ڈاکٹر محمد فاروق خان کا زخم ابھی بھرنے بھی نہیں پایا تھا کہ ایک دوسر ے زخم نے دل کی دنیا کو تہہ و بالا کردیا ہے۔صدمہ ایسا کہ کچھ لکھنے کا یارا ہے نہ قلم اٹھانے کا حوصلہ۔ خیالات نے دل و دماغ سے اور الفاظ نے خیالات سے بغاوت کررکھی ہے ۔مگراب ایمان کی تلوار سے ہر بغاوت کو کچل کر یہ لکھ رہا ہوں کہ راہِ عزیمت کے شاہسوار اور میدان دعوت کے مجاہد میرے عزیز دوست اور بھائی ڈاکٹر حبیب الرحمان تاجِ شہادت سر پر سجاکر دنیا سے رخصت ہوگئے۔
اگر آخرت کے عدلِ کامل پر یقین اور خدائے قدوس کی ذات پر ایمان نہ ہوتا تو میں شاید مرثیہ ہی لکھتا۔ مگر شہیدوں کا کیسا مرثیہ اور راہ حق کے مجاہدوں کا کیسا ماتم؟کیا ان کا ماتم کیا جائے جو اس وقت خدائے ذوالجلال کی میزبانی کا لطف اٹھارہے ہوں گے؟ کیا ان کا مرثیہ پڑھا جائے جو رب مہربان کی رحمتوں اورسایہ دار درختوں میں، بہتے دریا کی روانی اور جنت کی شادمانی میں، فرشتوں کے سلام اور فردوس بریں کے انعام میں ختم نہ ہونے والی زندگی شروع کرچکے ہیں؟ ایسے لوگ خود ہی پروردگار کی رحمتوں کے حقدار نہیں ہوتے بلکہ پیچھے رہ جانے والوں کے لیے بھی اس سراپا کرم ہستی سے جنت کی خوشخبری حاصل کررہے ہوتے ہیں۔
یہ خوشخبری اس بوڑھی ماں کے لیے بھی ہے جس نے ایسا قابلِ فخر سپوت جنم دیا اور اس کی بہترین تربیت کی کہ مرتے دم تک ان کا بیٹا بندوں کی خدمت اور رب کے دین کی نصرت کرتا رہا۔یہ خوشخبری اس با وفا اورپارسابیوی کے لیے بھی ہے جو ہرقدم پر اپنے شوہر کی مددگار رہی اور جس کے تعاون کے بغیر وہ اس راہ پر ایک قدم بھی نہیں چل سکتے تھے۔یہ خوشخبری اس معصوم بیٹی کے لیے بھی ہے جس نے باپ کی شہادت سے چند دن قبل کتاب اللہ کو اپنے دل میں مکمل محفوظ کرلیا ہے ۔یہ خوشخبری ان معصوم بچوں کے لیے بھی ہے جنہیں بہت چھوٹی عمرمیں یتیمی کا داغ دیکھنا پڑا ہے۔ یہ خوشخبری اس اکلوتے بھائی کے لیے بھی ہے جس کے تنہا وجود پر اپنے پورے کنبے کی ذمہ داری آپڑی ہے۔
حبیب الرحمن رب رحمن کی عنایتوں میں ابدی زندگی کا سفر شروع کر چکے ہیں۔ہمارے پاس تو اب ان کچھ یادیں ہی بچی ہیں۔مگر ان یادوں میں بڑا حوصلہ اور بڑی زندگی ہے۔ان کی سب سے بڑی یاد ان کے لہجے کی مٹھاس اور ان کی دلکش مسکراہٹ ہے ۔یہ مسکراہٹ ہر ملنے والے پر ان کا ایک یادگارنقش چھوڑ جاتی اور دوسروں کو ان کا گرویدہ بنادیتی تھی۔مگر ان کے قریبی ساتھی جس بنا پر ان کے گرویدہ تھے وہ ان کا جذبہ ایثار وقربانی اور دوسروں کے دکھ درد میں شریک رہنے کا رویہ تھا۔ کسی کا کوئی بھی مسئلہ ہو،انہیں صبح بلایا جائے یا رات میں، وہ ہر وقت حاضر تھے۔پیشہ ورانہ اور گھریلو ذمہ داریوں کا معاملہ ہو تو دوسری بات ہے ورنہ اپنے آرام ،سہولت اور آسانی کی بنا پر کبھی ان کے منہ سے انکار نہیں سناگیا۔وہ ہر مشکل اٹھاکر دوسروں کی مدد کو آتے تھے۔توحید سے ان کی بے پناہ محبت اور قرآن و حدیث سے گہرا لگاؤ تو ان کا ایسا وصف تھا جس کا ہر شخص گواہ تھا۔ قرآن کریم پڑھ کر لوگوں کو سناناان کا شوق تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث طیبہ سے مزین ان کا درس دلوں کے تار چھیڑدیتا تھا۔مقرر ایسے تھے کہ لوگ ان کے درس کے دوران میں اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رکھ پاتے تھے۔
ان علمی مصروفیات ، پیشہ ورانہ اور گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کی سب سے بڑی خصوصیت نصرت دین کے لیے ان کی عملی جدو جہد تھی۔مجھے تو پچھلے دوبرسوں میں اس کا بہت زیادہ تجربہ ہوا۔لوگوں کے نفوس میں پاکیزگی ، اللہ تعالیٰ کے ساتھ گہرے تعلق اور دین کے علم کی تعلیم و تدریس کی غرض سے قائم کی گئی تربیت گاہ کے بننے اور چلنے کا کوئی امکان ہی نہیں تھا اگر ڈاکٹر حبیب الرحمن نہ ہوتے۔ان کی بے پناہ محنت اور مشقت نے جنگل و بیابان کو ایک باغ کا رو پ دے دیا۔ جہاں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والے دن اور رات کے اوقات کے میں جاتے ، رہتے اور تمام شہری سہولیات سے استفادہ کرتے ہوئے اللہ رسول کی محبت اور اخلاق عالیہ کی تربیت سے اپنے نفوس کو معطر کرتے تھے۔
شہادت سے قبل کا پورا دن اور رات بھی انہوں نے گھر کے بجائے دین کے لیے وقف کررکھا تھا۔ رات بھر وہ اسی تربیت گاہ میں رہے۔ رات میں گفتگو میری ذمہ داری ہوتی تھی۔ ایک ساتھی نے منکرین حدیث کے موقف کا ذکر تو میں ایک ایک حدیث کو لے کر اس کا موقع محل سمجھانے لگا اور منکرین حدیث کے اعتراضات کا جواب دیتا رہا ۔ڈاکٹر صاحب برابر پلنگ پر لیٹے ہوئے میری تائید کرتے رہے۔ نماز فجر کے بعدگفتگو ان کی ذمہ داری تھی۔وہ قریبی رفقا کے ساتھ گھنٹہ دو گھنٹہ اصلاحی اور تربیتی موضات پر گفتگو کرتے رہے۔ یہ ان کا ہمیشہ کا معمول تھا۔ دن میں بھی وہ تدریسی ورکشاپ اور انتظامی میٹنگ میں شریک رہے۔میں اس آخری رات اور دن کے بیشتر وقت میں ان کے ساتھ رہا۔ اس آخری دن کی جو آخری جھلک میرے ذہن میں ہے وہ اس وقت کی ہے جب مجھے ملنے والے ایک اعزازکے بعد وہ میرے گلے لگے۔ و ہ جنت میں بھی مجھے ایسی ہی سرفرازی کی دعا دے رہے تھے۔اس لمحے ان کے چہرے پر ہمیشہ طاری رہنے والی مسکراہٹ کو میں نے خلاف عادت نظر بھر کے دیکھا۔تھوڑی دیر قبل وہ ڈاکٹر فاروق خاں صاحب کے ذکر پر کہہ چکے تھے کہ وہ اللہ کو بہت محبوب تھے اسی لیے اللہ نے ان کو بہت پہلے اپنے پاس بلالیا۔ شاید میرے لا شعور میں یہ بات تھی کہ سیرت اور نام میں ’’حبیب الرحمن‘‘ تو وہ خود بھی ہیں۔ چند ہی گھنٹے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندے کے الفاظ کو سچ کردکھایا۔وہ واقعی حبیب الرحمن ثابت ہوئے۔دو ظالموں نے ایک نہتے، بے گناہ طبیب کو جب وہ لوگوں میں شفا بانٹ رہا تھا،قتل کرڈالا۔قاتل فرار ہوگئے اور کسی کو معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کون تھے اور کیا چاہتے تھے۔اب قاتلوں کو چاہیے کہ وہ آسمان اور زمین سے بھی نکل بھاگیں یاپھر ایسے ہتھیار جمع کریں جن کے سہارے خدائے قہار سے لڑسکیں۔کیوں کہ قاتلوں کے بارے میں وہ اپنی آخری کتاب قرآ ن مجید میں فیصلہ سناچکے ہیں کہ جس کسی نے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر مارا اس کا بدلہ جہنم ہے۔ جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ اس کے لیے بہت بڑا عذاب ہے،(نسا93:4)۔ فلیضحکوا قلیلا ولیبکوا کثیرا۔*
رہے ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب تو ان کے بارے میں دنیا کو معلوم ہوچکا ہے کہ وہ واقعی حبیب الرحمن تھے۔اسی لیے رب رحمن نے اپنے بندے کے الفاظ کی لاج رکھی۔ وہ اللہ کو بہت محبوب تھے اسی لیے اللہ نے ان کو بہت پہلے اپنے پاس بلالیا۔ڈاکٹرحبیب الرحمن زندگی بھر ان کے دین اسلام کے مجاہد رہے اوراب شہادت کا تاج سجائے دربار رب میں ہمیشہ کے لیے مقربین کی صف میں شامل ہوچکے ہیں۔ہمارے پاس ان کے بارے میں کہنے کے لیے اس کے سوا کچھ نہیں:
محبوب کی محفل کو محبوب سجاتے ہیں
__________________________________________________________________
*(چاہیے کہ وہ بہت کم ہنسیں اور بہت زیادہ روئیں،توبہ82:9)
|