Powered by UITechs
Get password? Username Password
 
مینو << واپس ہوم نیۓ مضامین سب سے زیادہ پڑھے جانے والے سب سے زیادہ ریٹ کیۓ جانے والے
چہرے کے بال اتارنے کی ممانعت
مصنف: Shehzad Saleem  پوسٹر: Kaukab Shehzad
ہٹس: 6991 ریٹنگ: 0 (0 ووٹ) تاثرات: 0 تادیخ اندراج:   6 مئ 2006 اس مضمون کو ریٹ کریں

مندرجہ ذیل حدیث کی وجہ سے یہ سمجھا جاتا ھے کہ عورت کو چہرے کے بالوں کی پلکنگ کی اجازت نہیں۔

حضرت عبداللہ ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ان عورتوں پر لعنت بھیجتا ھے جو جلد کو کھدوا کر اس میں رنگ بھرتی ہیں اور جو اپنی جلد کو کھدوا کر اس میں رنگ بھرواتی ہیں اور اللہ تعالی ان عورتوں پر بھی لعنت بھیجتا ہے جو اپنے چہرے اور بھوؤں کے بال اترواتی ھیں اور اپنے دانتوں کے درمیان مصنوعی خلا پیدا کرواتی ھیں تاکہ خوبصورت نظر آئیں حالانکہ یہ اللہ تعالی کی تخلیق میں تبدیلی پیدا کرنا ہے۔ یہ بات قبیلہ بنی اسد کی ایک عورت تک پہنچی اس کا نام ام یعقوب تھا ، وہ حضرت عبداللہ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ مجھے معلوم ہوا ھے کہ آپ نے فلاں فلاں قسم کی عورتوں پر ملامت کی ہے؟ حضرت عبداللہ کو جواب دیا کہ میں ان عورتوں پر ملامت کیوں نہ بھیجوں جن پر اللہ تعالی نے لعنت بھیجی ہے اور جن پر اللہ کی کتاب میں لعنت کی گئی ہے۔ ام یعقوب نے کہا کہ میں نے پورا قرآٓن مجیدپڑھا ہے لیکن اس میں میں نے کہیں وہ بات نہیں پڑھی جو آپ کہ رہے ہیں۔حضرت عبداللہ نے کہا کہ اگر تم قرآن مجید کو غور سے پرھو تو اس میں تمھیں یہ حکم ملے گا (وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا سورة الحشر:7) یعنی جو چیز رسول تمھیں دے وہ لے لو اور جس چيز سے منع کرے اسے چھوڑ دو۔ام یعقوب نے کہا "ہاں یہ آیت تو ہے"۔ حضرت عبداللہ نے کہا کہ بس اسی آیت میں اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے۔ ام یعقوب نے کہا کہ میں نے تمھاری بیوی کو دیکھا ھے وہ تو یہ سب کچھ کرتی ہے حضرت عبداللہ نے کہا کہ جاؤ اور دیکھو ، وہ گئیں لیکن انھوں نے اپنے بیان کے حق میں ان کی بیوی میں کوئی چیز نہیں دیکھی۔ اس پر حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ اگر میری بیوی یہ سب کچھ کرتی تو میں اس کو اپنی زوجیت میں نہ رکھتا۔ (بخاري ، نمبر 4604)

پہلی ضروری چیز یہ ہے کہ حدیث کو سمجھنے کے لیے اس کے سیاق وسباق اور پس منظر کو ضرور سامنے رکھنا چاہیے۔ اور اسی مضمون کی دوسری احادیث کو بھی سامنے رکھ کر اس کا تجزیہ کرنا چاہیے تاکہ صحیح صورت حال سامنے آسکے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ حدیث کو قرآن اور سنت کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ اسلام کے یہ دو بنیادی ماخذ ہیں۔ احادیث کو قرآن وسنت کے تناظر سے نکال کر نہیں سمجھا جاسکتا۔

مندرجہ بالا حدیث کو بھی جب ہم ان اصولوں کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کہ عرب خواتین بہت سے ایسے فیشن کرتی تھیں (جن میں سے کچھ کی طرف اس حدیث میں اشارہ کیا گیا ہے) جن سے ان فطری شکل وشباہت ہی بدل جاتی تھی اور ان کی شخصیت کا جھوٹا تاثر پیدا ہوتا تھا۔ حدیث کی تقریبا تمام کتابوں میں اس مضمون کی احادیث ملتی ہیں۔ زیر بحث حدیث میں اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کی ممانعت کا ذکر ہے اسی طرح کا مضمون قرآن مجید میں سورۃ الروم کی آیت 30 میں بھی ہوا ہے۔

فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ (30:30)
اس دين فطرت كي پيروي كرو جس پر اللہ تعالى نے لوگوں كو پيدا كيا۔ اللہ تعالى كي بنائي ہوئي فطرت كو تبديل كرنا جائز نہيں ہے

قرآن مجید کے بیان کردہ اسی اصول کے مطابق نبی نے بہت ساری چیزوں سے منع فرمایا ہے ، دوسرے لفظوں میں انسانوں کی جسمانی اور روحانی شکل اسی طرح بر قرار رہنی چاہیے جس طرخ اللہ تعالی نے اسے پیدا کیا ہے۔ اس اصول کی روشنی میں ہر وہ تبدیلی جو فطری ساخت کو بدل دے وہ ممنوع ہے۔ لیکن کسی شخص کے ذوق حسن جمال کی تسکین کرنے اور اپنی ساخت میں تبدیلی کرنے میں بہت فرق ہے۔ اپنی فطری ساخت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی خوبصورتی کو برقر ارکھنے یا مزید بہتر بنانے کی اجازت ہے۔

اس حدیث میں جس چیز سے منع کیا گیا ہے اسے "تنمس" کہتے ہیں جس کا مطلب ہے اپنی پیشانی پر اگے ہوئے بالوں کو ایک خاص طریقے مونڈھا جاتا تھا ، جس سے شکل عجیب وغریب ہوجاتی تھی اور دیکھنے میں کراہت محسوس ہوتی تھی اس چیز سے حضور نے منع فرمایا ۔

اس تجزے سے معلوم ہوا کہ نبی نے چہرے پر اگنے والے فالتوں بالوں کو صاف کرنے سے کبھی منع نہیں فرمایا ، یہ بال اکثر کسی نہ کسی بیماری کی وجہ سے نکلتے ہیں مثلا خواتین میں ہارمونز کی کمی بیشی کی وجہ سے نکلتے ہیں اور ان کو صاف کرنے میں کسی قسم کی کوئی قباحت نہیں۔

شہزاد سليم
ترجمہ (كوكب شہزاد)

 
Share |


Copyright Studying-Islam © 2003-7  | Privacy Policy  | Code of Conduct  | An Affiliate of Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top    





eXTReMe Tracker