رات کی تاریکی میں مدینے کی ایک گلی میں دو دوست باتیں کرتے ہوئے جا رہے تھے۔ ایک نے دوسرے سے کہا، عمر رضي اللہ عنہ نے خالد رضي اللہ عنہ کو معزول کر کے اچھا نہیں کیا۔ دوسرے نے کہا، ہاں، میرا بھی یہی خیال ہے۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ ان کے پیچھے عمر رضي اللہ عنہ بھی آرہے ہیں اور انہوں نے ان دونوں کی باتیں سن لی ہیں۔ حضرت عمر رضي اللہ عنہ نے اپنی آواز بدل کر کہا، تو پھر آپ کے خیال میں اب عمر رضي اللہ عنہ سے کیا سلوک کرنا چاہیے؟ دونوں نے بلا کسی توقف کے کہا، عمر رضي اللہ عنہ سے کیا سلوک کرنا؟ کیا مطلب؟ وہ امیر المومنین ہیں، بات تو ہم انہی کی مانیں گے، یہ تو ہماری ذاتی رائے ہے۔ اس پر عمررضي اللہ عنہ آگے بڑھے، اپنا تعارف کروایا اور ان سے کہا کہ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ جس نے تم لوگوں جیسے ساتھی عطا کیے۔ عمر رضي اللہ عنہ نے کہا جب تک تم جیسے لوگ موجود ہيں، مسلمان شکست نہیں کھا سکتے۔
سیدنا عمر رضي اللہ عنہ نے حضرت خالد رضي اللہ عنہ بن ولید کو فوج کی سپہ سالاری سے عین اس وقت معزول کر دیا تھا جب کہ ان کی شہرت بام عروج پر تھی اور وہ ہر معرکے میں کامیابی پہ کامیابی حاصل کیے جا رہے تھے۔ عوام میں یہ خیال جڑ پکڑ رہا تھا کہ کامیابی خالد کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے۔ اس خیال کے رد اور اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کہ کامیابی صرف اللہ کی مدد سے حاصل ہوتی ہے، عمر رضي اللہ عنہ نے خالد رضي اللہ عنہ کو معزول کر دیا۔ عمر رضي اللہ عنہ کے اس اقدام پر عوام میں اختلاف رائے پایا گیا جس کے اظہار کی ایک صورت وہ گفتگو تھی جو اوپر نقل ہوئی۔ سیدنا عمر رضي اللہ عنہ نے اس اختلاف رائے کی نہ صرف تحسین فرمائی بلکہ اللہ کا شکر بھی ادا کیا کیونکہ یہ اختلاف رائے کی وہ مثبت اور صحت مندصورت تھی جو معاشرے کو صحیح راہ پر گامزن رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔
کسی نظام یا سسٹم سے وابستہ رہتے ہوئے اس سے اختلاف رکھنا، یا اختلاف رکھتے ہوئے بھی اس سے وابستہ رہنا اور اس کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہنا، ایک ایسی خوبصورت روایت ہے جو اسلامی معاشرے کا لازمی جزو رہی ہے۔ کسی بھی سسٹم سے اختلاف کی اجازت نہ دینا اصل میں اس کو الہامی ثابت کرنا ہے۔ یہ عمل جلد یا بدیر خود سسٹم کی تباہی کا باعث بن جاتا ہے۔ جس معاشرے یا ادارے میں یہ بات رواج پا جائے وہاں کے افراد میں بدترین قسم کی منافقت جنم لیتی ہے جو غیبت، چغلی سے ہوتی ہوئی حسد، کینے اور بغض تک جا پہنچتی ہے اور بالآخر سازشوں کو جنم دیتی ہے، جس سے نہ صرف ان افراد کا نقصان ہوتا ہے بلکہ ادارے اور معاشرے بھی رو بہ زوال ہوجاتے ہیں۔ یہی وہ نقصان تھا جس سے اپنے معاشرے اور افراد کو بچانے کے لیے اسلامی معاشرے کے بانی اور قائد سید ِدو عالم محمدِ عربی صلي اللہ عليہ وسلم نے نہ صرف اختلاف رائے کی اجازت دی بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی فرمائی۔ حضور صلي اللہ عليہ وسلم نے ایک جماعت کو ایک مہم پر اس ہدایت کے ساتھ روانہ فرمایا کہ عصر کی نماز نہیں پڑھنی جب تک کہ تم فلاں مقام پر نہ پہنچ جاؤ۔ وہاں پہنچنے میں دیر ہوئی اور راستے ہی میں عصر کا وقت ہوگیا۔ اس موقع پر صحابہ کی اس جماعت میں اختلاف ہوا۔ ایک گروپ نے کہا کہ چونکہ عصر کی نماز کا وقت ہو گیا ہے اس لیے ہمیں یہیں نماز ادا کر لینی چاہیے۔ دوسرے گروپ نے کہا کہ حضور صلي اللہ عليہ وسلم نے کہا تھا کہ عصر کی نماز نہیں پڑھنی اس لیے ہم تو نہیں پڑھیں گے۔ اور وہاں جا کر پڑھیں گے چاہے قضا ہی کیوں نہ ہو جائے۔ پہلے گروپ نے کہا کہ اصل میں حضور کی ہدایت کا مطلب یہ تھا کہ تم کوشش کر کے عصر تک وہاں پہنچ جاؤ۔ اب چونکہ ہم لیٹ ہوگئے ہیں اس لیے ہمیں یہیں نماز ادا کر لینی چاہیے۔ لیکن دوسرا گروپ نہ مانا۔ اس لیے جن کی رائے نماز ادا کر لینے کی ہوئی، انہوں نے وہاں نماز ادا کر لی جبکہ باقی صحابہ نے وہاں جاکر قضا ادا کی۔ واپسی پر جب اختلاف رائے کا یہ معاملہ حضور کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے دونوں کی تصویب فرمائی۔ معلوم ہوا کہ اخلاص کے ساتھ کسی حکم کا منشا سمجھنے میں بھی اختلاف ہو سکتا ہے اور اس کی ادائیگی کے طریق کار میں بھی۔ لوگ اگر سسٹم کے ساتھ مخلص ہیں تو ان کی عقل پر پہرے بٹھانے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہی نبوی طریقہ ہے۔
جس معاشرے میں عقل پر پہرے بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے وہاں تعمیر کے بجائے تخریب جنم لیتی ہے کیونکہ عقل ایسی چیز ہے کہ جس کو پابند سلاسل نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے بہرحال اپنا راستہ ڈھونڈنا ہوتا ہے اگر مثبت راستے بند کر دئیے جائیں گے تو پھر یہ منفی راہیں تلاش کر لے گی۔ اس لیے جو معاشرے یا ادارے ترقی کے خواہاں ہوتے ہیں وہ ہمیشہ اختلاف رائے کی نہ صرف قدر کرتے ہیں بلکہ اس کو پروان چڑھانے کی سعی بھی کر تے رہتے ہیں۔
اسلامی معاشرے میں اللہ کے بعد صرف پیغمبر کی ذات ایسی ہوتی ہے جس کی غیر مشروط اطاعت کی جاتی ہے۔ پیغمبر کے حکم کے منشا کے سمجھنے میں تو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس کے حکم کی اطاعت میں کسی اختلاف کی گنجایش نہیں ہوتی۔ عزت، اطاعت اور محبت کے حوالے سے پیغمبر کی ذات مسلم معاشرے میں ایک ایسا منفرد مقام رکھتی ہے کہ جس کا تقابل کسی بھی لیڈر سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس عالی مقام اور سٹیٹس کے باوجود پیغمبرصلي اللہ عليہ وسلم نے نہ صرف لوگوں سے رائے طلب کی بلکہ بعض مواقع پر اپنی رائے کے برخلاف ان کی رائے پر عمل بھی کیا اور بعض تہذیبی اور نجی معاملات میں لوگوں کو یہ آزادی بھی دی کہ وہ چاہیں تو پیغمبر کے مشورے پر عمل کریں اور چاہیں تو نہ۔ ایک صحابیہ نے درخواست کی کہ انہیں طلاق دلوا دی جائے جبکہ ان کے خاوند انہیں بے حد چاہتے تھے۔ اس بنا پر حضور صلي اللہ عليہ وسلم نے صحابیہ سے کہا کہ اگر تم طلاق نہ لو تو بہتر ہے۔ صحابیہ نے کہا کہ یہ آپ کا حکم ہے یا مشورہ ہے، آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ مشورہ ہے۔ چاہے تو عمل کرو اور چاہے تو نہ۔ اس پر صحابیہ نے کہا کہ پھر مجھے اس پر عمل سے معذور سمجھیے۔ چنانچہ حضور نے طلاق دلوا دی اور اسی طرح کا معاملہ آپ نے تابیر نخل کے معاملے میں کیا اور لوگوں سے کہا کہ تم لوگ کھیتی کے معاملات بہتر سمجھتے ہو۔ تم چاہو تو اپنی رائے کے مطابق کرتے رہو۔ یہی وجہ تھی کہ اسلامی معاشرے میں یہ بات کبھی مسئلہ نہیں بنی تھی کہ حدود اور آداب کی رعایت کرتے ہوئے اولاد، والدین سے اختلاف کر سکتی ہے یادلیل کی بنیاد پر شاگرد استاد سے اختلاف کر سکتا ہے یا مرید پیر سے اور رعایا حاکم سے اختلاف کر سکتی ہے۔ ہماری تاریخ میں اس بات پر تو تنقید یا بحث مل جاتی ہے کہ اختلاف کرتے ہوئے آداب کا خیال نہیں رکھا گیا یا حفظ مراتب کو نظر انداز کر دیا گیا لیکن یہ کبھی نہیں کہا گیا کہ اختلاف رائے کیوں کیا گیا۔ اسلامی تہذیب میں جس طرح حفظ مراتب کو ایک بنیادی قدر کی حیثیت حاصل ہے اسی طرح اختلاف رائے اور اظہار رائے کی آزادی کو بھی اہم قدر کی حیثیت حاصل رہی ہے۔
یہ سوال کہ اختلاف رائے کیوں کیا گیا، مسلمان معاشروں میں بہت بعد کی پیداوار ہے اس کا نہ اللہ اور رسول کے حکم سے کوئی تعلق ہے اور نہ اہل علم کی روایات سے۔ ہمارے تمام جلیل القدر علما پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں رہی ہے کہ غیر مشروط سمع و طاعت کا حق صرف پیغمبر کی ذاتِ عالی کے لیے خاص ہے۔ اور ختم نبوت کی وجہ سے اب یہ حق قیامت تک کسی اور کے لیے خاص نہیں ہو سکتا۔ اور اگر کوئی ایسی کوشش کی جائے گی تو یہ اصل میں ''چھوٹے چھوٹے پیغمبر'' بنانے کی کوشش ہوگی۔ بدقسمتی سے اہل علم کا یہ رویہ ان کے پیروکاروں کی نظروں سے اوجھل ہوگیا اور انہوں نے انہی اہل علم کی آرا کو اتنا مقدس بنا لیا کہ ان سے اختلاف کی گنجایش کو حق و باطل کی جنگ بنا ڈالا۔ اسی رویے نے اسلامی تہذیب اور معاشرے میں نہ صرف جمود اور اندھی تقلید کو جنم دیا بلکہ انسانوں کو عقل کل اور دیوتا بنانے کی رسمِ قبیح کو بھی پروان چڑھایا۔ اور اب صورتِ حالات یہ ہوگئی ہے کہ مسلم معاشروں میں جگہ جگہ قائم مذہبی، سیاسی، معاشی، علمی اور عملی دیوتاؤں کو اپنا مفاد اسی میں نظر آتا ہے کہ اختلاف رائے کو ادب، محبت اور عشق کے نام پر غیر اسلامی باور کرایا جائے تا کہ ان کی 'دیوتائی' بھی قائم رہے اور ''گلشن'' کا کاروبار بھی چلتا رہے۔ ان حالات میں ہر وہ مسلمان جو اللہ کی رضا کا طالب، آخرت کی کامیابی اور مسلم معاشروں اور اداروں کی ترقی کا خواہاں ہو، اس پر لازم ہے کہ وہ جہاں بھی ہو بساط بھر اس بات کو عام کرے کہ آداب کی رعایت کرتے ہوئے، اختلاف رائے اسلامی تہذیب کے ماتھے کا جھومر ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم کی تعلیم کے عین مطابق۔ مگر خیال رہے کہ اس پیغام اور اس بات کو عام کرنے میں شایستگی اور تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے ورنہ ہم میں اور ان 'دیوتاؤں' میں کیا فرق رہ جائے گا۔۔۔!
(سوے حرم نومبر 2009 http://www.suayharam.org )
|