تخلیق میں عروج
پر جسکا غرور تھا۔ |
وہ نکتہ آدمی
میں فقط عقل و شعور تھا۔ |
عقل و شعور
نعمت چنداں ھزار ھو۔ |
دل اس پہ وہ
ملا کہ سدا بے قرار ھو۔ |
دل اسقدر مچلے
کہ نمٹنا محال ہے۔ |
خود آگہی کا اس
میں اٹھتا سوال ہے۔ |
خود آگہی کا
عقدہ کھلتا ہے نور سے۔ |
اور نور کا
ظہور تو ہے خدا کے حضور سے۔ |
خدا بھیجتا ہے
ہادی اپنی جناب سے۔ |
دیتے ہیں جو
ہدایت اسکی کتاب سے۔ |
ہدایت کے واسطے
رسول و نبی ھوے۔ |
جو اسکے بجز
ھوے وہ اسکے ولی ھوے۔ |
شاعر فلسفہ دان
بھی پھیلے جہان میں۔ |
خود آگہی کی
کشتی کو کھینچا طوفان میں۔ |
خود آگہی میں
ان کا یہ نکتہ تھا اولیں۔ |
غافل یہ سوچ
کیوں ھوا تو اسفل سافلیں |
تخلیق جس تقویم
پر تیری تھی وہ احسن۔ |
اپنی خودی بھلا
کے تو زیاں کار تو نہ بن۔ |
ان ہادیوں میں
کچھ ولی لازوال تہے۔ |
سب سے بلند
درجے پہ محمد اقبال تہے۔ |
اقبال کا پیغام
اقبال خودی کا تھا۔ |
خو آگہی سے آگے
کمال خودی کا تھا۔ |
ہیں بر سر
پیکار خودی کے جمود پر۔ |
کہتے ہیں خاص و
عام کو خودی کی نمود کر۔ |
یہ دیکھ لیں
اقبال کی خودی کے جمال کیا ہیں۔ |
قبل اسکے جانتے
ہیں کہ خود اقبال کیا ہیں۔ |
خود ان ہی سے
جو پوچھا کہ حضرت ہیں آپ کیا۔ |
کہنے لگے
’اقبال نہیں اقبال سے اگاہ‘۔ |
اقبال کائنات
میں اک ایسا وجود ہے۔ |
جس کی تجلیات
کی ہمہ سو نمود ہے۔ |
جس قوم کا
اقبال نے بدلا نصیب ہے۔ |
وہی اسکو گر نا
سجہے تو بہت بد نصیب ہے۔ |
دانش ور و مفکر
و فلسفہ دان تہے۔ |
کلام بیان ان
کے شرح القرآن تہے۔ |
وکلاء کے وہ
وکیل تہے عقلاء کے تہے عقیل۔ |
فصحاء کے وہ
فصیح تہے نہ تھی انکی کچھ مثیل۔ |
یہ مرتبہ ملا
تھا ان کو حضور سے۔ |
روشن ضمیر انکا
تھا محمد کے نور سے۔ |
دامن ہے انکا
خوبیوں سے لدا ھوا۔ |
اور قلب عشق
مصطفیٰ سے ہے بھرا ھوا۔ |
امت کی
راہنمائی کی اس کی میراث تک۔ |
پھر سب بیان کر
دیا الحمد سے ناس تک۔ |
سب سے بلند
مقام ھی امت کی ہے میراث۔ |
کنتم خیرا امت
اخرجت للناس۔ |
پھر سب سبب
بیاں کئے کھویا مقام کیوں۔ |
اخص الخواص قوم
بنی عام العوام کیوں۔ |
دل مردہ ھو گئے
اور خودی کو ھوا زوال۔ |
قرآں کو چھوڑ
کر پھر سنبھلنا ھوا محال۔ |
صدیاں گزر چلیں
اسی اضطراب میں۔ |
مردہ دلی و
زوال خودی کے عذاب میں۔ |
دل مردہ اور
خودی کو کر کے آباد پھر۔ |
ساقی نے فیض
عام کیا صدیوں کے بعد پھر۔ |
اسی فیض کی
بدولت خودی سے ھوئی آگاہ۔ |
امت کو زندہ
کر گئی اقبال کی نگاہ۔ |
اقبال نے خودی
کو جو ہم پہ کیا عیاں۔ |
اسکا بھی حال
آپکی خدمت میں ھو بیاں۔ |
بلندی میں ہے
افلاک اور وسعت میں ہے زمین۔ |
یہ پیکر خاکی
میں ہے پر پیکر خاکی نہیں۔ |
جیتی بھی ہے
اور پرورش سے ھوتی ہے جواں بھی۔ |
تربیت سے کرتی
ہے جواہر کو عیاں بھی۔ |
روشن و تاریک و
خوابیدہ و بے دار۔ |
فراز و نشیب
میں کبھی ھوتی ہے نمودار۔ |
محکم ھو علم و
عشق سے تو آتش ہمہ سوز۔ |
بیگانہ اس سے
ہوں اگر تو پوشیدہ زمیں دوز۔ |
پوشیدہ خودی ہو
تو نہیں ممکن مسیحائی۔ |
تقدیر میں امت
کی فقط لکھتی ہے رسوائی۔ |
سر نہاں خودی
کا ہے لاالہ الا اللہ۔ |
جلوت و خلوت
میں ہیں مصطفیٰ و کبریا۔ |
مرکز ہے کائنات
کا یہ ،مسکن ہے اسکا دل۔ |
عرش بریں سے
آگے کہیں اسکی ہے منزل۔ |
اسرار خودی میں
تین منازل سے بادشاہی۔ |
اطاعت و ضبط
نفس و نیابت الہی۔ |
نی چاہ1 نے
انہی تین منازل کو ہے مانا۔ |
افسوس خودی کو
مگر افسانہ ہے جانا
|
اور کانٹ2 بھی
دیتا ہے عقلی ھی دلالت۔ |
کہتا ہے نہیں
اس سے زیادہ حقیقیت۔ |
بریڈلی3
کے مگر سینے میں جو جلتا ہے چراغ۔ |
پاتا ہے خودی
کی وہ حقیقت کا سراغ |
لائیبنٹز4 سے
خودی کا اک تصور جو عیاں ہے۔ |
جامد ہے، و۔ہ
ثابت ہے، بے نشو و نما ہے۔ |
یہ سب ہوے
حقیقت و افسانہ کے محصور۔ |
تصور اقبال تھا
ان سب سے کجا دور۔ |
وجود
و عدم کے جھگڑے سے کیسے خروج ہو۔ |
پیش نظر ہے
کیونکر اسکا عروج ھو۔ |
عروج خودی کا
مقصد حیات جاوداں ہے۔ |
یہی ہے لاالہ
اور یہی سر نہاں ہے۔ |
خودی کیا ہے
اور خودی کی منزلیں ھیں کیا۔ |
ہو اقبالی
بصیرت تو سب کچھ رضائے مصطفیٰ |
اگر بندہ یہ پا
جائے رضائے مصطفیٰ کیا ہے۔ |
’خدا بندے سے
خود پوچہے بتا تیری رضا کیا ہے‘۔ |