مہر کچھ پیسے ہوتے ہیں جو شوہر کو شادی کے موقع پر دینے ہوتے ہیں یا وعدہ کرنا ہوتا ہے کہ میں بعد میں دے دوں گا، بے جا طور پر اس کا مطلب لوگوں نے یہ لیا ہے کہ یہ دراصل بیوی کو اپنانے کی قیمت ہوتی ہے حالانکہ مہر کی ادائیگی میں ایک بڑی گہری حقیقت کا اعتراف چھپا ہوتا ہے ، اسلام نے شوہر کو بیوی بچوں کی معاشی کفالت کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے یہ اسی کی ذمہ داری ہے کہ وہ کما کر لائے اور ان کی ضروریات کو پورا کرے اور مہر تو صرف ان ذمہ داریوں کے اعتراف کا ٹوکن ہوتا ہے۔ اور مہر کی اصل روح ہی یہی ہے کہ شوہر بیوی کو چھونے سے پہلے اسے ادا کرے۔ یہاں یہ واضح کر دینا بھی ضروری ہے کہ مہر کی کوئی مخصوص رقم اسلام نے مقرر نہیں کی بلکہ قرآن مجید کے مطابق یہ سوسائٹی کے مروجہ رسوم ورواج کے مطابق ادا کی جائے گا۔ قرآن مجید میں ہے‘۔
وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (25:4)
اور دستور كے مطابق ان كو ان كے مہر دو
جیسے کہ اوپر بتایا جا چکا ہے کہ مہر کی رقم جتنی جلدی ممکن ہو بیوی کو ادا کردینی چاہیے کیونکہ یہ شوہر کی اولین ذمہ داریوں کی ادائیگی کا علامتی اظہار ہے۔
شہزاد سليم
ترجمہ (كوكب شہزاد)
|