Author | Topic |
isfi22
PAKISTAN
|
Topic initiated on Monday, May 24, 2010 - 9:23 AM
خدا اور بندہ
ایک انسان کو اس دنیا میں جو کچھ حاصل ہوتا اور میسر آتا ہے ، وہ ایک ہی خداوند کی بخشش و عنایت ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی کسی کو کچھ بھی نہیں دے سکتا۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ جن جن سے کسی مدد، بخشش اور عنایت کی توقع کی جاتی ہے ، وہ تو خود اپنے لیے بھی کچھ کر لینے کی کوئی طاقت نہیں رکھتے ۔ جس خداوند نے یہ آسمان و زمین بنائے ، پہاڑ و دریا تخلیق فرمائے اور انسان کو زندگی اور دوسری ساری نعمتیں عطا کی ہیں ، وہی اکیلا انسان کا پالنہار اور خالق و مالک ہے۔ اور آخری درجہ میں لازمی ہے کہ وہی انسان کی تمام عبادتوں ، تعظیم و تکریم، توجہات، گہرے جذبات اور دعاؤں اور التجاؤں کا مرکز و مرجع ہو۔
ماں کے پیٹ میں ایک ننھی جان کی پرورش و بقا اور افزائش کا انتظام کون کرتا ہے ؟ آسمان سے بارش کون برساتا ہے ؟ زمین سے غلہ و نباتات کون اگاتا ہے ؟ رات اور دن کی یکے بعد دیگرے آمد و برخاست کس کے اشاروں کی رہینِ منت ہے ؟ سورج کس کے حکم سے طلوع و غروب ہوتا اور تارے کس کی رحمت سے چمکتے ہیں ؟ زمین کو بچھونا اور انسانی تہذیب و تمدن کی تزئین و تحسین کے لیے موافق اسباب کا عظیم الشان گودام کس نے بنایا ہے ؟ ان سارے سوالوں کے جواب میں ایک خداوندِ کائنات کے علاوہ کس ہستی کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ کسی کا بھی نہیں ۔ تو پھر عبادت و استعانت کا حق دار اُس کے علاوہ کوئی دوسرا کیسے ہو سکتا ہے ۔ زمین و آسمان کی نشانیاں ، خدا کی نازل کردہ کتابیں اور اُس کے اولو العزم پیغمبروں کی تعلیمات اور سیرتیں ایسی کسی بات کے حق میں اپنے اندر کوئی بھی دلیل نہیں رکھتی۔
قافلۂ انسانی کے بہترین اور اعلیٰ ترین لوگ ہمیشہ اپنے آپ کو اُس کا عاجز بندہ کہتے اور اپنی محبتوں ، اندیشوں ، فریادوں اور بہترین جذبوں کا مرکز ہمیشہ اُسے ہی بناتے رہے ہیں ۔ تو ان کے بعد آنے والوں اور ان کے ماننے والوں کو یہ کس طرح زیب دے سکتا ہے کہ وہ کسی اور دربار، بارگاہ اور آستانے پر جائیں اور اپنی منتیں اور حاجتیں مانگیں ۔
خدا پر ایمان رکھنے والے ایک سلیم الفطرت بندۂ مؤمن کا طرزِ زندگی تو بس یہ ہونا چاہیے کہ وہ ہر آن و لمحہ اپنے پرودگار کا شکرگزار، ہمیشہ اُس کا تابعدار، اُس سے ٹوٹ کر محبت کرنے والا، اُس سے بے انتہا ڈرنے والا، اُس کی رحمت و عنایت کا متمنی، اس کے احکام و ہدایات کا پابند، اس کے بندوں پر شفیق و مہربان، اپنا جان و مال اور اوقات و اسباب اپنے پرودگار اور اس کے دین کی راہ میں بے دریغ لٹانے والا اور دنیا کی ذمہ داریاں اور معاملات نبھانے کے ساتھ ساتھ آخرت میں سرخروئی اور اپنے پرودگار کے رضا و قرب کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے والا ہو۔
ایسا شخص اپنی تمام حاجتیں اپنے پرودگار ہی کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ اپنے مسائل میں اسی سے مدد طلب کرتا ہے ۔ مشکل اوقات اور سخت لمحات میں اسے ہی یاد کرتا، پکارتا اور اپنا سہارا بناتا ہے ۔ قرآن و سنت کی تعلیمات، پیغمبروں کی سیرتیں اور انکے اولین پیروکاروں کی روشن زندگیاں ہمیں مؤمنانہ زندگی کی یہی تصویر دکھاتی اور اسی بات کا سبق دیتی ہیں ۔
اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ بندے کا خدا سے تعلق ایک زندہ اور شعوری تعلق ہو۔ وہ نفسیاتی اور حسیاتی طور پر اُس سے مربوط ہوجائے ۔ پوری شعوری بیداری اور دل و دماغ کی مکمل حاضری کے ساتھ اُسے یاد کرے ، اُس کا ذکر کرے اور اُس کی عبادت بجالائے ۔ خدا سے اس کا تعلق اور اس تعلق کے اظہار میں انجام دی جانے والی عبادات اور سرگرمیاں محض بے روح رسوم بن کر نہ رہ جائیں ۔ بلکہ بندہ جب اپنے پرودگار کو یاد کرے اور اُس کی عبادت میں مشغول ہو تو اس کے دل میں اپنے پرودگار کے لیے شوق و ذوق، چاہت و الفت، اشتیاق و محبت اور فدائیت و جانثاری کا ولولہ اور طوفان موجزن ہو۔ زندگی کی مختلف کروٹوں میں رہ رہ کر اسے اپنے مالک کی عنایتوں ، مہربانیوں اور رحمتوں کا خیال آتا رہے اور وہ اندر ہی اندر اُس کے لیے شکر و احسان مندی کے جذبات سے لبریز ہوجائے ۔ وہ اُس قرآنی بیان کی زندہ تصویر بن جائے کہ : خدا کے بندے وہ ہیں جو اس کی نشانیوں پر غور کرتے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے اور اپنے بستر پر لیٹے اور پہلو بدلتے ہوئے اسے یاد کرتے رہتے ہیں ۔ اُس کی زندگی کا مشن بس یہ ہو کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاکر خدا کی رضا و رحمت کے مقام جنت میں جگہ حاصل کر لے ۔ وہ دنیا میں ایک اعلیٰ اخلاقی شخصیت اور خدا کے دین کا داعی و علمبردار بن کر جیے اور دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی دنیا کا باسی بن جائے ۔ |
|
isfi22
PAKISTAN
|
Posted - Monday, May 24, 2010 - 9:35 AM
خدا کی طرف رجوع کیجیے
پچھلے دنوں پاکستان نے جو سیریز جیتی ہے اس پر قوم کی خوشی اور جشن اور جوش و خروش کا بڑ ا ہی انوکھا اور نرالا عالم تھا۔ جیسے ہی یہ واقعہ ہوا، لوگوں نے اپنی خوشی اور مسرت کا اظہار ہوا میں فائرنگ کر کے اور پٹاخے اور بم پھاڑ کر کیا۔ رات گئے تک مختلف زاویوں سے پٹاخوں اور گولیوں کی آوازیں فضا میں گونجتی رہیں ۔ اور سڑ کوں پر شور مچاتے اور پاکستان زندہ باد اور مختلف کھلاڑ یوں کے نام کے ساتھ زندہ باد کے نعرے لگاتے نوجوانوں کی ریلیاں اور قافلے گزرتے رہے ۔ جن کھلاڑ یوں نے پاکستانی قوم کو اس اعزاز و مسرت اور شاندار کامیابی تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا ان کی وطن واپسی کے موقعوں پر ان کا انتہائی پرجوش اور شاندار استقبال کیا گیا اور مختلف چینلز پر پبلک کے جوش اور مسرت اور کھلاڑ یوں سے عقیدت و محبت کے انوکھے مناظر براہِ راست دکھائے گئے ۔ ان کھلاڑ یوں کے لیے لوگوں کا جوش و خروش، ممنونیت کا جذبہ اور عقیدت کے ولولے دید کے لائق تھے ۔ لوگ ان کی ایک جھلک دیکھ لینے کے لیے ایک دوسرے کو دھکے دے رہے اور ٹوٹے پڑ رہے تھے ۔
یہ سب دیکھ کر مجھے خیال ہوا کہ دیکھو ان کھلاڑ یوں نے قوم کو ایک کامیابی اور اعزاز بخشا ہے تو لوگ ان کے دیوانے اور پروانے ہوگئے ہیں اور ان کے دلوں میں ان کے لیے الفت و احترام اور احسان مندی کے گہرے احساسات امنڈنے لگے ہیں ، لیکن وہ خداوند جو انہیں ہر آن و لمحہ بے شمار نعمتیں بخش رہا اور دن رات ان کی پرورش و افزائش کا کائناتی سطح پر اہتمام و انتظام کر رہا ہے اس کی نوازشات و عنایات کبھی لوگوں کو اس پر نہیں اکساتیں کہ وہ اس کے لیے جوش و خروش کا مظاہرہ کریں اور اس کی عقیدت و نیازمندی سے سرشار ہوکر اس طرح کی دیوانگی اور والہانہ پن میں ڈوب جائیں ۔ خداوندِ کائنات کی عظمت و حشمت اور رحمت و عنایت اور مہربانیاں اور بخششیں کبھی ان لوگوں کو نیازمندانہ اس کے آگے جھکانے اور سر بسجود ہوجانے کی طرف مائل نہیں کرپاتیں ۔ خدا کے حوالے سے یہی غفلت و بے حسی اور اس کی نعمتوں اور رحمتوں کی یہی ناقدری ہمارے تمام مصائب و مسائل کی ذمہ دار ہے ۔ لوگ جب تک خدا کے بارے میں حساس نہیں بنتے وہ بھی ان کی طرف سے منہ موڑ ے اور انہیں مشکلات اور پریشانیوں کے حوالے کیے رہے گا۔ اگر مسائل سے چھٹکارا پانا اور دنیا میں سربلندی حاصل کرنی ہے تو سب سے پہلے ہمیں اسے منانا اور اس کی یاد، عبادت اور شکرگزاری کو اولین ترجیح بنانا ہو گا۔ |
|
Reply to Topic
Printer Friendly |
Jump To: |
|
|
|