آج اپنی جن عورتوں کو آپ مسجدوں سے ، کمیٹیوں سے ، نیکی کے راستوں سے پیچھے پیچھے رکھتے ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی بلا سے اُس کا قیمتی وقت محض شاپنگ سینٹروں میں صرف ہو جائے یا باورچی خانے میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ شاید اسی میں اس کی "صلاح" ہے۔ یاد رکھیے کہ اس کے ساتھ آپ اپنے معصوم جگر گوشوں کو بھی پیچھے دکھیل رہے ہیں۔ وہ "ماں" ہو کر بھی اپنا وقت بازاروں ، سینما گھروں میں یا ٹی وی کے ساتھ گزارتی ہیں کیونکہ آپ نے اُن کو دوسرے میدانوں میں آگے لانے کی زحمت گوارہ نہیں کی ہے ، تو آپ کے دل کے ٹکڑے اور آنکھ کے تارے بھی ویسے ہی جوان ہوں گے۔ لہذا کل جب آپ کے نوجوان کلب اور پبز کی رنگینیوں میں ڈوپ جائیں اور آپ کی جوان بیٹیاں بھی بازاروں ، کلب اور پبز اور دوسری سرگرمیوں سے آشنا ہوجائیں تو پھر آپ دل تھامے اپنی اس بوڑھی بیگم کے پاس مت جائیے گا کیونکہ اس وقت وہ آپ کی غلطیوں کی وجہ سے ایک طرف تو خود بڑھاپے کی کمزوریوں سے گزر رہی ہوتی ہے اور دوسری طرف بھٹکی ہوئی جوان اولاد بھی اس کا ساتھ دینے سے قاصر ہوتی ہے۔
آپ کے پاس آج وقت ہے کہ عورت کی نیکی کی صلاحیتوں کو دیکھیں ، تلاش کریں ، اس کو ابھاریں اور مسجد میں اور مسجدکی کمیٹیوں میں آگے آگے اپنے ساتھ اسے بھی جگہ دیں ، تاکہ آپ کے بچے بھی آپ کے ساتھ وہاں آئیں۔ ان کے معصوم دل و دماغ دوسری تہذیبوں میں پلنے کی بجائے مسجد کے پاکیزہ ماحول میں اور درس و تدریس کی محفل میں جوان ہوں۔ بے حیائی پر مبنی فلموں اور گانوں کی بجائے قرآن و حدیث کے شیریں اور پاکیزہ کلمات سنیں اور دوسری تہذیوں کے فلموں اور آرٹ کے ہیرو اور ہیروئنوں کے قصے اور کہانیوں کی بجائے اپنی تہذیب اور دین کے عظیم لوگوں کے کارناموں سے ان کے دل و دماغ جگمگائیں۔
اگر ہمارے اندر ذرا بھی زندگی کی رمق باقی ہے تو پھر زندہ قومیں تو دوسروں سے عبرت حاصل کیا کرتی ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم بھی اس مقام پر آ کر کھڑے ہو جائیں جہاں آج مغرب ( اپنے نوجوانوں سے مایوس ہو کر ) پہنچ چکا ہے اور وہ ایسے مرحلے پر کھڑا ہے کہ اس کے اشک بھی خشک ہو چکے ہیں۔ اب وہ جانتا ہے کہ اس کو اپنا تمام نظامِ زندگی اور معاشرتی نظام اس طرح ہی بنانا ہے کہ ان کے نوجوان آزاد ہیں کہ زندگی کا جو فلسفہ یا طریقہ چاہیں اختیار کریں۔ ان کو نہ دین کا کوئی حسین فریم اپنے اندر سمیٹ سکتا ہے اور نہ خون و رحم کے رشتوں ہی کی بنیاد پر وہ ان سے حقوق کی بھیک مانگ سکتے ہیں۔ ان کے پاس اب اپنے لیے Day Care Centers ، Nursery Homes اور Old Houses بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ (یہ میں اکثریت کی بات کر رہی ہوں )
نشے اور جنسی آزادی کے ساتھ آنے والا تباہی کا سیلاب بھی ہر گلی محلے میں پہنچ چکا ہے۔ Knife Culture ، Teenage Pregnancy ، Teenage Murder جیسے بھیانک نتائج اب خواب نہیں بلکہ خوف ناک حقیقتوں کی طرح منہ کھولے کھڑے ہیں۔
ان سنگین نتائج سے بچانے کے لیے ہمارا اپنی بچیوں اور خواتین کے لیے بر وقت ، مناسب اور مسلسل تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا ناگزیر ہے۔
|