Author | Topic |
hkhan
UNITED KINGDOM
|
Topic initiated on Wednesday, April 21, 2010 - 9:25 AM
اپنا اچھا عمل جاري ركھيں---
ميرا يہ پيغام خاص طور پر ان بہنون كے ليے ہے جو اپنے گھر كي ذمہداريوں كے ساتھ ساتھ معاشرے كے دوسرے ميدانوں ميں بھي انسانيت كي خدمت كرنا چاھتي ہين مگر اپنے ہي بھاييوں كي انا اور اجارہ داري كي وجھ سے انہيں مشكلات كا سامنا رہتا ہے-- اپنے آپ كو اللہ كے ساتھ جوڑتے ہوے اپنااچھاعمل اور كوشش جاري ركھيں-
ان بھاييوں كي تربيت ميں بھي عورت كا ہاتھ ہے- آج ہي سوچيں كہ اپ اپنے بيٹوں كو عورت كے بارے ميں كيا تصور دے رہي ہيں- اس كي زندگي مين سب سے پہلي عورت آپ خود ہيں- وہ آپ كو آپ كے ايمان كي وجہ سے زندگي كے ہر معاملے ميں حق اور سچ پر كس قدر ثابت قدم پاتا ہے-
"کلاس روم میں سناٹا طاری تھا۔ طلبا کی نظریں کبھی استاد کی طرف اٹھتیں اور کبھی بلیک بورڈ کی طرف۔ استاد کے سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ سوال تھا ہی ایسا۔ استاد نے کمرے میں داخل ہوتے ہی بغیر ایک لفظ کہے بلیک بورڈ پر ایک لمبی لکیر کھینچ دی۔ پھر اپنا رخ طلبا کی طرف کرتے ہوئے پوچھا، ’’تم میں سے کون ہے جو اس لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا کر دے ؟‘‘۔’’یہ ناممکن ہے ۔‘‘، کلاس کے سب سے ذہین طالبعلم نے آخر کار اس خاموشی کو توڑ تے ہوئے جواب دیا۔ ’’لکیر کو چھوٹا کرنے کے لیے اسے مٹانا پڑ ے گا اور آپ اس لکیر کو چھونے سے بھی منع کر رہے ہیں ۔‘‘ باقی طلبا نے بھی گردن ہلا کر اس کی تائید کر دی۔ استاد نے گہری نظروں سے طلبا کو دیکھا اور کچھ کہے بغیر بلیک بورڈ پر پچھلی لکیر کے متوازی مگر اس سے بڑ ی ایک اور لکیر کھینچ دی۔ جس کے بعد سب نے دیکھ لیا کہ استاد نے پچھلی لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا کر دیا تھا۔ طلبا نے آج اپنی زندگی کا سب سے بڑ ا سبق سیکھا تھا۔ دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر، ان کو بدنام کیے بغیر، ان سے حسد کیے بغیر، ان سے الجھے بغیر ان سے آگے نکل جانے کا ہنر چند منٹ میں انہوں نے سیکھ لیا تھا۔
انسان کو اللہ تعالیٰ نے جس فطرت پر پیدا کیا ہے اس میں اپنا موازنہ دوسروں سے کر کے ان سے آگے بڑ ھنا انسان کی طبیعت میں شامل ہے ۔ اس کام کو کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ دوسرے کو چھوٹا بنانے کی کوشش کی جائے ۔ مگر ایسی صورت میں انسان خود بڑ ا نہیں ہوتا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دوسروں سے الجھے بغیر خود کو مضبوط، طاقتور اور بڑ ا بنانے پر توجہ دی جائے ۔ دوسرے اس شکل میں بھی چھوٹے ہوجاتے ہیں ، مگر اصل بات یہ ہے کہ اس عمل میں انسان خود بڑ ا ہوجاتا ہے ۔
دوسروں سے الجھے بغیر آگے بڑ ھنا، خدا کی دنیا میں ترقی کا اصل طریقہ ہے ۔ فرد اور قوم دونوں کے لیے دیرپا اور مستقل ترقی کا یہی واحد راستہ ہے ۔" ishraqdawah.org |
|
isfi22
PAKISTAN
|
Posted - Saturday, May 22, 2010 - 8:20 AM
بلاشبہ محترمہ ڈاکٹر صاحبہ کے یہ خیالات بیش قیمت ہیں۔ میں اس میں بس کچھ اضافہ کرنا چاہوں گا جن کی طرف اگر چہ ان کی تحریر میں اشارہ موجود ہے۔ یعنی خواتین کو یہ دیکھنا اور ہر وقت پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اپنے بیٹوں کی زندگی میں وہ پہلی خاتون ہیں اور وہ اسے ایک عورت کا کیا تصور دے رہی اور کیا کردار رکھا رہی ہیں۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اس کے خیالات میں خاتون کی اہمیت، عزت، وقعت وغیرہ اور اس کے بھی مکمل انسان ہونے اور انسانی تہذیب و نسل اور انسانی شعبوں میں ترقی و بہتری کے عمل میں شامل و شریک ہونے کا حق رکھنے جیسے تصورات پیوست کرنے کی شعوری جدوجہد کریں۔ انجمن حقوق نسواں کے نام سے جو تحریکیں اٹھیں ہیں اگر انہوں نے اس طریقے کو بھی اپنایا ہوتا اور اس نہج پر بھی جدوجہد کی ہوتی کہ وہ اپنی گودوں میں آنے والے مردوں کے خواتین کے حوالے سے تصورات اور ان کے ساتھ عملی معاملات کے بارے میں بہتری لانے کی جدوجہد کرتیں تو میرے خیال سے اس کے کافی قابل قدر و نمایاں اثرات آج ہم ضرور دیکھ رہے ہوتے۔ |
|
hkhan
UNITED KINGDOM
|
Posted - Saturday, May 22, 2010 - 9:34 AM
بہت اچھي بات كي آپ نے- دراصل ہميں 'حقوق نسواں' ٹايپ كي انجمنوں سے شروع سے ہي چڑ تھي- ہم سمجھتے جن خواتين كو كوي كام نہيں اور اپنے فرايض ادا نہيں كيے, وہ ايسي انجمنيں بنا ليتي ہيں- ليكن وقت اور تجربہ آنكھيں كھولتا ہے - اصل ميں ہم اس كہاوت پر يقين نہيں ركھتے كہ " چنگي بوٹي منڈے نوں تے كڑوي بوٹي (ہڈي) كڑي نوں" جو كہ بد قسمتي سے ہمارے پنجاب كي تہزيب كي گھٹي ميں شامل ہے- دين بھي اب تك اس پر غالب نہ آسكا... مگر اس مين ہماري خواتين كا ہي زيادہ ہاتھ ہے- جنہوں نے چھوٹي عمر سے لڑكوں كو يہ تربيت دي كہ بہنيں مار كھانے اور رونے كے ليے ہي پيدا ہوتي ہيں- وہ آپ كي 'پنچ كشن' ہيں- تو يہي بچہ جب مرد بنا اس نے يہ تہزيب اپني بيوي اور ارد گرد كي تمام عورتوں كے ساتھ جاري ركھي- لحاظہ ايك عورت كي غلطي كا خميازہ اتني عورتوں كو بھگتناپڑا.... |
|
isfi22
PAKISTAN
|
Posted - Saturday, May 22, 2010 - 9:49 AM
آپ کے تبصرے سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے آخری بات کے حوالے سے صرف اتنا عرض کروں گا کہ ایک عورت کی غلطی نہیں بلکہ بہت سی عورتوں کی مشترکہ غلطی کا تاریخی طور پر طبقہ خواتین کو یہ نتیجہ دیکھنا اور برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک عورت کی غلطی کبھی بھی معاشرے کے پیمانے کا غلط رواج نہیں بن سکتی۔ اسی ذیل میں ایک اور بات ذہن میں آرہی ہے کہ آج ہر طرف بچوں کے بگاڑ کی شکایت سننے میں آتی ہے۔ جہاں ایک خاتون کی غفلت اور اس کے غلط کردار کو ہم اس بات کا سبب قرار دے رہے ہیں کہ اس کے بیٹے بڑے ہوکر خواتین کے ساتھ وہی سلوک اور معاملہ کرتے ہیں جسے وہ معاشرے کا عام پیٹرن دیکھتے چلے آتے ہیں۔ اسی طرح بچوں کا عمومی بگاڑ ماں باپ، اساتذہ اور گھر و خاندان کے بڑوں کے بگاڑ و فساد کا نتیجہ ہوتا ہے۔ لوگ بچوح کی تربیت کی اہمیت سے انتہائی خطرناک حد تک غافل ہوچکے ہیں۔ انہیں احساس ہی نہیں کہ ان کی سرپرستی اور ماتحتی میں ایک پورا انسان پرورش پارہا اور ان کے گفتار و کردار سے اپنی سیرت و عادات کے نقشے میں رنگ بھر رہا ہے۔ کل کو اس نے بڑا ہونا اور سماج میں ایک کردار ادا کرنا ہے۔ وہ کرادر ایک اعلیٰ اخلاقی شخصیت و آئیڈیل انسانی نمونہ بھی ہوسکتا ہے اور ان کی غفلت، لاپرواہی اور ذاتی زندگی کے بگاڑ و فساد کے باعث بدترین و مہلک ترین فسادی انسان و شیطان کا بھی ہوسکتا ہے، لیٰذا بچوں کی تربیت کی طرف دھیان دینے اور انہیں اعلیٰ اقوال و اعمال اور مثالی شخصیت و کردار کا پیکر بنانے کے لیے اعلی درجے کی شعوری کوشش و محنت نہایت ضروری ہے۔ بدقسمتی سے اساتذہ، تعلیمی ادارے اور دور جدید کا سب سے زیادہ موثر عامل میڈیا اس حوالے سے نہایت افسوسناک کردار ادا کررہے ہیں۔ اس صورتحال میں ماں باپ اور چھوٹے بچوں سے حقیقی پیار و محبت کا تعلق رکھنے والوں کی ذمہ داری کتنے گنا زیادہ ہوجاتی ہے اس کا فیصلہ ہر عاقل و سمجھدار انسان خود کرسکتا ہے۔ |
|