بعض لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ لڑکوں کی طرح لڑکیوں کا بھی ضرور ختنہ ہونا چاہیے وہ اپنی رائے کی بنیاد اس حدیث پر رکھتے ہیں
حدثني يحيى عن مالك عن بن شهاب عن سعيد بن المسيب أن عمر بن الخطاب وعثمان بن عفان وعائشة زوج النبي كانوا يقولون إذا مس الختان الختان فقد وجب الغسل (مؤطّا رقم: 102 )
حضرت عمر بن خطاب ، حضرت عثمان غنی اور حضرت عائشہ زوجہ رسول کہا کرتے تھے کہ جب ختنے سے ختنہ ملے تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔
اس غلط فہمی کی وجہ اس حدیث کا صحیح ترجمہ نہ ہونا ہے، اگر زبان کے اصولوں کو سامنے رکھا جائے تو عربی لفظ "ختن" کا اردو ترجمہ ختنے والي جگہ کیا گیا ہے جب کہ "ختن" کے معنی مرد اور عورت کے جنسی اعضا ہیں، عربی زبان کا ایک اسلوب ہے جسے مجانست کا اسلوب کہا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی جیسے دو الفاظ کا استعمال ہوتا ہے لیکن دوسرا لفظ اپنے اصل معنی کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ اپنے سے پہلے والے لفظ کے اسلوب کیں بیان ہو رہا ہوتا ہے اس کی مثال قرآن مجید کی یہ آیت ہے
وَجَزَاء سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا (40:42)
اور كسي برائي كا بدلہ اس كے برابر كے عمل سے ہے
اس آیت میں دوسرا "سيئتہ" اپنے اصل معنی میں نہیں بلکہ اسلوب ایک جیسا ہے ، ظاہر بات ہے کہ برائی کا بدلہ برائی نہیں ہے بلکہ یہ اس برائی کی سزا ہے جو برائی کا ارتکاب کرنے والے کو دی جارہی ہے ظاہر ہے کہ انصاف دینے کے اس عمل کو ہم برائی تو نہیں کہیں گے۔
شہزاد سليم
ترجمہ (كوكب شہزاد)
|