توہین رسالت کی سزا کے جو واقعات بالعموم نقل کیے جاتے ہیں، اُن کی حقیقت بھی سمجھ
لینی چاہیے۔ ابو رافع اُن لوگوں میں سے تھا جو غزوئہ خندق میں قبائل کو مدینہ پر
چڑھا لانے کے مجرم تھے۔ ابن اسحاق کے الفاظ میں ، 'فیمن حزب الاحزاب علی رسول
اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم'۔کعب بن اشرف کے بارے میں مؤرخین نے لکھا ہے کہ غزوئہ
بدر کے بعد اُس نے مکہ جا کر قریش کے مقتولین کے مرثیے کہے جن میں انتقام کی ترغیب
تھی ، مسلمان عورتوں کا نام لے کر تشبیب لکھی اور مسلمانوں کو اذیت پہنچائی، رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت میں رہتے ہوئے آپ کے خلاف لوگوں کو بر انگیختہ
کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ بعض روایتوں کے مطابق آپ کو دھوکے سے قتل کر دینا چاہا۔
عبداللہ بن خطل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کی تحصیل کے لیے بھیجا۔
اُس کے ساتھ ایک انصاری اور ایک مسلمان خادم بھی تھا۔ راستے میں حکم عدولی پر اُس
نے خادم کو قتل کر دیا اور مرتد ہو کر مکہ بھاگ گیا*۔ پھر یہی نہیں، یہ تینوں خدا
کے رسول کی طرف سے اتمام حجت کے باوجود آپ کی تکذیب پر مصر رہے اور اللہ تعالیٰ نے
اپنا یہ قانون قرآن میں جگہ جگہ بیان فرمایا ہے کہ رسولوں کے براہ راست مخاطبین
عذاب کی زد میں ہوتے ہیں۔ چنانچہ معاندت پر اتر آئیں تو قتل بھی کیے جا سکتے ہیں۔
اِس سے واضح ہے کہ یہ
محض توہین کے مجرم نہیں تھے، بلکہ اِن سب جرائم کے مرتکب بھی ہوئے تھے۔ لہٰذا اِنھی
کی پاداش میں قتل کیے گئے۔ عبداللہ بن خطل ایک خونی مجرم تھا۔ اُس کے بارے میں اِسی
بنا پر حکم دیا گیا کہ کعبے کے پردوں میں بھی چھپا ہوا ہو تو اُسے قتل کر دیا جائے۔
اِسی طرح کے مجرم تھے جن
کا ذکر سورہئ احزاب میں ہوا ہے۔ خدا کے پیغمبر سے مسلمانوں کو برگشتہ اور بدگمان
کرنے اور اسلام اور مسلمانوں کی اخلاقی ساکھ بالکل برباد کر دینے کے لیے یہ اُن کی
خانگی زندگی کے بارے میں افسانے تراشتے، بہتان لگاتے اور اسکینڈل پیدا کرتے تھے،
ازواج مطہرات سے نکاح کے ارمان ظاہر کرتے تھے، مسلمانوں میں گھبراہٹ پھیلانے اور
اُن کے حوصلے پست کرنے کے لیے طرح طرح کی افواہیں اڑاتے تھے، مسلمان عورتیں جب رات
کی تاریکی میں یا صبح منہ اندھیرے رفع حاجت کے لیے نکلتی تھیں تو اُن کے درپے آزار
ہوتے اور اِس پر گرفت کی جاتی تو اِس طرح کے بہانے تراش کر اپنے آپ کو بچانے کی
کوشش کرتے تھے کہ ہم نے تو فلاں اور فلاں کی لونڈی سمجھ کر اُن سے فلاں بات معلوم
کرنا چاہی تھی۔ اِن کے بارے میں یہ سب چیزیں قرآن کے اشارات سے بھی واضح ہیں اور
روایتوں میں بھی صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔
**
چنانچہ فرمایا کہ مسلمان عورتیں اپنی کوئی چادر اوپر ڈال کر باہر نکلیں تاکہ
لونڈیوں سے الگ پہچانی جائیں اور اُن کو ستانے کے لیے یہ اِس طرح کے بہانے نہ تراش
سکیں۔ نیز فرمایا کہ یہ اشرار بھی متنبہ ہو جائیں کہ اِن حرکتوں سے باز نہ آئے تو
عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیے جائیں گے:
للَئِن
لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ
وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا
يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا مَلْعُونِينَ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا
وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا
(٣٣: ٦٠-٦١)
''یہ منافق اگر (اِس
کے بعد بھی) اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے اور وہ بھی جن کے دلوں میں بیماری ہے اور وہ
بھی جو مدینہ میں جھوٹ اڑانے والے ہیں تو ہم اِن کے خلاف تمھیں اٹھا کھڑا کریں گے۔
پھر وہ مشکل ہی سے تمھارے ساتھ رہ سکیں گے۔ اِن پر پھٹکار ہو گی، جہاں ملیں گے پکڑے
جائیں گے اور عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیے جائیں گے۔''
اِن کے علاوہ جو واقعات سنائے جاتے ہیں، وہ اگرچہ سند کے لحاظ سے ناقابل التفات ہیں،
لیکن بالفرض ہوئے ہوں تو اُن کی نوعیت بھی یہی سمجھنی چاہیے کہ منکرین کے سب و شتم
سے اُن کی معاندت پوری طرح ظاہر ہو جانے کے بعد رسولوں کی تکذیب کا وہ قانون اُن پر
نافذکر دیا گیا جو قرآن میں ایک سنت الٰہی کی حیثیت سے مذکور ہے۔ بعض مقتولین کے
خون کو ہدر قرار دینے کی وجہ بھی یہی تھی۔ ' لا يقتل مسلم بکافر'*** اِسی کا بیان
ہے۔ علما اِن حقائق سے واقف ہیں، لیکن اِس کے باوجود اُن کا اصرار ہے کہ اِن واقعات
سے وہ توہین رسالت کا قانون اخذ کریں گے۔
یہاں ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اُس قصے سے بھی استدلال کرنا چاہے جو سیدنا عمر کے
متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ تسلیم نہ کرنے پر
اُنھوں نے ایک شخص کی گردن اڑا دی تھی۔ ہمارے علما یہ واقعہ منبروں پر سناتے اور
لوگوں کو بالواسطہ ترغیب دیتے ہیں کہ توہین رسالت کے مرتکبین کے ساتھ وہ بھی یہی
سلوک کریں، مگر حقیقت یہ ہے کہ حدیث کے پہلے، دوسرے ، یہاں تک کہ تیسرے درجے کی
کتابیں بھی اِس واقعے سے خالی ہیں۔ ابن جریر طبری ہر طرح کی تفسیری روایتیں نقل کر
دیتے ہیں، مگر اُنھوں نے بھی اِسے قابل اعتنا نہیں سمجھا۔یہ ایک غریب اور مرسل
روایت ہے جسے بعض مفسرین نے اپنی تفسیروں ميں نقل ضرور کيا ہے ،لیکن جن لوگوں کو
علم حديث سے کچھ بہرہ حاصل ہے ، اُنھوں نے وضاحت کر دی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ
سے اِس کی سند بالکل واہی ہے اور ابن مردویہ اور ابن ابی حاتم کی سندوں میں اِس کا
راوی ابن لہیعہ ضعیف ہے****۔اِس کے بارے میں یہ بات بھی بالکل غلط ہے کہ مفسرین
سورہ نساء (٤) کی آیت ٦٥ کی شان نزول کے طور پر یہی واقعہ بیان کرتے ہیں۔ نساء کی
یہ آیت اگرچہ کسی شان نزول کی محتاج نہیں ہے، تاہم جو واقعہ امام بخاری اور دوسرے
ائمہ محدثین نے اِس کی شان نزول کے طور پر بیان کیا ہے اور جسے مفسرین بالعموم نقل
کرتے ہیں، وہ اِس کے برخلاف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد
بھائی حضرت زبیر کا ایک انصاری سے پانی پر اختلاف ہو گیا۔ معاملہ حضور کے سامنے پیش
ہوا تو آپ نے فرمایا کہ زبیر اپنے کھیت کو سیراب کرکے باقی پانی اُس کے لیے چھوڑ
دیں گے۔ اِس پر انصاری نے فوراً کہا: یا رسول اللہ، اِس لیے نا کہ زبیر آپ کے
پھوپھی زاد بھائی ہیں؟ یہ صریح بے انصافی اور اقرباپروری کا اتہام اور انتہائی
گستاخی کی بات تھی۔ چنانچہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، مگر آپ
نے اِس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنی بات مزید وضاحت کے ساتھ دہرا دی اور فرمایا کہ
کھیت کی منڈیر تک پانی روک کر باقی اُس کے لیے چھوڑ دیا جائے۔*****
علما
کو حسن انتخاب کی
داد دینی چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عفو و درگذر اور رافت
و رحمت کی یہ روایت تو اُنھوں نے نظر انداز کر دی ہے، دراں حالیکہ یہ بخاری و مسلم
میں مذکور ہے اور حضرت عمر کے گردن ماردینے کی ضعیف اور ناقابل التفات روایت ہر جگہ
نہایت ذوق و شوق کے ساتھ سنا رہے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــ
* السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ٣/ ٢٤٨،٤٧-٤/٤٤۔ سیرت النبی، شبلی نعمانی١/ ٢٥٣۔
** جامع البیان، ابن جریر الطبری ١٠/٣٣٢۔ تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر ٣/٥١٨۔
الکشاف، زمخشری ٣/٥٦٩۔
*** بخاری، رقم ١١١۔ ''اِن منکروں کے قصاص میں کسی مسلمان کو قتل نہیں کیا جائے گا۔''
**** تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر ١/ ٦٨١۔
***** تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر ١/ ٦٨٠۔