کیا بچوں کی شادی کے وقت ماں ، باپ یا سر پرست کی رضامندی کا ہونا ضروری ہے؟ آج کے اس دور میں جب بچے ماں باپ کی رضامندی کے بغیر شادیاں کرنے لگے ہیں تو یہ سوال بہت اہمیت اختیار کرچکا ہے۔
اس معاملے میں اسلام کا نقطہء نظر یہ ہے کے ماں ، باپ یا سر پرست کی رضا مندی کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتی۔ قانونی طور پر صرف دو چیزیں اہمیت رکھتی ہیں ایک عورت اور مرد جو شادی کرنا چاہتے ہیں ان کا پارسا ہونا بہت ضروری ہے اور دوسرا مرد کا اس عورت کو جس سے وہ شادی کرنا چاہتا ہے اسے مہر دینا اگرچہ ماں ، باپ یا ولی کی رضامندی معاشرتی اور تہذیبی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں بالعموم ان شادیوں کو پسند کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا جو والدین کی مرضی کے بغیر ہو۔ جہاں تک ان روایات کا تعلق ہے جیسے ۥۥلا نکاح االابولی‘‘ یا اس طرح کی اور روایات تو ان میں درحقیقت اسی معاشرتی پہلوکی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اسلام نے معاشرے کے استحکام ( جس کا انحصار گھر کے ادارے کے مضبوط ہونے پر ہے ) کے لیے جو احکامات دیے ہیں یہ اس کا منطقی نتیجہ ہے اور ان میں بڑی حکمت پائی جاتی ہے۔ اگر خاندانی نظام کی مضبوطی اور تحفظ کی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت ہے تو اس کا فطری تقاضا ہے کہ شادی ماں ، باپ سے ہونی چاہیے جو اولین سرپرست ہوتے ہیں۔ زاہر بات ہے کہ اگر یہ شادی ماں باپ کی اجازت اور رضا مندی سے ہوتی ہے تو ایک نئے وجود میں آنے والے گھر کو ماں ، باپ کی دعاؤں ، ساتھ ، محبت اور پیار کا سہارا ملے گا اور آئندہ زندگی میں اگر اس شادی شدہ جورے کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو پورا خاندان اس مشکل میں ان کے ساتھ ہوگا۔
بہرحال ہر معاملے میں کچھ استثناء ہوتے ہیں۔ اگر مرد اور عورت یہ سمجھتے ہیں کہ اس رشتے سے انکار کی ماں ، باپ کے پاس کوئی معقول وجہ نہیں اور وہ محض ضد کی وجہ سے یا اپنی حمیت کی وجہ سے ایسا کررہے ہیں تو ان کو یہ پورا حق ہے کہ وہ اس معاملے کو عدالت تک لے جائیں اور اب یہ عدالت کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ پورے معاملے کا اچھی طرح تجزیہ کرے اور صحیح نتیجے تک پہنچے۔ اگر وہ مرد اور عورت کے اس فیصلے سے مطمئن ہے تو وہ ان کو شادی کرنے کی اجازت دے سکتی ہے اور اس معاملے میں جیسے کہ اس حدیث سے واضح ہے "ریاست" کواس جوڑے کا ولی یا سرپرست تصور کیا جائے گا۔ اس کے برعکس اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ ماں ، باپ کا اس شادی سے انکار صحیح ہے تو وہ ہے اس شادی کو رکوا سکتی ہے البتہ اگر عدالت اس شادی کو منظور کرتی ہے تو کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس شادی محض اس وجہ سے قبول نہ کرے کیونکہ یہ شادی ماں ، باپ یا ولی کی مرضی سے نہیں ہوئی۔ یہاں ہم نے اس بارے میں اسلام کا نقطہء نظر دلائل کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔واللہ اعلم بالصواب۔
شہزاد سليم
ترجمہ (كوكب شہزاد)
|