Author | Topic |
isfi22
PAKISTAN
|
Topic initiated on Monday, May 24, 2010 - 9:12 AM
اسلام کی دعوت: دورِ جدید کی بنیادی ضروت
اسلام بلاشبہ ایک آفاقی دعوت ہے۔ اس کا پیغام دنیا کے ہر باشندے اور عالم کے تمام انسانوں کے لیے ہے۔ تمام پیغمبر اسی پیغام و کلام کو لے کر مختلف انسانی اقوام و امم میں تشریف لاتے اور انہیں اس سے باخبر بناتے رہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی کام کیا اور انسانیت کو خدا کا دین آخری مستند شکل میں مکمل محفوظ حالت میں پہنچادیا۔
اب یہ ہر دور کے مسلمانوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اس پیغام کو دنیا کی تمام اقوام و ملل تک پوری جانفشانی و خیرخواہی سے پہنچائیں۔ یہ دوسروں پر احسان کرنے کا معاملہ نہیں بلکہ اپنا فرض ادا کرنے اور دوسروں کی امانت ان تک پہنچانے کا معاملہ ہے۔ اور یہ کام زور زبردستی، ٹھونس، رقابت اور لڑائی کے ماحول میں نہیں بلکہ نہایت صبر و تحمل، شفقت و ہمدردی، امن و سلامتی اور برادرانہ خیرخواہی کے ماحول میں سرانجام دینا ہے۔
اس دعوتی کام میں رکاوٹ بننے والی ہر سیاسی و قومی کشمکش اور ہر طرح کے تاریخی و جغرافیائی تعصبات کی رکاوٹوں کو دور کرنا مسلمانوں کی یک طرفہ ذمہ داری ہے۔ اور یہ ان کی کسی قومی و مادی جدوجہد کا عنوان نہیں بلکہ سراسر آخرت کی فلاح و نجات اور اپنی دینی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے عزم کو پیش نظر رکھ کر کیا جانے والا ایک کام ہے۔
مسلمان دنیا بھر میں آج بھی اس عنوان سے متحرک و فعال ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے وہ اس کی اصل روح و فارم کو نظر انداز کرکے اپنے دوسرے دوسرے کاموں کو اس کام کا عنوان دیے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی قومی و سیاسی لڑائیوں اور اپنے خود ساختہ تصورات کے تحت عالم انسانی پر اسلامی غلبہ کے قیام کے نام پر کیے جانے والے فساد نما جہاد کو اسلامی دعوت کا نام دیے ہوئے ہیں۔
اسلامی دعوت کے کام کا اول و آخر آئیڈیل نمونہ رسول و اصحاب رسول ہیں۔ انہوں نے یہ کام اصلاً اپنے اعلی اخلاق و کردار کے ذریعے سرانجام دیا تھا۔ انہوں نے انسانوں سے محبت و شفقت کرکے یہ کام کیا تھا۔ آج مسلمان دوسروں سے لڑ جھگڑ کر اور ان سے قومی و سیاسی مفادات کی جنگیں برپا کرکے یہ کام نہیں کرسکتے۔ یہ کام اسی طرح ہوگا جس طرح رسول و اصحاب رسول نے امن و محبت، اخوت و انسانیت اور شرافت و روحانیت کے اوصاف و اخلاق سے مسلح ہوکر اپنے زمانے میں سرانجام دیا تھا۔
میرے نزدیک اس وقت اسلام کے دعوتی کام کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مسلم نوجوان اسلامی اخلاق و کردار کے سانچے میں ڈھل کر دنیا میں بسنے والے انسانوں کے سامنے اسلامی تعلیمات کی برتری، منفعت، پاکیزگی اور بلندی کا چلتا پھرتا نمونہ و نشان بن جائیں۔ وہ بلاتفریق ہر ایک سے پیار کریں، ہر ایک کے کام آئیں، ہر کے خوشی و غم کے ساتھی بنیں، ہر ایک کے ساتھ انصاف و دیانت، اخوت و انسانیت اور شفقت و خیرخواہی کا معاملہ کریں۔ اپنے دین کی تعلیمات اور خدا کے آخری مبارک و پاکیزہ کلام کو نہایت سنجیدہ عقلی و فطری و تاریخی استدلال اور جدید تحقیقات کی تائیدات کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی سیرت، عادات و اخلاقیات اور اپنی زندگیوں کی بہترین تنظیم و تصویر کے ذریعے انہیں اسلام کے قریب لانے اور اس کی دعوت و تعلیم سے متأثر کرنے کی کوشش کریں۔
آج کا دور میڈیا کا دور ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہونے والے واقعہ کو ساری دنیا میڈیا کے ذریعے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتی ہے۔ مسلمان نوجوان اگر اپنے اخلاق و کردار کو اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھال کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کی زندگیوں کا عکس و جمال اپنی زندگیوں کے آئینے میں دکھا دیں تو میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ اسلامی دعوت کے سلسلے میں یہ کسی دھماکے اور آتش فشاں سے کم درجے کا واقعہ نہ ہوگا اور اس کے مثبت ثمرات عالمی پیمانے پر مسلم دنیا کے حصے میں آئیں گے۔ |
|
isfi22
PAKISTAN
|
Posted - Monday, May 24, 2010 - 9:18 AM
اسلام کی برکتیں
آج کا دور بڑ ی خود غرضی اور نفسا نفسی کا دور ہے ۔ اور اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ آج کے انسان نے آخرت کے بجائے دنیا کو اپنا مطمحِ نظر اور مقصود بنا لیا ہے ۔ دنیا میں کسی کو کچھ دینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ چیز آپ کے پاس نہ رہے اور نہ بدلے میں آپ کو کچھ ملے ۔ جب کہ آخرت کی خاطر کسی کو کچھ دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنی آخرت کے ذخیرے میں کچھ اضافہ کر لیا اور اپنی اخروی جمع پونجی بڑ ھا لی۔
اسلام اپنے ماننے والوں کو خودغرضی اور مفاد پروری کے بجائے دریادلی، فیاضی، دوسروں کے کام آنے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کی بہتری کی خاطر غریبوں ، محتاجوں اور مسکینوں کی مدد کرنے اور اسی طرح دیگر انسانی بھلائی و خیرخواہی کے کام کرنے کی تعلیم و ترغیب دیتا ہے ۔ ایک مسلمان دوسروں سے محبت کرنے والا، ان کے کام آنے والا، ان کے درد دکھ کو اپنا سمجھنے والا اور بڑ ھ چڑ ھ کر دوسروں کی خدمت و بھلائی کے کاموں میں حصہ لینے والا ہوتا ہے ۔ وہ کبھی خودغرض، سخت دل، مفاد پرست، اور دوسروں سے نفرت کرنے والا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ساری مخلوق خدا کا کنبہ ہے اور خدا چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق کے ساتھ شفقت و نرمی برتی اور ہمدردی و خیرخواہی کی جائے ۔
اسی طرح اسلام اپنے حلقہ بگوشوں کو ایمانداری، سچائی، اصول پسندی، بلند اخلاقی، عالی ظرفی، ایفاے عہد، قانون کی پابندی، راستبازی، صفائی و پاکیزگی اور انسانی ہمدردی جیسی اعلیٰ خوبیوں کی تلقین کرتا ہے ۔ کسی سوسائٹی اور معاشرے میں اسلام کے آنے کا مطلب برکتوں اور رحمتوں کا نزول ہے ۔ اسلام کی تربیت انسانوں کو اپنے معاشرے کے لیے انتہائی کارآمد اور مفید رکن بناتی ہے ۔ وہ امن، انصاف، پیار اور محبت کے علمبردار اور نمائندے بن کر جیتے ہیں ۔ اور اپنے اپنے دائرے میں خوشیوں ، سکون و اطمینان اور فرحت و سلامتی کی علامت بن جاتے ہیں ۔ لہٰذا آج ہر طرف پھیلی ہوئی خودغرضی اور بے حسی ہو یا دیگر طرح کی برائیاں ، ان سب کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلام کی اعلیٰ، پاکیزہ اور روشن تعلیمات کو خود اپنائیے ، انھیں نرمی و حکمت کے ساتھ دوسروں تک پہنچائیے اور اپنے بچوں اور احباب کے درمیان اسلام کی برکتوں اور خوبیوں کا چمکتا نمونہ بن کر زندگی گزارئیے ۔ مسلمان ہونے کا آج یہ آپ پر سب سے بڑ ا قرض ہے ۔ |
|
isfi22
PAKISTAN
|
Posted - Monday, May 24, 2010 - 9:19 AM
مؤمن انسان
انسان کوئی بھی ہو اور اس کا تعلق کسی بھی تہذیب، سماج اور ملک سے ہو، وہ اپنی زندگی میں کسی نہ کسی چیز کو بے انتہا رغبت و دلچسپی اور مطلوبیت و پسندیدگی کا مقام دیے ہوئے ہوتا ہے ۔ اس معاملے میں خاندان کے بزرگوں کا رجحان اور سوسائٹی کے لوگوں کا چلن بھی اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور نئے آنے والے آپ سے آپ اُن چیزوں کو اپنا ٹارگٹ اور محبوب بنالیتے ہیں جو خاندان و معاشرے کے لوگوں کے ہاں پہلے سے یہ مقام پائے ہوئے ہوتی ہیں ۔
مؤمن بھی ایک انسان ہوتا ہے ۔ مگر ایک ایسا انسان جو اپنی زندگی میں خدا، اس کے پیغمبر اور آخرت کے حقائق کو سب سے اونچا مقام دیے ہوئے ہو۔ دوسرے لوگوں کا معاملہ تو یہ ہوتا ہے کہ کسی کے ہاں مقام و مرتبہ کی طلب نصب العین بنی ہوئی ہے ، کوئی حسن و جمال کا پرستار بنا جی رہا ہے اور کوئی مال ودولت اور آسائش و ثروت کو اپنا منتہاے مقصود قرار دیے ہوئے ہے ۔ مگر اللہ کا مؤمن بندہ اپنے خیالات، احساسات، جذبات، خواہشات اور اپنی تمام تر توجہات کا مرکز اپنے رب اور اس کی رضا کو، اپنے پیغمبر اور ان کے بلند اخلاق کواور جنت کے حصول اور جہنم سے بچاؤ کو بناتا ہے ۔ وہ بھی اگرچہ عام لوگوں کی طرح کھاتا کماتا، شادی بیاہ اور دیگر تعلقات کے بندھنوں میں بندھا ہوتا، والدین، آل اولاد اور خاندان و سوسائٹی کے حقوق ادا کرتا اور زندگی اور دنیا کی ساری سرگرمیوں میں شریک و شامل ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کے دل و دماغ اور اس کے شعور و جذبات میں اپنے پرودگار کی یادیں ، اسے راضی کر لینے کی امنگیں ، اپنے نبی کے اسوے کو اپنی زندگی میں اختیار کرنے کی پرزور تمنائیں ، دنیوی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنے دینی فرائض بجالانے کی تڑ پ اور جہنم سے بچ کر جنت کی ابدی اور سرمدی بادشاہی کو پالینے کی کوشش و جستجو بسی ہوئی ہوتی ہے ۔ ایسا انسان ایک انسان دوست شخصیت، سب سے پیار کرنے والا، ہر ایک کا خیرخواہ، انصاف پسند، اصول پرست، خوش اخلاق اور روشن و اعلیٰ سیرت کا مالک شخص ہوتا ہے ۔ عہد کا پابند، قول کا سچا، امین، راستباز، قابلِ اعتماد، مخلص، وفاشعار، بہادر اور صاف شفاف شخصیت۔ اور اسی حسین و جمیل پیکر کا نام ہے مؤمن انسان۔ |
|
isfi22
PAKISTAN
|
Posted - Monday, May 24, 2010 - 9:28 AM
اسلام امن و سلامتی کا دین
اسلامی تاریخ کے بڑ ے بڑ ے اور نمایاں واقعات پر ایک سرسری نگاہ ڈالیے تو آپ پورے 13 برس تک پیغمبرِ اسلام کے مکہ میں ہر طرح کی تکلیفوں اور اذیتوں پر صبر کرتے ہوئے پرامن طریقے سے دین کی دعوت دینے کے مناظر دیکھیں گے ، فتحِ مکہ کے موقع پر جانی دشمنوں ، سالوں تک اذیت پہنچانے والوں اور عزیزوں اور محبوبوں کے قاتلوں کو اللہ کے رسول کی طرف سے معافی ملتے دیکھیں گے ، صلحِ حدیبیہ کے موقع پر ’وقفۂ امن‘ حاصل کرنے کے لیے یک طرفہ شرائط پر صلح نامے پر خدا کے رسول کو دستخط کرتے دیکھیں گے ، بعثت کے بعد 23 برس پر پھیلی پیغمبرِ خدا کی زندگی میں بلند اخلاقی اور کریمانہ برتاؤ کی جابجا جھلکیاں جھلملاتی دیکھیں گے ، وغیرہ وغیرہ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ’سرایا‘ اور ’غزوات‘ (جنگیں ) بھی پیش آئیں ، مگر انسانی تاریخ کی دیگر جنگوں میں ہونے والی جان و مال کی ہلاکت و بربادی کی بنسبت اُن میں جان و مال کا اتنا کم نقصان ہوا کہ اِن جنگوں کی نسبت سے انہیں معمولی جھڑ پیں کہنا غالباً ناموزوں نہ ہو گا۔ یہ حقائق واضح طور پر بتاتے ہیں کہ اسلام، دشمنوں کی ایذا رسانیوں پر صبر و اعراض کرنے ، مخالفوں اور دشمنوں پر قابو پا چکنے کے باوجود اُنہیں معاف کر دینے اور ’امن‘ کے حصول کی خاطر بڑ ی سے بڑ ی قربانی دینے اور دیگر ہر طرح کی مصلحتوں کو نظر انداز کر کے ’امن و آشتی‘ کو اولین ترجیح دینے کی تعلیم و ترغیب دیتا ہے ۔ وہ نہ صرف اپنوں کے ساتھ بلکہ غیروں اور پرایوں کے ساتھ بھی بلکہ اس سے بھی آگے بڑ ھ کر بے زبان جانوروں تک کے ساتھ اعلیٰ اور شریفانہ برتاؤ کرنے کی تاکید و تلقین کرتا ہے ۔ اسلام امن و سلامتی، پیار و محبت اور انصاف و انسانیت کا دین ہے ۔ وہ جنگ و قتال اور دنگا و فساد کا دین نہیں ۔ وہ پیار و الفت کا دین ہے وہ نفرت و عداوت کا دین نہیں ۔ پیغمبر اسلام بہترین اخلاق کے مالک تھے ۔ آپ کا اسوہ بہترین اسوہ ہے ۔ آپ عالمین کے لیے رحمت تھے اور آپ کا لایا ہوا دین بھی انسانیت کے لیے رحمت و برکت ہے ۔ وہ انسانوں کو دہشت و خون ریزی اور مصیبت و زحمت کا تحفہ کبھی نہیں دے سکتا۔ اسلام اور پیغمبرِ اسلام کی پوری تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے نہ کہ جنگ و قتال کا دین ہے ۔ |
|