سوال : ہم ہر کسی کو بڑے
آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ فلاں کافر ہے۔ تو کافر کی تعریف کیا ہے۔ non۔ believer
کس کو کہتے ہیں؟ کیوں کہ اور مذاہب کے لوگ بھی بالآخر ایک اعلیٰ ہستی کو مانتے ہیں۔
اور دوسرا میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں آج کل کیبل پہ چینل چل رہے ہیں جن میں
لاکھوں کے حساب سے ان کے پیروکار ہیں۔ وہ جو مولوی صاحب ہیں وہ فرماتے ہیں کہ تعلیم
جو ہے وہ بہت بُری چیز ہے ، خواتین کی خاص طور پر۔ اور وہ ماں باپ نہایت بے غیرت
ہیں ، بے شرم ہیں۔ یہ دونوں الفاظ انہوں نے استعمال کئے ہیں on air اور یہاں تک کہ
وہ لڑکیوں کو ڈاکٹر بناتے ہیں۔ اب وہ مردوں کی کیا نبضیں دیکھیں گی ؟ اور سب لوگ جو
ہیں وہ بالکل سر ہلائے جا رہے تھے کہ ہاں بالکل ٹھیک ہے۔ مجھے بتائے کہ جہاں زچّہ
کی اموات کی شرح اس وقت اتنی زیادہ ہے کہ پاکستان شرمندہ ہوتا ہے جب اعداد و شمار
بیان کی جاتی ہیں۔ تو آپ مجھے بتائے کہ ڈاکٹر نہ بنائیں گے تو زچّہ اور بچّہ کی شرح
اموات بڑھتی رہیں گی۔ اور خواتیں بیمار ہوکے کیا مردوں کے پاس جائیں گی ؟ اور اس
طرح کی چینلز کو اتنا فروغ مل رہاہے۔ بہت سارے لوگ جو اتنا پڑھے لکھے نہیں ہیں ، ان
کی بصیرت اتنی نہیں ہے۔
غامدی صاحب : کافر ، ہم تو کسی کو بھی نہیں کہہ سکتے۔ ہم جو لفظ استعمال کر سکتے
ہیں وہ غیر مسلم کا ہے۔ یہ ایک بالکل بیانِ واقعہ ہے کہ دنیا کے اندر مسلمان ہیں ،
اس کے علاوہ مسیحی ہیں ، یہود ہیں ، ہنود ہیں۔ آپ ان کا نام بھی لے سکتے ہیں اور آپ
ان کو ایک بڑی کیٹگری میں غیر مسلم بھی کہہ سکتے ہیں۔ کافر کا مطلب تو یہ ہے کہ کسی
شخص نے کسی حد تک جانتے بوجھتے انکار کیا۔ یہ چیز اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ تو
اس وجہ سے تکفیر جس کو کہتے ہیں ، کسی کو کافر قرار دینا ، منکر قرار دینا ، یہ
اللہ کا کام ہے۔ اور اللہ کے پیغمبر ؐ کی موجودگی میں چونکہ اللہ کا فتویٰ اس
معاملے میں معلوم ہو جاتا ہے تو اس وقت تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلاں کو اللہ نے کافر
قرار دے دیا۔ یہ میرا اور آپ کا کام نہیں ہے۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہم لوگوں کو
یہ بتائیں کہ یہ شِرک ہے ، یہ کفر ہے ، یہ چیز ایسی ہے جو دین میں ناقابلِ قبول ہے۔
بس اس سے زیادہ ہم کسی فرد کے بارے میں یا کسی گروہ کے بارے میں اس طرح کا حکم نہیں
لگا سکتے۔
میزبان : اچھا ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو مانتے ہیں ، خدا کی ہستی کو یا جیسے ایک
سپریم ہستی کو ، جیسے انہوں نے فرمایا۔ اور اس کے ساتھ ہی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن
کو لوگ ’atheist‘ لیبل کردیتے ہیں کسی کو non۔ believer کہتے ہیں۔ اس کی کچھ وضاحت
کردیں۔
غامدی صاحب : یہ تو خود اس آدمی کو بتانا چاہیے۔ ہمارا کام یہ نہیں ہے کہ ہم اس پہ
کوئی حکم لگائیں۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کو مانتا ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم اس کو
اللہ تعالیٰ کا منکر کہیں۔ اور اگر نہیں مانتا ، اس بات کا اعتراف کرتا ہے تو اسے
خود بھی یہی بات کہنی چاہیے۔ اصل میں یہاں سوال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی شخص
اپنے بارے میں ایک بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور ہم کہتے ہیں کہ تم اس جرم
کا ارتکاب کر رہے ہو۔ یہ ہم جب کرتے ہیں ہمیں یہ حق حاصل نہیں ہے۔ کوئی آدمی اپنے
بارے میں جو اعلان کرنا چائے کرے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ میں رسالت مآب ؐ کو اللہ کا
پیغمبر نہیں مانتا۔ ایک کہتا ہے میں حضرت مسیح ؑ کو اللہ کا پیغمبر نہیں مانتا تو
ہم کہیں گے کہ وہ رسالت مآب ؐ کا منکر ہے یا کہیں گے کہ وہ حضرت مسیح ؑ کا منکر ہے۔
تو یہ تو ایک بیانِ واقعہ ہوگا۔ اصل میں ہوتا یہ ہے کہ ہمارے ہاں جس وقت کوئی آدمی
دین کے بارے میں گفتگو کرتا ہے تو ہم یہ خیال کرتے ہیں۔ وہ کہہ رہا ہے کہ میں
مسلمان ہوں ، میں اللہ کو مانتا ہوں اور اللہ کے پیغمبروں کو مانتا ہوں ، میں بالکل
ٹھیک دین کی تعبیر کر رہا ہوں ، دین پر عمل پیرا ہوں۔ ہم کہتے ہیں اس نے کفر کا
ارتکاب کر دیا ہے۔ یہ بہت بڑی جسارت ہے ، اس کا ارتکاب کرنے کا کسی کو حق نہیں۔
میزبان : اب سوال خواتین کے بارے میں۔
غامدی صاحب : بڑی بدقسمتی کی بات ہے جی۔ میرے لیے تو یہ بڑی نئی بات ہے کہ اس طرح
کی کوئی ویب سائٹ قائم ہے۔ اور اس کے اوپر کوئی صاحب اس طریقے سے بات کرتے ہیں۔
میزبان : ٹی وی چینل۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹی وی چینل ہے جس پر وہ آتے ہیں اور بہت سارے
پیروکار ہوتے ہیں جس پر وہ اعلان کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ خواتین کی تعلیم نہیں
ہونی چاہیے۔
غامدی صاحب: بڑی بد قسمتی کی بات ہے۔ تعلیم تو ہر مسلمان کے لیے حاصل کرنا لازم ہے۔
ہماری قوم کا بنیادی مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہم نے اپنی قوم کو جاہل رکھا ہوا ہے۔ عورتوں
کو تعلیم پانی ہے ، مردوں کو تعلیم پانی ہے ، تعلیم تو ہماری ترجیح ِ اول ہونا
چاہیئے۔ یعنی ہمارے ہاں ہمارے راہنماؤں کو سب سے بڑھ کر جس چیز پر توّجہ دینی
چاہیئے وہ تعلیم ہے۔ ہماری خواتین تعلیم نہیں پائیں گی تو وہ اپنے بچوں کی تربیت
کیا کریں گی۔ وہ زندگی کے دوسرے معاملات کے اندر اپنا کیا کردار ادا کریں گی۔ یہ
کیسی افسوس کی بات ہے کہ پچاس ، اکاون فی صد آبادی کے بارے میں آپ یہ کہیں کہ اس کو
جاہل ہونا چاہیئے۔ تو اس پر تو صرف ماتم کرنا چاہیئے۔ اس کے سوا میں کیا تبصرہ کر
سکتا ہوں۔ تعلیم پانا فرض ہے ہمارا ، ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ ہماری دینی ذمہ داری ہے
، یہ ہماری قومی ذمہ داری ہے ، یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اس میں مردوں اور
عورتوں کے درمیان کوئی تفریق کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نہیں
کی ، اللہ کے پیغمبر ؐ نے نہیں کی۔ رسالت مآب ؐ نے جو دین کی تعلیم دی ہے ، مردوں
کو دی ہے ، عورتوں کو دی ہے اور بار بار قرآنِ مجید اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ جو
لوگ علم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے وہ برابر نہیں ہو سکتے۔ تو وہاں تخصیص کون
کرتا ہے کہ عورتوں کو اس سے محروم رہنا چاہیئے؟ ہر طرح کی تعلیم پانی چاہیئے اور
زندگی کے جس شعبے کی بھی ان کو صلاحیت حاصل ہے ان کے اندر ، ان کو تعلیم پانی
چاہیئے۔ اگر ہمارے پاس خواتین ڈاکٹر نہیں ہوں گیں ، انجنیئر نہیں ہوں گیں ، ہمارے
ہاں مفکر نہیں ہوں گیں اور علماء خواتین نہیں ہوں گیں تو ..
میزبان : اس میں مردوں ، عورتوں میں کوئی فرق نہیں ۔