Author | Topic |
mehwish_ali
PAKISTAN
|
Topic initiated on Sunday, January 1, 2006 - 5:17 AM
سسر کے زنا بالجبر کرنے پر عورت کی شوہر سے علیحدگی
السلام علیکم
انڈیا میں ایک عورت کے ساتھ اُس کے سسر نے زنا بالجبر کیا ہے۔
اور اب گاؤں کی پنچایت کے مذھبی حکام نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ عورت اپنے شوہر کی ماں بن گئی ہے اس لیے اُن کو علیحدہ کر دیا جائے۔
یہ تو اُس عورت پر سراسر ظلم پر ظلم ہے۔
مہربانی فرما کر بتائیے کہ اس معاملے میں اسلام کا شرعی حکم کیا ہے۔ اگر قران و سنت سے دلائل فراہم کر سکیں تو اور بہتر رہے گا تا کہ لوگوں کو سمجھایا جا سکے اور وہ اس پیغام کو سمجھ سکیں۔
والسلام۔ |
|
askhalifa
UNITED ARAB EMIRATES
|
Posted - Wednesday, January 4, 2006 - 5:15 AM
یہ مسئلہ حنفی فقہ کا ہے۔ حنفی فقہ میں اگر کوئی شخص کسی عورت سے زنا کرتا ہے تو وہ عورت اس زانی شخص کی اولاد پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو جاتی ہے۔ اس کے لئے وہ یہ دلیل دیتے ہیں۔ دیکھیں سورہ النساء آیت بائیس22. ان کا کہنا ہے کہ اس آیت میں نکاح کا جو لفظ آیا ہے، اس سے مراد کسی بھی قسم کا جنسی تعلق ہے، چاہے جائز ہو یا نا جائز! ۔ بحر حال علماء دیوبند کی کافی تعداد اس تعبیر کو پسند نہیں کرتی، لیکن کچھ تو حنفی فقہ کی وجہ سے اور کچھ اختلاف سے بچنے کے لئے خاموش ہے۔ اصل میں انڈیا کی میڈیا مسلمانوں کے خاندانی معاملات کو بہت ہی غلط طریقے سے پیش کرتی ہے، اور اگر دو الگ الگ قسم کے فتوے ایک ہی مسئلے میں دئیے گئے تو میڈیا کے تو مزے ہی آجائینگے۔ گھنٹوں اس پر تبصرے ہونگے اور جب تک کوئی اگلا حادثہ نہ ہوگا یا جب تک اگلی بریکینگ نیوز نہیں آئے گی ٹی وی چینلس مسلما نوں کو عائلی قانون سے نجات دینے کے لئے غوروخوص کرتے رہینگے۔ اس لئے جو اس معاملے میں اختلاف رائے رکھتے ہیں وہ بھی مجبورا خاموش ہیں |
|
faridraseed
INDIA
|
Posted - Wednesday, January 4, 2006 - 3:00 PM
اھناف كے علاوھ اس ميں حنبلي فقھ ميں بھي يھي حكم ھے تفصيل كے ليے ديكھيے المفصل في احكام المرات د عبدالكريم زيدان سعوديھ |
|
mehwish_ali
PAKISTAN
|
Posted - Thursday, January 5, 2006 - 6:52 AM
شکریہ خلیفہ صاحب اور فرید صاحب۔
سورت النساء کی آیت سے صرف نکاح کے متعلق ہے۔ اور نکاح کی صورت میں بھی اگر عورت کو ہاتھ لگائے بغیر طلاق دے دی جائے تو وہ عورت آدمی کی اپنی اولاد پر حرام نہیں ہوتی۔
لہذا زنا کا معاملہ بھی اسی زمرے میں آنا چاہیے ورنہ کئی بے گناہ ایک غیر فرد کی گناہ کی سزا پائیں گے جو عدلِ الہی کے بالکل خلاف ہے۔
اور زنا بالجبر بالکل علیحدہ چیز ہے۔ فقہ حفنی میں ہی ہے کہ بچہ اُس کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا ہے اور زناکار کے لیے صرف پتھر ہے۔
اور اگر میں غلطی نہیں کر رہی تو یہ فقہ حنفیہ میں ہی ہے کہ آدمی نے زنا کیا اور لڑکی پیدا ہوئی، تو وہ لڑکی اُس آدمی کے بیٹی نہیں کہلائے گی اور اُس آدمی کا بیٹا اُس لڑکی سے شادی کر سکتا ہے۔
خلیفہ صاحب، جہاں تک اختلاف کی وجہ سے حق کو دبائے رکھنے کی بات ہے، تو یہ اس چیز سے زیادہ خطرناک ہے کہ اخبارات دو فتوؤں میں اختلاف کا ذکر کریں۔
موجودہ صورتحال میں نہ صرف یہ کہ اُس مجبور عورت پر بہت ظلم ہو رہا ہے، بلکہ دینِ اسلام خود مظلوم ہو گیا ہے اور سارے الزامات کا رخ فتاویٰ میں اختلاف ہونے کی بجائے خود اسلام کی طرف ہو گیا ہے۔
بہتر ہوتا کہ دارلعلوم دیوبند اجتہاد کا راستہ کھول دے، یا پھر کم از کم اختلاف کرنے کی اجازت دے۔ |
|
faridraseed
INDIA
|
Posted - Thursday, January 5, 2006 - 11:31 AM
سورۃ النساء کی ایت کا مطلب کہ وہ فقط نکاح کے متلعق ہے، یا اصل سبب نکاح کے بعد ہونے والی صحبت ؛ اسی میں اختلاف ہے، اگر نکاح کے متعلق ہی ہے جیسا کہ اپ کہ رہی ہیں تو اگے اپ کا یہ کہنا کہ " اور نکاح کی صورت میں بھی اگر عورت کو ہاتھ لگائے بغیر طلاق دے دی جائے تو وہ عورت آدمی کی اپنی اولاد پر حرام نہیں ہوتی " کیا معنی رکھتا ہے ؟ جب کہ ایت نے کہ دیا کہ جن سے تمہارے باپ نے نکاح کیا اس سے تم نکاح نہ کرو؟ فقہ حنفی کے بارے میں اپ ذکر کردہ مسئلہ " اور اگر میں غلطی نہیں کر رہی تو یہ فقہ حنفیہ میں ہی ہے کہ آدمی نے زنا کیا اور لڑکی پیدا ہوئی، تو وہ لڑکی اُس آدمی کے بیٹی نہیں کہلائے گی اور اُس آدمی کا بیٹا اُس لڑکی سے شادی کر سکتا ہے " غلط ہے۔ خیال رہے کہ دارالعلوم نے اپنی طرف سے کوءی بات نہیں لکھی، بلکہ صدیوں پہلے کے فقہاء کی لکھی ہوءی بات نقل کر دی ہے، اس مسئلہ میں صحابہ تک کا اختلاف ہے، میں ایک کتاب کا حوالہ دیاہے المفصل فی احکام المراۃ اسی طرح الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں اپ دیکھ لیں، ان کتابوں میں صحابہ تک کے نام ہے، کہ ان کا اس مسئلہ میں اختلاف تھا۔اب بتاءیے اجتہاد کون کرتاہے ؟ وہ جو دوسروں کی بات نقل کرکے بزرگوں کی تابعداری کرتاہے یا وہ جو اپنی عقل سے اگلوں کی بات رد کرکے اپنی مرضی کا حکم چاہتا ہے ؟ |
|
mehwish_ali
PAKISTAN
|
Posted - Friday, January 6, 2006 - 7:48 AM
محترم فرید صاحب، آپ کا شکریہ کہ آپ نے فتوی کی کاپی مجھے بذریعہ ای میل ارسال فرمائی۔
نیز آپ نے اپنے علمی کوائف ذکر فرمائے تھے اور پھر استفسار کیا تھا کہ میرے علمی کوائف کیا ہیں۔
محترم فرید صاحب، میرے علمی کوائف کسی مدرسے سے سند یافتہ نہیں ہیں، بلکہ کچھ ہیں ہی نہیں اور میں کچھ علم نہیں رکھتی ہوں۔ مگر ایک چیز جو اللہ تعالی نے مجھے عطا فرمائی ہے، وہ ہے عقل۔
یہ عقل ہی ہے جو کہ چیزوں کو پرکھنے کا میزان ہے۔ عقل ہے جو کم یا بیش نہیں ہوتی، مگر علم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
کسی بھی چیز کو انصاف پر پرکھنے کی کسوٹی عقل ہے۔ اسی لیے لاکھوں مسلمان، جو نہ عربی جانتے ہیں اور نہ ہی زیادہ علم رکھتے ہیں، انہوں نے بھی صرف عقل کی بنیاد پر دین اسلام کو قبول کیا ہے۔
لہذا ایسے مسلمانوں کو جاہل اور کم علم کہنا اُن کے عقلی فیصلے (یعنی مسلمان ہونے کا فیصلہ) کی توہین اور گالی دینے کے مترادف ہے۔
چنانچہ، میری طرف سے معذرت قبول فرمائیے کہ میں آپ سے ذاتی علمی کوائف پر گفتگو کروں گی اور نہ ہی آپ کی اس رائے سے متفق ہوں۔
/////////////
دوسری بات یہ کہ کسی بھی اختلافی فیصلہ کے متعلق اللہ تعالی نے فرماتا ہے کہ دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو۔ کیا اللہ نے کبھی کسی اختلافی مسائل کے متعلق فرمایا ہے کہ دوسروں کو کم علم ثابت کر کے فیصلہ اپنے حق میں صادر کر لو؟
ابھی تک اس مسئلے میں میں نے جو دلیل دیکھی ہے، وہ سوائے سورہ نساء کی قرانی آیت 23 اور 24 کے سوا کچھ نہیں۔ باقی تمام باتیں قیاس ہیں یا پھر انہیں ذاتی اجتہاد کہیے، جن سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔
/////////////
تیسری بات یہ کہ ایسے معاملات میں جہاں مختلف فقہاء میں خود اختلاف ہو، وہاں ہم جیسے عام انسانوں کی کم علمی ثانوی درجہ اختیار کر جاتی ہے، کیونکہ ہم جیسے کم علم وہی علمی دلائل پیش کر رہے ہیں جو کہ باعلم فقہاء پیش کر چکے ہیں۔
/////////////
quote: فقہ حنفی کے بارے میں اپ ذکر کردہ مسئلہ " اور اگر میں غلطی نہیں کر رہی تو یہ فقہ حنفیہ میں ہی ہے کہ آدمی نے زنا کیا اور لڑکی پیدا ہوئی، تو وہ لڑکی اُس آدمی کے بیٹی نہیں کہلائے گی اور اُس آدمی کا بیٹا اُس لڑکی سے شادی کر سکتا ہے " غلط ہے۔
میں نے اس کو دوبارہ چیک کیا ہے اور واقعی یہ فتویٰ احناف کا نہیں ہے، بلکہ مالکیہ اور شافعیہ کا ہے۔ (اصل فتویٰ یہ کہ ایک آدمی اپنی ناجائز بیٹی سے شادی کر سکتا ہے کیونکہ اُن میں کوئی وراثت نہیں ہے اور بچہ اُس کا ہے، جس کے بستر پر پیدا ہو، اور زانی کے لیے پتھر ہے) مآخذ: فقہ علی المذاہب الاربعہ، شیخ ابراہیم محمد رمضان۔
اس مسئلے پر انشاء اللہ بعد میں بحث کریں گے، کیونکہ مجھے کچھ چیزیں جمع کرنی ہیں۔ /////////////////////
quote: اگر نکاح کے متعلق ہی ہے جیسا کہ اپ کہ رہی ہیں تو اگے اپ کا یہ کہنا کہ " اور نکاح کی صورت میں بھی اگر عورت کو ہاتھ لگائے بغیر طلاق دے دی جائے تو وہ عورت آدمی کی اپنی اولاد پر حرام نہیں ہوتی " کیا معنی رکھتا ہے ؟ جب کہ ایت نے کہ دیا کہ جن سے تمہارے باپ نے نکاح کیا اس سے تم نکاح نہ کرو؟
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس معاملے میں آپ اتنی ظاہر پرستی سے کیوں کام لے رہے ہیں؟
یہ معاملہ ظاہر پرستی کا نہیں ہے، بلکہ ضرورت ہے کہ چیزوں کو اُن کے روحانی معنوں میں سمجھا جائے۔
محترم برادر، دیکھئیے کہ ایک عورت کا نکاح ایک شخص سے ہوتا ہے، تو فوراً اُسی وقت وہ اپنے سسر کے لیے محرم بن جاتی ہے (چاہے شوہر نے ہمبستری کی ہو یا نہ کی ہو)۔ اب چاہے شوہر ساری زندگی ہمبستری نہ کرے، مگر جب تک وہ اُس کی زوجیت میں ہے، وہ اپنے سسر کے لیے محرم ہے۔
اور اگر ہمبستری سے قبل علیحدگی ہو جائے، اور بہو اور سسر میں محرم کا رشتہ ختم ہوتا ہے، تو یہ سوائے اللہ کی رحمت کے اور کچھ نہیں کیونکہ وہ اپنے بندوں پر تنگی نہیں چاہتا۔
پس ثابت ہوا کہ بہو اور سسر کے درمیان محرم ہونے کا رشتہ ایک روحانی رشتہ ہے اور نکاح ہوتے ہی جاری ہو جاتا ہے۔ اور یہ روحانی رشتے کبھی بھی کسی دنیاوی افعال کی وجہ سے ختم نہیں ہو سکتے۔ مثلاً اگر سسر نے زنا بالجبر کر بھی لیا ہے، تب بھی وہ اُس عورت کا سسر ہی رہے گا، شوہر نہیں بن جائے گا۔
اسی طرح نکاح نے جو رشتہ اُس عورت اور شوہر کے درمیان قائم کیا ہے، وہ کسی اور کے گناہ کے وجہ سے ختم نہیں ہو سکتا۔
//////////////
دارلعلوم دیوبند پر اس حوالے سے میرا اعتراض یہ ہے کہ وہ بیشک اپنی رائے پر قائم رہیں، مگر یہ کہیں کہ اُن کی رائے ہے، مگر یہ نہ کہیں کہ یہ اسلام کہہ رہا ہے (کیونکہ اس مسئلہ پر بہت سے جید فقہاء اُن سے اختلاف کر رہے ہیں)
اور اگر کوئی مسلمان اُن کی رائے سے اختلاف کرنا چاہے تو وہ کھل کر اس کی اجازت دیں۔
شکریہ۔ |
|
faridraseed
INDIA
|
Posted - Friday, January 6, 2006 - 2:46 PM
محترمہ گذارش ہے کہ سورہ نساء کی جس ایت سے معلوم ہوتاہے کہ باپ کی بیوی بیٹے کے لیے حرام ہے، اس میں قران کی مراد کیا ہے ؟ خالی نکاح مراد ہے، یا حرمت کی وجہ کوئ اور جیسا کہ بہو کے لیے سسر کے محرم بننے میں اپ کی عقل سلیم نے نکاح چھوڑ صحبت کو حرمت کیوجہ گردانا ہے ؟ میرا سوال یہ ہے کہ حرمت مصاہرت اور محرم بننے میں نکاح کا دخل ہے یا صحبت کا ؟ ایک فرق نوٹ کر لیں، "محرم" ہونا نعمت ہے، جس کے ساتھ سفر ہو سکے، کچھ اور رخصتیں بھی ہیں، نکاح نہ ہو سکے، وغیرہ، لیکن زنا سے ہم "محرم" والی نعمت کی بات نہیں کر رہے، بلکہ فقط اس سبب کے پاءے جانے کی بات کرتے ہیں، جو حرمت مصاہرت کا ہے، اسی لیے زنا کے تعلق قاءم ہونے سے زانی مزنیہ اور ان کے متعلقین کے درمیان از قبیل نعمت سمجھی جانی والی چیزیں قائم نہ ہوں گی، ہاں دوسرے احکام ضرور لاگو ہوں گے، حرمت مصاہرت کا مسءلہ بھی اسی قبیل سے ہے۔ محرم ہونے کی جو بات اپ نے ذکر کی ہے، وہ ایک حکمت ضرور ہے، مگر مسئلہ کی اصل دلیل نہیں۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں ذرا سیاق و سباق سے مطالعہ کریں، تو شاید بہتر ہوگا۔ اس مسئلہ میں فریقین کی دلیل فقط قیاس اور رائ نہیں، بلکہ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں اقوال صحابہ و تابعین ہے،نیز دونوں فریق ایک ایک حدیث سے بھی استدلال کرتے ہیں۔ شاید وہ حدیث بھی الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں ہوں۔ یہ بھی جنابہ خیال رکھیں کہ اپنی ذاتی عقل کو اتنا پروان چڑھا دینا کہ اس کے مقابلہ میں لاکھوں فقہاء اور مجتہدین کی رائے اور فیصلہ کو نظر انداز کرنا کس کو زیبا ہے،کسی مجتہد کویا میرے تمہارے جیسے کم عقل کو ؟ کیوں کہ فقہ حنفی کا یہ مسئلہ دارالعلوم دیوبند نے اج مستنبط نہیں کیا بلکہ صدیوں پہلے کے مجتہدین لکھ چکے ہیں، جنابہ خواہش کریں تو ان پرانوں کی بات نقل کروں !
Edited by: faridraseed on Friday, January 06, 2006 2:51 PM |
|
askhalifa
UNITED ARAB EMIRATES
|
Posted - Monday, January 9, 2006 - 10:39 AM
میرا خیال ہے کہ بحث کا موضوع تھوڑا بہت بدل گیا ہے۔ اصل سوال یہ نہیں ہے کہ عورت کے لئے ایک شخص سے ناجائز تعلق قائم ہونے کے بعد اسکے بیٹے سے نکاح جائز ہے یا نہیں، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ قانوناً نکاح ہونے کے بعد اس طرح کے تعلق قائم ہونے کی صورت میں کیا نکاح باطل ہو جاتا ہے؟ اور اس پر مزید سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حنفی فقہ کے مطابق صرف شہوت سے ہاتھ لگانے سے اور بوس و کنار کرنے سے بھی نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ اگرچیکہ لغوی طور پر اس بات کی گنجائش ہے کہ نکاح کے معنی صرف جنسی تعلق ہو، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علماء دیوبند اسی رائے پر کیوں مصر ہیں، جس کی وجہ سے کئی قسم کے خانگی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور انکے پاس اسکا کوئی حل بھی نہیں ہے۔ اور موجودہ دور میں تعدد ازدوج کے عموم کے نہ ہونے کی وجہ سے عمومًا عورت کو ہی زیادہ بھگتنا پڑتا ہے۔ اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ حنفی علماء مل بیٹھ کر حنفی فقہ میں تھوڑی بہت ترمیم کر لیں جو سلف کی آراء کے دائرے کے اندر ہو ۔ خصوصاً یہ بات اسلئے بھی ضروری ہے کہ بہت سے عرف جن پر فتاوی کی بنیاد ہوتی ہے وہ بہت کچھ بدل چکی ہے۔ وہ فتاوی جو پرانے دور کے عرف پر مبنی ہے ان کو موجودہ دور کے مسلمانوں پر جوں کا توں مسلّط کرنا ایک طرح سے ظلم ہے، اور اسکو قرآن و سنت کا نام دینا مزید برآں۔ عبدالسلام خلیفہ
Edited by: askhalifa on Monday, January 09, 2006 10:42 AM |
|
faridraseed
INDIA
|
Posted - Thursday, January 26, 2006 - 4:14 PM
مکرمی یہ تو : "خود بدلتے نہیں، قران کو بدل دیتے ہیں " والی بات ہوئی، فقہ حنفی کے ان مسائل سے کسی کو اتفاق نہیں تو دیگر فقہ کی تقلید کر لے، یہ نہ ہو کہ وہاں کسی مسئلہ میں تکلیف پڑ جاءے تو پھر فقہ حنفی پر عمل کر لیں، یہ گداگری اسلام میں اچھی نہیں۔ رہی بات اصل مسئلہ کی ؛ میری بات مہوش صاحبہ سے برابر موضوع پر چل رہی ہے، اور ان مساءل کو جن کی بنیاد نصوص و دلائل پر ہے، بلاوجہ اس کو عرف پر موقوف کرکے گنجاءش نکالنے کی بات بے بنیاد ہے، یقینا عرف بدلتا ہے، لیکن کیا یہ حرمت مصاہرت کا مسئلہ عرف سے مستنبط ہے ؟ اج کل خاندانی نظام پیچیدہ ہو گیا ہے، اگر میری ایک مثال پر غور کریں تو شاید اپ کے عرف کا خمار اتر جائے، حقوق انسانی اور حقوق نسواں پر کام کرنے والی تنظیموں کی رپورٹ ہے کہ عورتوں پر مظالم زیادہ تر گھر کے لوگ کرتے ہیں، اور گھر کے لوگ ہی زیادہ تر جنسی طور پرہراساں کرتے ہیں، ابھی پچھلے چند مہینوں میں یہاں کے اخباروں میں باپ کے اپنی بیٹی سے زنا کرنے کے بھی ایک سے زائد واقعات اخباروں میں ائے، جو سامنے نہیں ائے ان کا شمار نہیں، خاص کرکے عمرانہ کا واقعہ پیش ایا اس کے چند ہی دن بعد ایک ہندو باپ کے بیٹی سے چن سالوں سے زنا کرتے رہنے کا واقعہ اخباروں کی زینت بنا تھا۔ ایسی صورت میں اپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ حکم عورت کو گھر کے ظالم اور ہوس خور مردوں سے نجات دیتاہے، کیوں کی اس صورت میں مردوں کو اپنے دیگر رشتوں کے ناجائز ہونے اور حرام ہونے کا اندیشہ رہے گا۔
فقہ کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ حرمت کی دو قسمیں ہیں، حرمت ابدی ، حرمت وقتی، حرمت ابدی کا کوئی سبب اور نکاح کے بعد بھی پیش اجاءے تو حرمت کے ابدی ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے سے موجود تعلق کو حرام کر دیا جاءے۔ ملاحظہ ہو : المغنی :جلد 6 ، الجموع شرح مہذت جلد : 15 ، نہایۃ المحتاج، مغنی المحتاج، بحوالہ : المفصل فی احکام المراۃ۔
Edited by: faridraseed on Sunday, January 29, 2006 11:28 AM |
|
raushan
UNITED ARAB EMIRATES
|
Posted - Monday, January 30, 2006 - 8:35 AM
Imrana Case…Rape of Truth in India
By Zafarul-Islam Khan, IOL Correspondent
NEW DELHI, July 4, 2005 (IslamOnline.net) - The alleged rape of a Muslim woman by her father-in-law in an obscure Indian village has, once again, proved the mighty role – vicious as it may be – the media could play in our lives.
The case that has shaken India, grabbed headlines worldwide and caused secularists, feminists, communists and extremist Hindus to cry out aloud, demanding the abolition of Muslim personal laws, against the wishes 145 million Indian Muslims, is – in a nutshell -- the work of "a journalist".
It was only natural for IslamOnline.net to be alarmed by the case – as it appeared in the media – and it was up to IOL correspondent in India to dig as deep as humanly possible to get to the bottom of the so-called "Imrana case". So, this report reveals "astonishing" facts, to say the least.
"Property Dispute"
According to IOL correspondent, the issue reportedly started on the morning of June 3 – a month ago -- when a 28-year-old illiterate Muslim woman, called Imrana, living in the north Indian district of Muzaffarnagar claimed that her father-in-law (Ali Mohammad) had "raped" her at night. Imrana, mother of five, claimed that he fled when she "screamed".
Enquiries – by this correspondent -- show that no one in the tiny house or her immediate neighbors heard any "scream" at night. This was strange as it is summer time when all people living in the tiny inter-connected houses sleep on the terrace or in open courtyards inside their homes.
What adds a new dimension to the case is that this allegation was made in the midst of an on-going dispute in the family about selling the ancestral property. The father-in-law wanted to sell the house while the son, Noor Ilahi and his wife Imrana – the heroine of the infamous story -- opposed the move as they had nowhere to go.
A team of the All India Muslim Personal Law Board, which visited the concerned village and met the alleged victim, her relatives and village people Saturday, July 2, came back with the impression that no rape has taken place and that it was a case of property dispute, says IOL correspondent.
"First Bullet"
Muslim women protest in support of Imrana. (Reuters)
The father-in-law has all along denied the rape claim and the issue was dismissed within the family but some neighbors got wind of it and soon a small-time local journalist called Shakti of the Hindi paper Dainik Jagaran got wind of it.
Shakti came to the family and demanded ten thousand rupees -- a price to keep silent. The poor family pleaded that it did not have this kind of money, according to IOL correspondent, local witnesses.
The journalist went ahead and published the story in his newspaper. Zee TV picked it from Dainik Jagaran and thereafter all the channels, newspapers, agencies, NGOs and government organizations descended on the small village of Charthawal whose inhabitants would tremble even at the sight of a single baton-wielding policeman.
These vultures started interviewing just about anyone they found on the village streets, reporting edited versions which showed that a great crime had been committed against a hapless Muslim woman even before the crime was established.
The local media – so far -- continues to describe what happened as "rape" discarding the conventional adjective of "alleged" in such cases because no authority till now has proved it to be a case of rape.
Unusual media focus and the incompetence of the Indian Muslim religious and political leadership has only worsened the situation as was seen in the somewhat similar case of Gudiya a few months ago.
Local Council
Alleged "rapist" Mohammad Ali arrested by the police.
As in many rural areas in the Subcontinent, a local elders council (panchayat) was called in the village June 15 to deliberate over the issue. A local maulavi (scholar) told the panchayat that after the incident the woman was haram (forbidden) for her husband as she is like his "mother" now and that she should marry the rapist!
The panchayat was described by the media as a "Shariat Panchayat" as if a meeting of Islamic scholars had taken the decision, which is not true. Naturally the woman refused this grand gesture and moved out to live with her brothers in a nearby village. Noor Ilahi, a rickshaw puller, could not stand the attention and fled from the scene.
Next day, June 16, the 59-year-old father-in-law was arrested by the police on rape charges and sent on judicial remand for 14 days.
While all this was going on, the woman or her husband had not complained to the police. It was only two weeks after the alleged rape that the woman made a complaint to the police and an FIR (first information report) was registered. She appeared before a civil court in Muzzafarnagar June 20 to make her statement.
"No Rape"
That was the time for political meddlers to exploit a situation for their benefit as usual. As Delhi-based secularist women outfit called "Muslim Women Forum" sent two representatives June 20, to meet Imrana. They bribed her with five thousand rupees and asked her to say to the media and police that she will not accept the ruling of Shariat (Islamic Law) and will only go for the civil court's judgment to safeguard her rights.
On June 30, Dr Tasleem Rahmani, president of the Muslim Political Council, called a press conference in Delhi in which he showed a 3-hour video in which Imrana appeared saying that no rape had taken place, that she was given five thousand rupees by a "feminist organization".
Dr Rehmani said that the case was blown out of proportion to malign the Muslims and the Sharia'h. He planned to file a complaint in the Press Council of India against "irresponsible" reporting. Most newspapers and channels chose not to carry Dr Rehmani's statement.
Fatwa
Then comes the role of some religious people to unintentionally fuel anti-Muslim media. A Noida-based Urdu newspaper, Rashtriya Sahara, asked the Mufti in India's premier Muslim seminary, Darul Uloom Deoband, to give his opinion.
The mufti (Maulana Habibur Rahman), without ascertaining the facts of the case or going to the area or sending someone there to find out the truth, issued a fatwa on June 25, saying Imrana "is now haram (forbidden) for her husband and should leave him".
"We have obtained a copy of this fatwa and asked Mufti Habibur Rahman certain questions. He was unable to counter our argument that the Qur'anic injunction ("And marry not women whom your fathers married…" - 4:22) does not apply here," says this correspondent.
"He gave us some references to support his view but when we read them, they did not seem to support the Mufti's interpretation which is the opinion of some Hanafi fuqaha who consider rape also as a cause for prohibiting such marriages.
"We confronted the Mufti again. This time he referred us to another Maulana who, he said, was present in the meeting when the decision was taken. We told him, why we should go to someone else when he (Mufti Habibur Rahman) had signed the fatwa. Seemingly he was not pleased with our argument and asked us to write down whatever "problems" we had in mind. We did this promptly and are still waiting for his reply."
Other schools of thought like Shafiees, Malikis, Jaafari Shia and Ahl-e Hadees reject this interpretation as they hold that only legitimate marriage is meant in the Qur'anic injunction and a crime does not change the rule.
"Just one day after our interaction June 29, the Mufti's office announced Friday, July 1 that the previous fatwa was not about Imrana, which is factually incorrect. While the name "Imrana" is not mentioned in the question to which the fatwa was given, her village and district are mentioned. Moreover, the 3 July issue of Rashtriya Sahara Urdu newspaper carries an article by Mufti Habibur Rahman which explicitly mentions the name of Imrana and pronounces the same opinion he earlier expressed in his fatwa."
The All India Muslim Personal Law Board, too, has now distanced itself from that fatwa and will now soon to reconsider the issue, added IOL correspondent.
Political Chance
Political parties were also quick to take advantage of the issue in order to indulge in their usual pastime of attacking the Muslim personal laws and repeat their age-old demand to force a "Uniform Civil Code" (UCC) applicable to all citizens.
True, UCC is a "guiding principle" laid down in the Indian Constitution's Article 44 but at the same time personal laws of various communities including Hindus are respected and the stated policy of the government ever since Independence has been that the personal laws will not be changed unless the demand is made by the concerned community itself, according to IOL correspondent.
Various communist, socialist and rightist parties repeated their demand to enact UCC. The most vociferous voice was that of the beleaguered Hindutva leader LK Advani who thundered Friday that "Muslim laws must change".
Imrana issue had given a strong stick for the BJP to beat "pseudo-secularists".
"No civil society can accept the treatment being meted out to Imrana, the victim of a heinous crime, by scholars. The ulemas (scholars) must reconsider their decision to ensure that dignity is restored to Imrana,” said Advani.
On June 28, BJP general secretary Arun Jaitley had said in a specially convened press conference that "The entire nation is concerned over recent developments in relation to the case of Imrana, a helpless victim of rape allegedly committed by her father-in-law." Jaitley demanded the implementation of UCC, saying that Imarana's case shows that "obnoxious religious practices [are] still prevalent…This is wholly unacceptable under any civilized notion of the rule of law."
President of the Vishwa Hindu Parishad (World Hindu Council-VHP) Ashok Singhal said that "the time has come to quash the Muslim Personal Law."
Marxists, too, joined the fray. CPIM's Brinda Karat on June 27, said that it’s a “shocking example of how contractors of religion can bulldoze the constitutional rights of a citizen."
Congress Party spokesman Abhishek Singhvi announced on the same day that "Fatwas are irrelevant." Replying to a question, Singhvi said if there is a crime involving a person of any religion, caste or creed, then it is dealt under the criminal law and fatwas or personal laws become irrelevant.
A delegation of the National Commission for Women visited the victim on 30 June. It demanded a speedy trial and appealed against politicization of the incident. Commission chairperson Girija Vyas, a Congress leader, said that "the issue should not be politicized but treated on humanitarian grounds." She enlightened us that the "Constitution is supreme."
Personal Laws
According to IOL correspondent, it is a fact of life in India today that all possible liberties are taken where Muslims are concerned. The media does not take the same freedom when it comes to other communities. The same media was repeating ad nauseum that the AIMPLB was supporting the Deoband fatwa when only a certain member of the board, a laywoman, had done that. Uttar Pradesh minister Azam Khan said July 1, that in the guise of Imrana issue, the media is targeting Islam. "There is an attempt behind this conspiracy to malign Islam and Muslims," he added.
On 1 July the AIMPLB distanced itself from the Deoband fatwa and said that a meeting of its working committee will be called to deliberate on the issue. Next day Syed Shahabuddin, president of the All India Muslim Majlis-e Mushawarat (AIMMM), came out strongly against Advani's outpourings. He said that the AIMMM condemns the political exploitation of the Imrana case by the BJP to promote its long-cherished agenda of religious assimilation of the Muslim community through imposition of a common civil code in substitution of its Shariat-based Personal Law.
The storm over Imrana will die down as time passes but forces which are ever-ready to use any handle to beat Muslims with will soon find some other issue and blow it out of proportion unless leaders of the Muslim community are ready to meet the challenges and adapt to the demands of the modern times and requirements of natural justice. |
|
raushan
UNITED ARAB EMIRATES
|
Posted - Monday, January 30, 2006 - 8:54 AM
imrana mamle mein is fatwe se muatalliq kuchh batein samne aati hain:1.yeh fatwa na imrana ne na uske sasur ne aur na he uske husband ne manga tha to kya koi teesra fareeque doosron ke zati mamlat ke liye fatwa le sakta hai. 2.Doosre ye ke zana waghairah ke mamle mein jahan ilzam sabit karne ke liye shryi gawah chhahiye wahan kya baghair tahqeeque aur saboot ke aisa fatwa sadir kiya ja saktahai . 3.Is fatwa ke hisab se zana biljabr ke case mein ek to nikah fasq ho jata hai doosre ke woh aurat automatically us zani ki biwi ho jati hai.to aise logon ka kya kiya jaaye jo zana biljabr ke murtakib ho chuke hain kya woh us aurat ke shauhar nahin ho jate. 4.zani mard aur aurat ke beeh jo shadi ki mamaneat hai uska kya jwaz hoga |
|
mehwish_ali
PAKISTAN
|
Posted - Friday, February 3, 2006 - 6:34 AM
محترم فرید صاحب، آپ کی طرف سے پیش کیے جانے والے تمام دلائل ابھی تک صرف اور صرف قیاسات پر مبنی ہیں جنہیں زیادہ سے زیادہ ذاتی رائے یا اجتہاد کا نام دیا جا سکتا ہے۔
اسلام کے کچھ اصول بہت صاف ہیں۔
پہلا یہ کہ ایک کے جرم کی سزا دوسرے کو نہیں مل سکتی۔
دوسرا یہ کہ پہلے سے قائم شدہ روحانی رشتے، کسی تیسرے کے گناہوں کی وجہ سے نہیں ختم ہوتے۔
مثال کے طور پر بھائی اور بہن میں محرم ہونے کا ایک روحانی رشتہ قائم ہے۔ لیکن اگر باپ اپنی بیٹی سے زنا بالجبر کر لیتا ہے تو کیا سزا کے طور پر بہن اور بھائی میں موجود یہ محرم ہونے کا روحانی رشتہ ختم ہو جاتا ہے؟
سسر کے زنا بالجبر کرنے پر عورت کو شوہر سے الگ کر دینا مضحکہ خیز ہے اور اسلام کی بدنامی کا باعث ہے۔ |
|
raushan
UNITED ARAB EMIRATES
|
Posted - Saturday, February 4, 2006 - 10:22 AM
is fatwe ki buniyadi daleel is ayat pe hai ke .("And marry not women whom your fathers married…" - 4:22) ) to kya is daleel se zana biljabr aur nikah donon ek he cheez qarar payeinge.doosre yeh ke jab nikah is tarah se ho sakta hai to phir do gawah aur eejab o qabol ki koi zaroorat baqi rah jati hai kya..yeh fatwa shauhar aur biwi banne ke liye sirf jismani talluqat ko ahmiyat deta hai to ''nikah'' ka nayab tareeqa bada nirala hai |
|
faridraseed
INDIA
|
Posted - Sunday, February 5, 2006 - 3:20 AM
محترمہ یہ اپ نے کون سی نصوص قرانی اور احادیث پیش کی ہیں ؟ میں تو اپنی موافقت میں ایت کو پیش کر چکا ہوں ۔ اور اس کا جو حشر اپ نے کیا وہ بھی واضح کر چکا ۔ اور پر اپ نے اولا ایت کے ظاہر سے استدلال کیا اور پھر بات کود پر اءی تھی تو مجھے ظاہر پرستی کا طعنہ دیا تھا۔ ذرا اس کو پھر سے پڑھ لیں ۔ خیر میں نے الفقہ الاسلامی و ادلتہ ، المفصل فی احکام المراۃ وغیرہ کا حوالہ دیا ہے ۔ وہاں سب دلاءل موجود ہیں ۔ ذرا خود بھی کچھ نصوص پیش کرتیں پھر مجھے کہتیں کہ سب قیاس ہیں ۔ میں کہ سکتا ہوں کہ چہ دلاورست دزدے کہ بکف چراغ دارد ؟ |
|
faridraseed
INDIA
|
Posted - Sunday, February 5, 2006 - 3:26 AM
زنا بالجبر اور نکاح دونوں الگ چیزیں ہیں ۔ زنا کرنے سے زانیہ عورت زانی کی منکوحہ نہیں ہو جاتی ۔ لیکن جناب غور کرو کہ نکاح کے بعد وہ کون سے چیز ہے جس کی وجہ سے دونوں اور دونوں کے خاندان ایک خاندان بن جاتے ہیں ؟ سچ بات ہے کہ مصیبت جب خود پر اتی ہے لوگ اسے حلیے حوالے سے ٹالنا چاہتے ہیں ۔ |
|
raushan
UNITED ARAB EMIRATES
|
Posted - Sunday, February 5, 2006 - 6:50 AM
farid sahab ,salam alaikum, jawab ka shukriya..yeh baat wazeh ho gayi ke zana biljabr se koi aurat us shakhs ki mankooha nahin ban jati hai..aapke jawab ka aakhiri jumla meri samajh nahin aaya baraye meharbani tafseel se likhein..jazakallah |
|
Reply to Topic
Printer Friendly |
Jump To: |
|
|
|