Powered by UITechs
Get password? Username Password
 
 
Page 1 of 1

  Reply to Topic    Printer Friendly 

AuthorTopic
abidaziz

UNITED KINGDOM
Topic initiated on Sunday, January 3, 2010  -  1:44 PM Reply with quote
ماں بھی نہ رہوں


سکول میں تعلیم کے دوران ریاضی کی ٹیچر نے کئی بار قدرتی توازن یا نیچرل بیلنسنگ کا سبق پڑھایا تھا لیکن میں کبھی نہیں سمجھ پائی۔ پھر مولوی ساحب نے قرآن شریف پڑھاتے وقت اکثر یہ بات دوہرائی کہ قدرت نے کائنات کا توازن برقرار رکھنے کے لئے کچھ اصول وضع کے ہیں اور ہر ایک کا اپنا کردار متعین کیا ہےگو کہ وقت کے تقاضے کے مطابق ہمیں اپنے طرز عمل میں کچھ تبدیلیاں بھی لانی پڑتی ہے مگر سِرے سے کسی کا کردار تبدیل کرنا قدرت کے منافی ہے اور اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی ذہن کے اُوپر سے گزر کر چلی گئی۔

یورپ کی گلیوں میں باربر دکانوں سے گزر کر جب میں نے مردوں کا شیو عورتوں کو یا عورتوں کے بال مردوں کو بناتے دیکھا تو میں گہری سوچ میں پڑگئی۔
عراق اور افغانستان میں جب خواتین کو ابراہم توپیں چلاتے دیکھا تو مجھے مہندی والے خوبصورت ہاتھ یاد آگئے۔
یہاں کے بیشتردفتروں میں عورتوں کوملازمت کرتےاور مردوں کو گھروں میں بچوں کو دودھ پِلاتے پایا تو میں ذہنی انتشار میں غرق ہوگئی اور اُ س وقت سے میری نیند ہی اُڑ گئی ہےجب میں نے سنا کہ مرد اب بچے کو جنم بھی دے سکتا ہے۔ میں کم از کم تخلیق کرنے کی اس انمول خوبی سے محروم نہیں ہونا چاہتی۔
اب میں کچھ کچھ سمجھنے لگی ہوں کہ قدرتی توازن کا بگاڑ یا سنبھال کسے کہتے ہیں پتہ نہیں مساوی حقوق حاصل کرنے کی جنگ کہیں حد سےتجاوز تو نہیں کررہی ہے یا ہمیں جدید ترین معاشرے میں رہنے کی تہذیب نہیں ہے۔
shehzads

PAKISTAN
Posted - Monday, January 4, 2010  -  11:37 AM Reply with quote
"اور جوںہي ميں دروازے كي طرف بڑھي ميں نے پلٹ كر اس حسين فرشتہ صورت ڈاكٹر صاحبہ كو ايك بار اور نظر بھر كر اور نگاہوں سے اس مقدس مورتي كو چومتے ہوے ديكھا اور ڈھيروں دعاييں ديتي ہوييي چھلكتي آنكھوں سے باہر نكل آيي- اگر ان جيسي عظيم خواتين اپنے گھر اور بچوں كي زمہ داريوں كے ساتھ ساتھ دوگني محنت كر كے گھروں سے نكل كر,پڑھ لكھ كر ہم جيسي عورتوں كي مدد كو نہ آييں اور ان كے عظيم باپ اور شوہر بھي يہ قرباني نہ ديں تو مجھ جيسي ان گنت عورتيں اپنا شرم و حيا كا لبادہ كہاں تك برقرار ركھ سكيں جن كے شوہر اپني بيويوں اور بيٹيوں كو تو كسي مرد ڈاكٹر استاد يا وكيل يا اور كسي كام سے بھي مردوں سے معاملہ كرنے كو اپني غيرت پر تازيانہ سمجھتے ہيں مگر اپني خود غرضي سستي اور كاہلي كے اس قدر مارے ہويے ہيں كہ گھر ميں بيوي بچوں كا ہاتھ بٹانا تو كيا اٹھ كر ايك گلاس پاني بھي پينا گوارہ نہيں- ان مردوں كو بہت جلد تھوڑي بہت دايا كي تربيت بھي حاصل كرني پڑے گي تاكہ اپني بيويوں كے بچے بھي گھر ہي ميں پيدا كر ليا كريں- نبي صلعم نے كيا ہي ٹھيك فرمايا تھي خواتين كي تعليم كے بارے ميں- اور خود مثال بن كر گھر كے كاموں ميں ان كا ہاتھ بٹا كر تاكہ وہ وقت نكال سكيں-"
تحرير ڈاكٹر حنا خان- سويے حرم لاہور ٢٠٠٥
amtulrehman

PAKISTAN
Posted - Friday, January 8, 2010  -  3:53 PM Reply with quote
السلام عليكم- اصل ميں ہمارے بھولے بھالے بھايي يہ بھول جاتے ہيں كہ آج كل گھروں ميں كام كے لييے مشينوں اور نوكر چاكر كي وجہ سے خواتين كے پاس بہت وقت بچ جاتا ہے- اگر آپ آج بھي ٣٠ برس پہلے كے دور ميں بيٹھے رہيں تو آپ اپني خواتين كي صلاحيتوں اور اوقات كو بري طرح ضايع كر ديں گے- يہ خواتين يا ہر وقت آپ كي گھڑي سيٹ كرتي رہيں گي يا آپ كي محنت سے كمايي دولت شاپنگ ميں خرچ كرتي رہيں گي جس سے آپ خود ہي بيزار ہو جاتے ہيں يا فون اور ٹي وي پر وقت گزار ديں گي يا اور بيكار كاموں ميں - اور آپ قدرت كا توازن ہي سنبھالتے رہ جاييں گے!
isfi22

PAKISTAN
Posted - Monday, May 24, 2010  -  7:43 AM Reply with quote
ماشاء اللہ خوب ٹاپک ہے۔ اور کلام فرمانے والوں نے بھی خوب کلام کیا ہے۔ عابد عزیز کی تحریر میں بلاشبہ عدم توازن اور یک طرفہ نگاہی سرایت کیے ہوئے ہے۔ صحیح بات اور معقول رویہ وہی ہے جس کی طرف شہزادز نے ڈاکٹر حنا خان کی خوب صورت تحریر کے ریفرنس کی صورت میں توجہ دلائی اور امۃ الرحمٰن نے بھی دور جدید کی پیدا کردہ سہولتوں کے تناظر میں استدلال کیا ہے۔ اس میں اضافہ کرتے ہوئے میں یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ اس طرح کے موضوعات پر غور و فکر کرنے کا درست زاویہ یہ نہیں ہے کہ ہم تاریخ کے اوراق الٹیں اور اس کی روشنی میں یہ جائزہ لیں کہ ماضی کے مختلف ادوار میں کیا ہوتا رہا ہے اور اب بدلے ہوئے حالات اور نت نئے وسائل و آلات کے باعث کیا ہونا چاہیے۔

میرے خیال سے اس معاملے میں زیادہ مفید و مناسب اور فطری ترتیب کا حامل طریقہ یہ ہے کہ پہلے مرد و عورت کی فطری بناوٹ، نفسیات، صلاحیت و لیاقت، پیدائشی رجحانات اور تاریخ میں موجود عمومی کردار اور متعلقہ علوم و شعبہ ہائے معلومات کی روشنی میں سامنے آنے والے حقائق و تفصیلات کی بنیاد پر میدان اور حدود کا تعین کرلیا جائے۔ پھر اس کے بعد الہامی تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے کہ وہ خواتین کے حوالے سے کیا خیالات پیش کرتے، ان کے حدود و دائرہ کار کا کیا تصور دیتے اور زندگی کے میدانوں میں کہاں تک عورت کی شرکت و شمولیت کے جواز و امکان کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس انداز سے غور کرنے اور پھر اس کے بعد تاریخ میں عورت کے کردار کی مختلف سماجوں کے تناظر میں نظیریں تلاش کرنے کے بعد ہی اس معاملے میں افراط و تفریط سے پاک نقطہ نظر سامنے آسکتا ہے۔

یہ بات بہرحال تاریخی حقیقت ہے کہ عورت سماجوں کی تاریخ میں اور انسان کی کتاب زندگی کے مختلف ابواب میں مظلوم رہی ہے۔ اس کے ساتھ یقیناً زیادتی کی گئی ہے لیکن اس کا الزام الہامی مذاہب پر نہیں بلکہ دوسرے انسانی ساختہ فلسفوں، قبائلی توہمات اور دوسرے عوامل پر ہے۔ الہامی مذاہب کا رول اس باب میں کتنا شاندار و روشن ہے اس کا اندازہ اس باب میں اسلام میں دی گئی ہدایات اور اسلامی تاریخ کے مثالی ادوار میں خواتین کے ساتھ برتے گئے عملی رویوں کا جائزہ لے کر لگایا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ الہامی مذاہب اس پہلو سے خواتین کے سب سے بڑے محسن اور خیرخواہ ہیں اور انہی کی تعلیمات و اثرات کے نتیجے میں عورت کا مرتبہ و مقام بلند ہوا ہے۔ اور سماج میں ان کے ساتھ اعلیٰ انسانی و اخلاقی طرز عمل کی روایت شروع ہوئی ہے۔

Reply to Topic    Printer Friendly
Jump To:

Page 1 of 1


Share |


Copyright Studying-Islam © 2003-7  | Privacy Policy  | Code of Conduct  | An Affiliate of Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top    





eXTReMe Tracker