دیت کا مطلب ہے کہ قاتل مقتول (چاہے عورت ہو یا مرد) کے گھر والوں کو اپنے اس جرم کا تاوان یا جرمانہ ادا کرے گا۔ مقتول کے گھر والوں نے اسے قصاص یعنی جان کے بدلے جان کی سزامعاف کردی ہو۔ عموما یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر عورت کا قتل ہو تواس کی دیت مقتول مرد کے مقابلے میں آدھی ہوگی۔
اب ہم قرآن مجید کی اس آیت کو دیکھتے ہیں جس میں دیت کا قانون بیان ہوا ہے ، سورۃ البقرۃ میں ہے ۔
فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ (178:2)
"اور جسے اس کے بھائی کی طرف سے معاف کردیا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ معروف کی پیروی کرے اور دیت کی ادائیگی اچھے طریقے سے کرے۔
اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دیت سوسائٹی کے معروف کے مطابق ادا ہوگی، اور معروف کے معنی ہیں سوسائٹی کے رسم ورواج۔
حضورۖ کے زمانے میں سوسائٹی کا دستور تھا کہ عورت کی دیت مرد کے مقابلے میں آدھی لی جاتی تھی چنانچہ حضورۖ نے دیت کے معاملے میں قرآن کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے سوسائٹی کے معروف کو نافذ کیا۔
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ ہر سوسائٹی کا معروف دوسری سوسائٹی سے مختلف ہو سکتا ہے چنانچہ ہر سوسائٹی کو اپنے ہی معروف کی پیروی کرنی چاہیے اسلام ہمیں اس بات کا پابند نہیں کرتاکہ دیت کے معاملے میں ہم عورت اور مرد ، غلام اور آزاد ، یا مسلم اور غیر مسلم میں فرق کریں ، اسلام ہم سے یہی چاہتا ہے کہ ہم اپنی سوسائٹی کے دستور کی پیروی کریں۔ علماء حضرات حضور کے دور کی سوسائٹی کے دستور کو موجودہ دور میں نافذ کرنے پر بے جا اصرار کرتے ہیں، تب سے اب تک وقت کا پہیہ چودہ صدیاں دیکھ چکا ہے اور ان صدیوں میں بدلتے ہوئے زمانے نے بے شمار عروج وزوال دیکھے ہیں معاشرتی حالات اور ثقافتی روایات میں زبردست تبدیلی آچکی ہے چنانچہ قرآن کی اس ہدایت کے مطابق ہر سوسائٹی كو اپنے دستور کے مطابق دیت مقرر کر نا ہوگی۔ہمارے اپنے ملک میں دیت کے بارے میں کوئی قانون نہیں ہے لہذا ہماری حکومت اس بارے میں دوبارہ قانون بنا سکتی ہے۔
شہزاد سليم
ترجمہ (كوكب شہزاد)
|