اسے مذہبی دنیا میں سفر کرتے ہوئے چالیس برس بیت چکے ہیں۔ اس دوران میں بہت سی مذہبی جماعتیں ، گروہ ، مسالک ، مکاتب فکر، رہبر رہنما ، صوفیا ، علما اور اشخاص اس کی راہ میں آئے۔ وہ سب کے پاس کچھ دیر کو ٹھہرا اور آگے چل دیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس کا آگے چلنا کسی تحقیق کے لیے نہ تھا اور نہ ہی وہ اس مشن پر نکلا تھا، یہ تو حالات کا دھارا تھا جو اسے بہائے لیے جا رہا تھا۔ آج وہ چالیس برس بعد پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ یہ محض اللہ کاخاص کرم تھا اور اسی کی حکمت تھی کہ اسے نہ چاہتے ہوئے بھی ان سب راہوں سے گزار دے تا کہ اسے روشنی اور تاریکی کا فرق اچھی طرح معلوم ہوجائے اور اس پر یہ واضح ہو جائے کہ کنوئیں اور دریا میں کیا فرق ہوتاہے ۔ اگر وہ کنواں دیکھتا ہی نہ ، تو دریاکی وسعت اور عظمت کا احساس اس میں کس طرح پیدا ہوتا؟ اگر وہ مسالک ، گروہوں اور جماعتوں کی تنگی اور نفرت نہ دیکھتا تو اس پر رسول اللہ کے دین کی فراخی اور محبت کس طرح واضح ہوتی ؟ تقابل سے رنگ نکھر آیا کر تے ہیں، اس حوالے سے وہ راستے کی سب جماعتوں، گروہوں ، مسالک اور اشخاص کو اپنا محسن سمجھتا ہے کہ جنہوں نے اسے تقابل کا خوبصورت موقع فراہم کیا۔
آج اسے یہ معلوم ہے اور اس پر وہ اللہ کا شکر گزارہے کہ محمدۖ کا دین محبت اورخیر خواہی کانام ہے ۔ سب سے محبت اور سب کی خیر خواہی ۔ محمدۖ کا دین دعوت کا نام ہے اور دعوت میں دروازے بند نہیں کیے جاتے بلکہ ہمیشہ کھلے رکھے جاتے ہیں ،نہ جانے کب، کون آجائے۔ محمدۖ نے دروازہ ہمیشہ کھلا رکھا۔ دروازہ کھلا تھا تو بالآخر اس میں سب چلے آئے ، وہ بھی جنہوں نے گالیاں دیں تھیں ، وہ بھی جنہوں نے کمر مبارک پر اونٹ کا اوجھ لاد دیا تھا، وہ بھی جنہوں نے طائف میں اتنے پتھر مارے تھے کہ خون پنڈلیوں سے بہ کر نعلین مبارک میں جم گیا تھا، وہ بھی جنہوں نے دندان شہید کیے تھے ، وہ بھی جنہوں نے پیارے چچا حمزہ کو شہید کیا تھا او روہ بھی جنہوں نے بیٹی زینب پر قاتلانہ وار کیا تھا اور اسی وار سے وہ اللہ کو پیاری ہو گئی تھیں۔ ابو جہل کا بیٹا عکرمہ بھی اسی در سے آیا اورجب لآیا تو محمدۖ نے کہا میرے ساتھیو ابو جہل کا بیٹا آرہا ہے اس کے سامنے اس کے باپ کو برا نہ کہنا اسے ناگوار گزرے گا۔ ہندہ بھی اسی در سے آئی اور ابو سفیان بھی اسی در سے آیا۔
آج وہ جانتا ہے کہ محمدۖ نے ایک گلشن بسایا تھا جس میں ہر رنگ کا پھول اور ہر خوشبو تھی ۔ اور اسی میں اس کا حقیقی حسن پنہاں تھا۔ اس میں کہیں صدیقی خوشبو مہک رہی تھی تو کہیں فاروقی ، کہیں عثمانی پھول کھلا تھا تو کہیں حیدری ، کہیں بلالی روشنی پھیلی ہوئی تھی تو کہیں سلمانی کہیں ابوذری نور تھا تو کہیں ذوالنورین یعنی نور علی نور۔ اسے اب بھٹے کی اینٹوں اور گلشن کا فرق اچھی طرح معلوم ہے ۔ بھٹہ خشت میں ہر اینٹ پر ایک ہی مارکہ لگایا جاتا ہے اور ہر اینٹ کا ایک ہی رنگ اور شکل ہوا کر تی ہے محمدۖ نے اینٹیں نہیں بنائیں پھول کھلائے تھے ۔ سب کے رنگ جدا سب کی خوشبو الگ مگر سب کا نصب العین ایک اور منزل ایک۔ یہ رسول ہی کا کمال ہوا کر تا ہے کہ وہ ان انسانوں کے ذہنوں کو بھی ایک کر دیتا ہے جن کے ذہنوں میں ویسے زمین و آسمان سے بھی زیادہ فاصلہ ہوتا ہے۔
اب وہ سمجھتا ہے کہ اختلاف رائے اور مخالفت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اختلاف رائے ایک مستحسن علامت ہے اور مخالفت ایک مکروہ عمل۔ انسانوں میں جب تک عقل موجود ہے اختلاف رائے تو موجود رہے گا۔ اختلاف رائے کو ختم کرنا یاد بانا اس کا حل نہیں بلکہ اختلاف رائے کی اجازت اور آزادی دینا (مگر آداب کے ساتھ) اس کا حل ہے ۔ ئوامت سے اختلاف رائے کو ختم کردو یہ ایک ایسا خواب ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا البتہ حل یہ ہے کہ امت کو اختلاف رائے کے آداب سکھا دیے جائیں۔ اور اختلاف کو برداشت کرنا سکھایا جائے کیونکہ اختلاف رائے تو محمد کے ساتھیوں میں بھی تھا اور آپ نے اسے برداشت کیا تھا۔ اب اسے یہ معلوم ہے کہ علما کی آرا سے دلیل کی بنا پراختلاف کیا جاسکتاہے ۔ یہ حق اب قیامت تک صرف محمدۖ کو حاصل ہے کہ ان کی ہر بات کو دل کی خوشی سے قبول کیا جائے اور اس سے اختلاف کا خیال بھی دل میں نہ لایاجائے ۔ غیر مشروط اطاعت خاتم النبیین پر ختم ہو گئی اب تو سب کی مشروط اطاعت ہوگی۔
اب وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ جنت اور دوزخ کا فیصلہ اللہ کا کام ہے ۔ کسی کے جنتی اور دوزخی ہونے کا فیصلہ کرنا گویا اللہ کے اختیار کو خود استعمال کرنا ہے جو بندہ ہونے کے ناطے بہت بڑی جسارت ہے ۔ جنت میں جانا کسی خاص نام سے وابستہ ہونے کا نام نہیں بلکہ خاص صفات سے وابستہ ہونے کا نام ہے۔ اور یہ صفات کسی بھی گروہ ، جماعت یا مسلک کے کسی بھی فرد میں ہو سکتی ہیں۔ کیا اس کا نام اسے جنت میں جانے سے روک دے گا؟ ہرگز نہیں۔ فیصلہ تو صفات ، اعمال اور تقوے پر ہونا ہے۔ ڈھٹائی ، تعصب کی بنا پر غلط عمل اور بات ہے اور تاویل کی غلطی یا غلط فہمی کی بنا پر غلط عمل اور بات ہے ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اللہ کے ہاں جماعتوں اور مسالک کی بنا پر حساب نہیں ہونا بلکہ انفرادی حساب دینا ہے اور انفرادی طو ر پر اللہ کسی کے بھی عذر کو قبول کرسکتا ہے۔ دیوبند ی ، بریلوی ، اہل حدیث ، شیعہ سنی ، تبلیغی جماعت ، جماعت اسلامی ، حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی، چشتی قادری، نقشبندی، سہروردی تو چھوٹی بات ہے وہ چاہے تو ہندو ، عیسائی اور یہودی کے عذر کو بھی قبول کر سکتا ہے۔
آج وہ اس بات سے آگاہ ہے کہ رسولۖ کے بعد غلطی کا صدور کسی سے بھی ممکن ہے اپنے آپ کو حق پر سمجھنے کے باوجود وہ اس امکان کو تسلیم کرتا ہے کہ دوسرے بھی حق پر ہو سکتے ہیں اور دوسروں کو غلطی پر سمجھنے کے باوجود وہ اس امکان کو ذہن میں رکھتا ہے کہ وہ خود بھی غلطی پر ہو سکتا ہے۔ غلطی جب بھی واضح ہو جائے اسے تسلیم کر لینا چاہیے ۔ صرف پتھر تبدیل نہیں ہو اکرتے ۔ انسانوں کی آرا تو ترمیم ، تبدل ، تغیر اور بہتری کے راستے طے کرتی ہی رہتی ہیں۔
آج اس کا دل سب کے لیے محبت سے روشن ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ سب جماعتیں ، گروہ ، مسلک ، رہبر رہنما اپنے اندر ظاہر ی یا خفیہ نفرت کا جذبہ ضرور رکھتے ہیں۔ اس نے جان لیا ہے کہ نفرت تو ایک تیزاب کی مانند ہے تیزاب اگر دوسرے کو نقصان نہ پہنچائے تو کم از کم اس برتن کو تو ضرور نقصان پہنچاتا ہے جس میں وہ ہوتا ہے۔ وہ نفرتیں پال کے اپنے دل کے برتن کونقصان کیوں پہنچائے ؟ دوسرے انسانوں سے اگر ہم مسلک ، ہم مشرب ، ہم مذہب ہونے کا رشتہ نہیں تو کم از کم ایک رشتہ تو سب سے باقی ہے اور باقی رہے گا کہ ہم سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔ یعنی آدم و حوا ۔ تو پھر بھائی بہنوں سے نفرت کیوں کی جائے ؟ ہاں البتہ اس کی یہ خواہش ضرور ہے کہ اسلام کی وسعت اور روشنی سب کو حاصل ہو جائے مگر اس کے لیے نفرت ، بحث ، جدال اورمناظرے کی ضرورت نہیں محبت اور درد دل کی ضرورت ہے ۔ نفرت، نفرت کو جنم دے گی اور محبت، محبت کو ۔ یہ ہوتا نہیں کہ نفرت کے بطن سے محبت کا جنم ہو اور محبت کے بطن سے نفرت کا۔ اللہ کی عبادت، رسولۖ کی اطاعت اور مخلوق کی خدمت میں اگر محبت و خلوص شامل نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ اس نے برسوں کے سفر میں یہ سیکھ لیا ہے کہ محبت کے شراروں کوگلابوں میں بدلنا ہی اصل کام ہے اور یہی دین کا پیغا م ہے ۔ اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ کتنے شرارے بدلے غرض اس سے ہے کہ اس کے لیے حسب استطاعت کتنی کوشش کی کہ مالک کے ہاں کوشش کا سوال ہو گا نتائج کا نہیں۔
برسوں کی مسافت طے کرتے ہوئے مسافر کو بعض اوقات یہ محسوس ہوت اتھا کہ کہیں یہ سفر بے کار ہی نہ جائے مگر اب برسوں بعد وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کاسفر رائیگاں نہیں گیا کہ جو روشنی اوراطمینا ن قلب اسے حاصل ہواہے اس کے لیے یہ سارے برس کچھ زیادہ نہ تھے۔
|