Powered by UITechs
Get password? Username Password
 
مینو << واپس ہوم نیۓ مضامین سب سے زیادہ پڑھے جانے والے سب سے زیادہ ریٹ کیۓ جانے والے
ضبطِ نفس اور نوجوان نسل.
مصنف: Javed Ahmad Ghamidi / Amjad Mustafa  پوسٹر: admin
ہٹس: 4750 ریٹنگ: 0 (0 ووٹ) تاثرات: 0 تادیخ اندراج:   7 نومبر 2010 اس مضمون کو ریٹ کریں

New Page 11

سوال :    ہمار ی جو نوجوان نسل ہے وہ یہ کہتی ہے کہ اپنے اوپر ضبطِ نفس (Self Control) جو ہے وہ بڑی مُشکل چیز ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اِنسان اگر اپنے جذبات اور اپنے Sentiments کو  ،  جو کہ منفی پہلو اُن کے اندر ہوتا ہے  ،  اُنہیں اگر دبا کر رکھیں تو اُن کی شخصیت کے اوپر ان کا تھوڑا سا منفی ا ثر ہوتا ہے. کِس طرح جو اُن کا اثر ہے اُسے ختم کیا جا سکتا ہے ؟ اور وہ جو کہتے ہیں  ،  مطلب  ، آج کل کی نوجوان نسل عام طور پر یہ بات کہتی ہے کہ ضبطِ نفس جو ہے وہ بڑی Impractical سی چیز ہے.

 

غامدی صاحب : جِس چیز کو آپ ضبطِ نفس یا Self Control کہتے ہیں ،  وہی تو اِنسانیت کا شرف ہے. اِنسان اصل میں کیا چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اُس کو عقل کی نعمت سے نوازا ہے . وہ جب یہ دیکھتا ہے کہ خیر و شر کی کشمکش ہے  ،  شر کی طرف میلان پیدا ہو رہا ہے تو وہ اپنے آپ کو کنٹرول کرتا ہے. اِنسانیت کا اصل اِمتیاز یہی ہے  ،  اگر اِنسان ضبطِ نفس سے کام نہیں لیتا تو پھر اس میں اور کسی جانور میں کوئی فرق نہیں ہے. مہمان کا اِستقبال کرتے ہوئے  ،  لوگوں کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش کرتے ہوئے  ،  اِخلاقی حدود کی پابندی کرتے ہوئے  ،  آدمی کِس چیز سے کام لیتا ہے؟ اگر یہ بات مان لی جائے کہ ضبطِ نفس اِنسان کو نہیں کرنا تو ذرا اِس بات کو بڑھا کر دیکھیے کہ نوبت کہاں پہنچے گی. جِس کے پاس طاقت ہے اُس کے اندر سے اگر یہ قوّت اُٹھتی ہے کہ وہ دوسروں کے حقوق غصب کر لے  ،  تو کر لے گا. جِس قوم کو اللہ تعالیٰ نے بہت قوّت اور شان و شوکت دی ہے وہ دوسروں کو پامال کر ڈالے گی. جِس آدمی کو جسمانی لحاظ سے مضبوط بنایا ہے تو وہ ہو سکتا ہے کہ کسی کمزور کو سڑک ہی پر نہ چلنے دے. اصل میں ضبطِ نفس کا لفظ چند خاص چیزوں کے بارے میں چونکہ لوگ اِستعمال کرتے ہیں تو اُن کا خیال ہوتا ہے کہ وہاں چھُٹی دے دی جائے اُنہیں . جب کہ ضبطِ نفس ہی تواصل میں اِنسانیت کاشرف ہے. بُرائی صرف چند جنسی میلانات ہی سے متعلق نہیں ہوتی. بُرائی تو ملاوٹ بھی ہے  ،  بددیانتی بھی ہے  ،  خیانت بھی ہے  ،  مال کی طلب بھی ہے  ،  مال کی ہوّس بھی ہے  ،  اِس میں دوسروں کے حقوق تلف کرنے کے داعیات بھی ہیں. تو اِن ساری چیزوں میں اگر ضبطِ نفس کو اُٹھا لیا گیا تو رہ کیا جائے گا باقی. کُچھ بھی باقی نہیں رہ جائے گا. پھِر تو اِنسان جانوروں کا سا کام کرے گا. تو ضبطِ نفس ہی کی کوشِش کرنی چاہیئے . ضبطِ نفس میں آدمی اگر ایک توازن اور اعتدال کے ساتھ اپنی تربیت کرتا چلا جائے تو کچھ وقت کے بعد اُس پر کوئی منفی اثرات نہیں ہوتے . البتہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ بعض موقوں کے اوپر بعض ایسی پابندیاں لوگ لگا دیتے ہیں جو شریعت اور قانون میں بھی نہیں ہیں لیکن وہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ انسان کے کمال کو حاصل کرنے کے لیے وہ پابندیاں اُسے اختیار کرنی چاہیں. تو مذہبی لوگ اِس کا لحاظ کیے بغیرکہ نوجوانوں کو کہاں سے اُنہیں دعوت دینی ہے  ،  کِس جگہ سے اُنہیں شُروع کرانا ہے ،  آخری درجے کی باتیں بعض اوقات کر دیتے ہیں. تو اِس سے بعض اوقات خرابی پیدا ہوتی ہے. اگر نوجوانوں کو نوجوان سمجھ کر اِس چیز کا شعور دیا جائے کہ ضبطِ نفس ہی اِنسانیت کا کمال ہے  ،  اِسی سے اِنسان بڑا ہوتا ہے  ،  اِسی سے اِنسانیت اپنی معراج کو پُہنچتی ہے اور اِسی سے در حقیقت دُنیا میں خیر و صلاہ کے سارے داعیات پیدا ہوتے ہیں. ضبطِ نفس کو پھیلا کر سمجھیے  ،  یعنی ساری بُرائیوں کے داعیات میں ضبطِ نفس نہیں تو اور کیا چیز ہے؟ غُصہ آگیا آپ کو  ،  اور غُصے میں بے قابو ہو رہے ہیں  ،  تو وہ کونسی طاقت ہے جو آپ کو اُس موقع پر کہتی ہے کہ نہیںآپ حد سے نہ بڑھیں  ،  کونسی طاقت ہے ؟ آپ یہ دیکھیے نا ! کہ رسول اللہ ؐ کا بڑا مشہور واقع ہے کہ رستے میں چلتے ہوئے آپ ؐ نے دیکھا کہ غالباً ابو مسعود انصاری  ،  صحابی ؓ اپنے غلام کو مار رہے تھے تو آپ ؐ نے پیچھے سے کہا کہ ابو مسعود ؓ! جتنی طاقت تم کو اپنے غلام پر حاصل ہے ،  خُدا کو تم پر اُس سے زیادہ طاقت حاصل ہے. تو وہ نہ صرف یہ کہ رُک گے بلکہ اُن کی زبان سے فوراً یہ نکلا کہ میں نے اِس غلام کو آزاد کیا. اب ایک مظلوم کے اوپر جو کچھ ستم ہو رہا تھا اُس کی قدر و قیمت کیا ہے ؟ حضور ؐ نے کیا فرمایا ؟ آپ نے فرمایا کہ ابو مسعود ؓ اگر اُس وقت اُس کو آزاد نہ کرتے تو جہنم میں جاتے . تو اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ضبطِ نفس کِس قدرو قیمت کی چیز ہے. اُس وقت اُن کو غُصہ تو بہت آیا ہو گا  ،  بے قابو ہو رہے ہونگے نا ،  ظاہر ہے ! تو حضور ؐ کی آواز پر انہوں نے اپنے آپ کو کنٹرول کیا اور اِس درجے میں پلٹے. یہی عزّت  ،  یہی شرف  ،  یہی مقام ہے . تو جانور اور اِنسان میں بُنیادی فرق یہی ہے. ضبطِ نفس تو ہر حال میں ہونا چاہیے. البتہ ضبطِ نفس کی تربیّت نو جوانوں کو بڑی حکمت کے ساتھ دینی چاہیے اور بڑی تدریج کے ساتھ دینی چاہیے . اور اِس میں بھی یہ فرق ملحوظ رکھنا چاہیے کہ بڑی بڑی جو خرابیاں ہیں اُن کو پہلے موضوع بنانا چاہیے اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کو خود ............


 
Share |


Copyright Studying-Islam © 2003-7  | Privacy Policy  | Code of Conduct  | An Affiliate of Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top    





eXTReMe Tracker