے اخلاقی تقاضے کیا ہیں ؟ تو یہ میرا شرف ہے کہ میں خدا کی توحید کا
اقرار کروں۔ خدا کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔
میزبان : اچھا وہ بات جو
انہوں نے اس سے پہلے کہی تھی ، پہلے حصے میں کہ بھئ اس دور میں تو لوگ ایمان لاتے
ہی نہیں۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ وہ ان چیزوں سے انکار کردیتے ہیں جو غیب کی چیزیں
ہیں۔
غامدی صاحب : اس میں بھی
انہوں نے تھوڑا سا مبالغہ کیا ہے ، بہت معذرت کے ساتھ ، مبالغہ کیا ہے۔ اس وقت دنیا
کے اندر کڑوروں انسان ایسے ہیں ، اربوں انسان ایسے ہیں جو خدا کو ماننے والے ہیں۔
بہت تھوڑے لوگ ہیں کہ جو نہ ماننے والے ہیں۔ اصل میں ہم جس حلقے کے اندر جی رہے
ہوتے ہیں اس کے اندر بعض لوگوں کی باتوں کو ہم پوری دنیا کی بات سمجھ لیتے ہیں۔
دنیا کے اندر کڑوروں ، اربوں لوگ خدا کو ماننے والے ہیں۔ اور ابھی تو شرک کی بدترین
قسمیں دنیا کے اندر موجود ہیں۔ تو بات یہ ہے کہ فرض کیجیئے کہ سارے کے سارے لوگ سچ
بولنے لگ جائیں تو کیا جھوٹ کی مذمت اللہ کی کتاب میں نہیں ہونی چاہیئے؟ بتایا جائے
گا نا۔ تو یہ اصل میں اخلاقی حوالے سے مسئلے کو دیکھ ہی نہیں رہے۔ میرے اپنے وجود
سے یہ سارا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ مجھے یہ بتانا ضروری ہے کہ کون سی چیزیں ایسی ہیں
جو اخلاقی لحاظ سے میرے لیے شرمناک ہیں۔ مجھے اپنی ماں کو ماں کہنا چاہیئے ، باپ کو
باپ کہنا چاہیئے۔ مجھے اعزا و اقرابا کو ان کا حق دینا چاہیئے۔ اسی طریقے سے میرا
ایک خالق ہے مجھے اس کے بارے میں بھی صحیح تصور قائم کرنا چاہیئے۔