Powered by UITechs
Get password? Username Password
 
 
<< Previous Page
1 2 3 4
Next page >>
Page 2 of 4

  Reply to Topic    Printer Friendly 

AuthorTopic
isfi22

PAKISTAN
Posted - Tuesday, August 17, 2010  -  5:25 AM Reply with quote
محترم آپا/آنٹی جان، آداب۔۔۔۔

بڑی نوازش و کرم نوازی کہ آپ نے یہ فرمایا کہ آپ کو بہرحال کسی حد تک مجھ بے مایہ طالبعلم سے اتفاق و اتحاد ہے، گو کہ موجودہ ابتر و دگرگوں حالات کے پیشِ نظر میرے فارمولے اور نظریے کے مطابق انقلاب و تبدیلی آپ کو بہت دور دکھائی دیتی اور میرے تجویز کردہ لائحۂ عمل پر چلنے کی صورت میں کہیں پچاس یا سو سال میں رونما ہوتی معلوم ہوتی ہے۔ میں عرض کروں گا کہ فارمولا بہرحال درست و کارآمد ہونا چاہیے، چاہے اس کو اپنانے اور زیرِ عمل لانے کے نتیجے میں ایک طویل عرصے تک آپ کو محنت و مشقت اٹھانی اور انتظار کی زحمت جھیلنی پڑے، کیوں کہ نادرست و غیر مفیدِ مطلب طریقہ اپنانے کی صورت میں آپ نہ صرف اپنی محنت و کوشش و قربانی اور وقت و وسائل کا بے تحاشا قیمتی ذخیرہ صَرف و برباد کرتے ہیں بلکہ نادرست و ناموزوں لائحۂ عمل آپ کو آپ کی منزل تک بھی کبھی نہیں پہنچاتا، نہ پچاس سال میں اور نہ سو سال میں۔ بلکہ وہ الٹا آپ کو مایوسی اور ذہنی و نفسیاتی انتشار اور نتیجتاً بیزاری، تشدد، عدمِ رواداری اور جبر و زبردستی کے راستے پر ڈال دیتا ہے۔ اس طرزِ عمل کے نتیجے میں جب آپ اپنے مطلوب تک نہیں پہنچ پاتے اور بار بار جدوجہد فرمانے کے باوجود ناکام و نامراد ہی رہتے ہیں تو آپ کی قوتیں اور صلاحتیں مفلوج ہونا اور آپ کے ذہن و اعصاب پر یاس و غم کی کیفیات بسیرا کرنا شروع کردیتی ہیں۔ آپ کی روح بجھ جاتی اور جذبات اشتعال و انتشار کا شکار بن جاتے ہیں۔ اور اس کا نتیجہ صرف اور صرف غیر متوازن ذہنی کیفیت اور پرتشدد و نامعقول کاروائیوں ہی کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔ میرے زاویۂ نظر اور تجویز کردہ لائحۂ عمل میں گو منزل بہت دور جاکر حاصل ہوتی محسوس ہوتی ہے تاہم وہ ان خرابیوں اور مفاسد سے بہرحال پاک و محفوظ راہ ہے، کیوں کہ اس راہ پر چلنے انسان کو بہرکیف یہ اطمینان رہتا ہے کہ وہ درست سمت میں پیش قدمی کررہا اور جانبِِ منزل قدم دو قدم ہی سہی، تاہم مستقلاً بڑھ رہا ہے۔ مزید یہ کہ تبدیلی، تغیر اور انقلاب وہی دیرپا، کارآمد، مفید نتائج و ثمرات کا حامل اور صدیوں تک آنے والی نسلوں کو فیضیاب کرنے والا ہوتا ہے جو تدریجاً آئے اور آہستہ آہستہ ظہور کرے۔ اچانک اور یکبارگی آنے والی تبدیلیاں اور انقلابات ایک تو اپنے رونما ہونے کے دورانیے میں بے شمار فتنے اور فسادات سمیٹے ہوتے ہیں۔ دوسرے ان میں استحکام و پائداری مفقود ہوتی ہے اور وہ اپنی حقیقت و ماہیت کے اعتبار سے محض وقتی تماشے اور عارضی ڈرامے ہوتے ہیں۔ ان پہلوؤں کے پیشِ نظر کسی معقول و صاحبِ بصیرت انسان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ کسی سماج و معاشرے میں انقلاب و تبدیلی لانے کے لیے فکری و ذہنی بیداری لانے اور مزاج و عادات کو بدلنے کے کٹھن و طویل راستے کو چھوڑ کر جبر و تشدد اور مسلح جنگ و جہاد کے پر خطر و موجبِ بگاڑ و فساد بظاہر فوری طور پر نتیجہ خیز راستے کو اختیار کرنے کی غلطی کرنے پر کسی بھی حال میں راضی ہوگا۔

جو مظاہر و حالات آپ لوگوں کو زیرِ بحث نقطۂ نظر و لائحۂ عمل کے بارے میں شکوک و شبہات یا الجھنیں اور خدشات لاحق کیے ہوئے ہیں وہ موجودہ حالات ہیں۔ مسلمانوں میں غلبہ پائے ہوئے افکار و نظریات اور مقبول و مروج طریقے اور طرزِ ہائے عمل اور پھر ان سارے عوامل کی مل جل کر پیداکردہ موجود الوقت حالت و کیفیت ہے۔ آپ اسی منظر نامے میں کھڑے ہوکر جب جائزہ لیتے اور غور فرماتے ہیں تو وہ ساری باتیں اور اندیشے آپ کی زبان پر جاری ہوجاتے ہیں جن کی طرف آپ جیسے لوگ بار بار اشارہ فرماتے اور انہیں بنیاد بناکر ایک درست فارمولے اور صحیح راہِ عمل سے کتراتے ہیں۔ لیکن آپ لوگ ماضی میں ابتدائے دورِ محمدی کی جانب نظرِ التفات نہیں فرماتے۔ اس وقت بھی شرک اور مشرکانہ روایات اور مشرکین کا ہر ہر شعبۂ زندگی پر غلبہ و تسلط جیسے مسائل اور رکاوٹیں موجود تھے۔ شاید ہم سے بہت ہی زیادہ خراب و خستہ حالات تھے، لیکن اس سب کے باوجود جب اذہان کو خدا کی بندگی، انسانیت دوستی و ہمدردی اور آخرت ترسی کے خیالات سے مفتوح و مغلوب اور دلوں کو صلاح و سنوار و پاکیزگی کی جانب مائل و منعطف کیا گیا تو تھوڑے ہی عرصے میں سماجی و معاشرتی پیمانے پر اس کے نہایت مفید و مؤثر نتائج و اثرات مرتب ہوئے اور حضور اور آپ کے اصحاب کی کوششوں سے جو تبدیلی اور انقلاب آیا اس کے اثرات کئی صدیوں تک اس امت کو مالامال و نہال کیے رہے اور ہزار سال تک یہ امت ایک شاندار تہذیب و اقتدار اور نہایت غیرمعمولی شان و شوکت اور عظمت و رفعت کی حامل و مالک بنی رہی۔ ہمارے حال کے منظر نامے میں گو مسلمانوں کے مسخ شدہ دینی و مذہبی افکار اور ان کے پیدا کردہ سیاسی و انقلابی و جہادی فکر و نظریے کے غلبے اور ان کی اپنے ان پرتشدد و اقتدار پسندانہ نظریات کے حصول میں وضع کی گئی سرگرمیوں اور کاروائیوں کے بنائے ہوئے ماحول و حالات میں مذکورہ پرامن و صابرانہ اپروچ کو اپنانے اور فکری و قلبی تبدیلی لانے کے طویل و پر انتظار طریقے پر چلنے میں بہت سی رکاوٹیں، مشکلات اور آزمائشیں موجود ہیں، تاہم جب ہم عقلی و ذہنی طور پر اس بات پر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ درست راستہ، مفید طریقہ اور نتیجہ خیزی کے اعتبار سے موزوں و مناسب لائحۂ عمل یہی ہے تو پھر ہمیں پرانی لکیروں کو پیٹنےکا طریقہ ترک کرنا ہوگا، اپنے بھائی بندوں کے طعنوں اور نشتروں کا ہدف بننے کے لیے تیار ہونا ہوگا اور لمبی اور طویل صبر و انتظار آزما مشقت و جدوجہد کے قربانیوں بھرے راستے ہی کو دل و جان سے اپنانا ہوگا۔

آپ نے درست فرمایا کہ غربت و جہالت نے ہمارے عام آدمی کو اس وقت استحصال پسند افراد و طبقات کے ہاتھوں میں کھلونا بنا چھوڑا ہے، چاہے یہ استحصال پسند لوگ جمہوریت کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہوں یا مذہب کے علم بردار و خدمت گار کا روپ ڈھارے ہوئے ہوں۔ یہ صورتحال بھی اسی بات کی متقاضی ہے کہ ہم عام لوگوں کو بھی دین و دنیا کے حوالے سے بیدار و متنبہ کریں۔ ان کے فکر و ذہن کو علم و تربیت اور رہنمائی فراہم کریں۔ ان کے اندر بھی عالی دماغی، بلند سوچ، تنقید و تجزیہ کی صلاحیت اور مسائل و معاملات پر غور و فکر کرنے اور ان کے حوالے سے اپنی کوئی راے وٖضع کرنے جیسی روایات پروان چڑھائیں۔ کامن مین کو بھی خود احتسابی اور اخلاقی اقدار کی بحالی کے حوالے سے حساس و متحرک بنائیں۔ اسے اختلاف کرنے اور اختلاف کو برداشت کرکے جینے کا حوصلہ فراہم کریں۔ اسے تحقیق اور مطالعے کا خوگر بنائیں۔ اس میں برداشت، بلند نگہی اور امن پسندی جیسی خوبیاں راسخ کرنے کی کوشش کریں۔ دین و مذہب سے تعلق جو ایک بے روح و بے جان و بے اثر و بے فیض رابطے کی شکل میں ڈھل گیا ہے، اسے شعوری اور مستحکم دینداری میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ دینی معتقدات اوہام سے اٹھ کر روزمرہ کی زندہ حقیقتیں اور انسانی فکر و مزاج کی تشکیل کے بنیادی عوامل اور انسان کے حرکت و عمل کے اصل محرکات بن جائیں۔ خدا سے ربط و رشتہ زندہ و جاندار وابستگی اور اس سے زندگی کی ہر ہر کروٹ میں فریاد و استفادے کی سطح تک بلند ہوجائے۔ دین و مذہب کے حوالے سے مذکورہ خرابیاں اور تقلید و اندھی پیروی جیسے رویے بھی اسی بات کا شدت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ لوگوں کو دینی حوالے سے تعلیم یافتہ بنانے پر زور دیا جائے۔ انہیں براہِ راست دینی مأخذ سے ربط میں لایا جائے اور دین کے صحیح تصورات و افکار سے انہیں شناسا اور واقف بنایا جائے۔ دین و دنیا کے حوالے سے علمی و ذہنی بیدار ہی ان کے حوالے سے غلط رویوں اور بگاڑ زدہ طریقوں میں تبدیلی کا باعث بنے گی۔ اس کے علاوہ اگر آپ چاہیں کہ جس طرح دوسرے فریب کاری، روحانی تقدس، مذہبی پیشوائی یا خاندانی و برادری کی سیادت و اقتدار جیسے ہتھکنڈوں سے پبلک کو اپنے پیچھے چلاتے اور انہیں گمراہیوں اور انحرافات کی دلدل میں پھنسائے رکھتے ہیں، آپ بھی اسی طرح کے ذرائع سے انہیں درست راستے اور صحیح شاہراہ پر لے آئیں تو یہ آپ کی بھول ہے۔ اس معاملے میں راست و مؤثر ذریعہ صرف یہ ہے کہ لوگوں کو بیدار و باخبر کیجیے۔ انہیں صحیح باتوں سے آگاہ کیجیے اور جو خرابیاں ان کے علم و عمل اور کردار و سیرت کا احاطہ کیے ہوئے ہیں ان کی غلطی و خامی ان پر واشگاف و واضح کیجیے۔ یہی ذہنی بیداری و باخبری لوگوں میں اصلاح و تبدیلی کا احساس جگائے گی اور یہ احساس جتنا مضبوط و مستحکم ہوتا جائے گا، انقلاب و تبدیلی اتنی ہی ان کے دل و دماغ، اخلاق و کردار اور ماحول و معاشرے میں نفوذ کرتی چلی جائے گی۔ انسان نے آخرت میں انفرادی طور پر ہی خدا کے سامنے جوابدہ ہونا ہے۔ اس کی بہترین خیرخواہی یہ ہے کہ اسے انفرادی اصلاح و درستی کی راہ پر گامزن کردیا جائے۔ اس کی ذہنیت، نفسیات اور اخلاق و کردار کو مثبت و صالح بنیادوں پر استوار کردیا جائے۔ جب آپ اس سوچ و نشانے کے ساتھ معاشرے میں اصلاحی تحریک کا آغاز کرتے ہیں تو لوگ فرداً فرداً سنورنا اور اصلاح پذیر ہونا شروع ہوتے ہیں اور جیسے جیسے اس ذہن و کردار اور معیار و مزاج کے لوگ معاشرے میں غالب اکثریت حاصل کرتے جاتے ہیں ویسے ویسے وہ معاشرہ بھی سدھرنا، سنورنا اور جنتی فضاؤں کی آماجگاہ بننا شروع ہوجاتا ہے۔ آپ خود صالح اور با اخلاق و کردار بنیے اور دوسروں کو بھی صالح بننے کا درس و پیغام ساری زندگی دیتے رہنا اپنا مشن بنالیجیے، اس سے آپ کی آخرت بھی سنورے گی، خدا بھی آپ سے راضی ہوگا، آپ اپنے خالق، پیغمبر اور دین کے حقوق ادا کرنے میں بھی کامیاب ہوں گے اور آپ کا اردگرد، خاندان، معاشرہ، قوم اور اجتماعی و اداراتی ڈھانچہ و سسٹم بھی امن و سکون اور چین و آشتی اور صالحیت و اخلاقِ محمودہ کے سائے میں آتا چلا جائے گا۔ یہ راہ و طریق گو طویل المیعاد اور بہت انتظار آزما سہی، تاہم تبدیلی لانے اور کسی سماج کو فلاح یافتہ اور اصلاح پذیر بنانے کے لیے واحد صحیح لائحۂ عمل ہے۔
safimera

CANADA
Posted - Tuesday, August 17, 2010  -  7:16 AM Reply with quote
isfi22===> salam....it is good that your father is getting well day by day....

about flood victims also we should pray and donate money as much as possible....
but not to the Govt. and UN organization.....they are less reliable....
Edhi, doctors without borders or ZINDAGI TRUST (SHEZAD ROY) LIKE ORGANIZATIONS ARE more reliable.....

May God help them......

now my dear brother ...first of all as saba2 said, you are great in writing and too much writing....as poet said

"aik phool ka mazmoon ho toh sow(100) rang se bandhoon"

u r really good......

but this is fast burger life....we need to say little with big meaning...people have no time for detail......

but before we convince all nation....we have to convince our point to each other first.

me and saba2 said that what u are saying is very very very good but it is not possible soon or nearly impossible provided the rigid and intolerant mental level of the nation....

but we can hope and we should hope for the best....and God can do anything....

then to my surprise you are upset with us what we never said:

"woh baat jis ka saray fasanay mein zikr na tha;
woh baat un ko bari nagawar guzri hai"

WHERE WE SAID THAT YOUR MODEL OF INQALAB IS WRONG???

SEE BELOW MY EARLIER COMMENTS:


quote:

but it is true that what isfi22 is saying..... it could not happen, may be, in thousands years....





quote:

but I agree, we should have an IDEAL strategy in our mind and in our dreams if we want it in reality even 50% of it .


quote:

and we should continue to try close to ideal system....wheather we would win or not in this world....we would definitely win by the grace of GOD, in akhirah anyway, individually


THEN by responding to saba2 comments I said:

quote:

if it is revolution like Mr isfi22 mentioned...I love to be wrong....but I also do not see it coming!!!!!!!!!!


See!! we did not say your model is wrong....we said it might take a century or almost impossible....

Yes !! u asked reasons....

the reasons are "1)rigid, stubborn and taqleedi mind and 2) intolerance.

ok now I would give you 1 month or 2 months or whatever time you want....

and youselect 2 kind of persons from your surrounding or family or friends :
one is believer of sufism
and other is believer of shiaism.

you start your convincing inqalab with them....and if you would succeed to change their ideas ....I would agree with you for your inqalab that it may come SOOOOOOOOON.....
otherwise not......

LET ME TELL YOU WHAT THEY WOULD DO WITH YOU.....
1) they may get angry with you and no more further discussion.
2) they may listen to you and then on your first sitting with him, he may agree with your points and then he would go to his scholars and recharged from scholars, then he would defend his case with different books and different hadees....
then you could not deny his books and hadees because he would say that my books of references are authentic, my hadees are authentic..how dare you consider them as bunch of lies....then he again would get angry with you and discussion is over.....

you r, i think, 14 or 15 yrs younger than me...(u r 24 what i recall???)

I have experienced such model of yours myself many times.....

now I challenge you to do the same , I wish you would get successful.

so start from today.....
I will trust you if you would tell me that you have changed one sufi-oriented or a shia guy into the right path....


GOD KNOWS BETTER

Edited by: safimera on Tuesday, August 17, 2010 7:20 AM
isfi22

PAKISTAN
Posted - Wednesday, August 18, 2010  -  7:17 AM Reply with quote
برادرم سیفے میرا، آداب و تسلیمات و احترامات۔۔۔۔۔۔۔

آپ کے ارشادات کے جواب میں ادب و اکرام کے ساتھ ذیل کی گزارشات پیشِ خدمت ہیں۔۔۔۔۔۔۔

طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے متأثرہ افراد و خاندان نہ صرف پاکستان کے تمام رہنے والوں بلکہ دنیا بھر کے انسانی ہمدردی و غمگساری کے جذبات رکھنے والے انسانوں کے تعاون و دعاگوئی اور مدد و ہمدردی کے مستحق ہیں۔ کوئی بھی انسانی آفت ہو۔۔۔۔۔ زلزلہ، سیلاب، دہشت گردی کا سانحہ، جنگی حادثہ، وبائی امراض وغیرہ، ان کا شکار بننے والے عام انسان ہر طرح کی ہمدردی، تعاون اور غمگساری کے مستحق ہوجاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر ہر فرد اور طبقے کو اپنی بساط و استطاعت بھر تعاون و نصرت کرنی چاہیے۔ مالی، اخلاقی، جانی، وقتی، طبی، سہولیاتی، ماحولیاتی، جذباتی، آبادکاری اور اشیاے خور و نوش وغیرہ جیسی بنیادی ضروریات کی ترسیل کی مختلف شکلوں میں۔ الحمد للہ پاکستانی قوم گو کہ موجودہ عالمی معیارات پر اپنے معیشت و سیاست جیسے نظاموں کو استوار کرنے اور دنیا کی مؤثر و طاقتور قوموں کی صف میں ممتاز و نمایاں جگہ پانے میں کامیاب نہ ہوسکی، کیوں کہ اسے مخلص و وفادار و بے غرض و انسانیت دوست لیڈران و قیادت نصیب نہ ہوسکے، تاہم ان میں جذبۂ حب الوطنی اور انسانی ہمدردی و خیرخواہی جیسی خصوصیات قابلِ رشک و فخر حالت میں موجود ہیں۔ گرچہ عالمی طور پر غالب فلسفوں اور طریقۂ ہائے حیات کے عمومی اثرات نے پاکستانی مسلمانوں کو بھی اپنی انفرادی زندگی میں خود غرض، مفاد پرست، بے حس، ذاتی خول کا رسیا اور قومی و اجتماعی مقاصد و مفادات کو اہمیت دینے سے عاری بنارکھا ہے، تاہم آسمانی و زمینی آفت کی تباہ کاریوں اور قوم و افرادِ قوم کے کسی بڑی مصیبت و آفت میں مبتلا ہوجانے کی صورت میں ان کی حب الوطنی اور انسانیت دوستی کسی ثبوت کی محتاج نہیں رہتی اور ایسے مواقع پر ان کے اندر کا سویا ہوا شریف و نیکوکار انسان ایکدم سے جاگ اٹھتا اور متحرک و فعال بن جاتا ہے۔ میری دلی آرزو اور دعا ہے کہ خدا اس اچھے، سیدھے سادھے اور انسانیت، بے لوثی، قربانی، ایثار، بلند ہمتی، حوصلہ مندی، ہمدردی و خیرخواہی اور انسانیت سے مالا مال انسان کو ہر ہر پاکستانی اور دوسرے انسانوں کے اندر سدا کے لیے جگا دے اور سرگرم کردے، آمین۔

دورِ رواں اور حیاتِ موجودہ کی طوفانی تیزرفتاریوں اور زلزلہ خیز اختصار و اشارہ پسندیوں سے میں بھی کسی حد تک واقف و باخبر ہوں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ انسان اپنے جذبات و احساسات اور انسانی حادثات و واقعات کے بیان و تذکرے میں بھی اتنا اختصار پسند و اشارہ باز ہوجائے کہ ساری داستان الاپ لینے کے بعد بھی اسے یہ محسوس ہو کہ شاید اس داستان کا حق ادا نہیں ہوسکا اور اس کے فلاں فلاں اہم و کلیدی حصے زیرِ ذکر آنے سے رہ گئے۔ ویسے بھی حکیمانہ ارشادات اور دریا کو کوزے میں سمیٹ لینے والے مختصر جملے دریافت و تحریر کرپانا میرے جیسے ناکارہ و اناڑی لکھاڑی کے بس کا روگ نہیں ہے۔ ہم تو ادائے مطلب و مدعا کے لیے مجبور ہیں کہ طول بیانی اور کثرتِ تحریر سے اچھی خاصی طرح کام لیں۔ یقیناً لوگوں اور ہمارے پاس وقت کم ہے لیکن یہ کوئی خوبی اور کمال کی بات نہیں ہے کہ آج لوگوں کی، دنیا اور اس کی سرگرمیوں اور معاملات کے ساتھ دلچسپی و حساسیت اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ ان کے پاس دینی موضوعات پر سر دھننے اور مفید و تخلیقی سرگرمیوں میں لگانے کے لیے بہت ہی کم اور مختصر وقت رہ گیا ہے۔ یہ کوئی قابلِ اطمینان کیفیت نہیں ہے بلکہ یہ خدا و آخرت، موت و قیامت اور زندگی کے زیادہ بڑے اور گہرے حقائق کے معاملے میں لوگوں کی بے اعتنائی، غفلت، بے حسی اور مردہ جذباتی کی دلیل اور نہایت قابلِ افسوس و تشویشناک حالت و واقعہ ہے۔

آپ جب کسی کو خیالی فلسفے نشر کرنے اور ناممکن الوقوع پلانز پیش کرنے والا کہتے ہیں یا اس کے منصوبے کے بارے میں یہ فیصلہ دیتے ہیں کہ یہ سرے سے قابلِ عمل ہی نہیں ہے یا ہے تو اس کے بارے میں یہ کہنا بالکل غیریقینی ہے کہ یہ اتنے اور اتنے عرصے اور آدھی یا پوری ایک صدی میں بھی نتیجہ خیز ہوسکے گا، اس بیان میں اور اس کے خیالات کو نادرست و غلط ٹھہرانے میں کوئی خاص فرق و فاصلہ باقی نہیں رہ جاتا۔ انقلاب کے حوالے سے میرے نظریات اور سماج و سوسائٹی میں تبدیلی رونما کرنے کے حوالے سے میرے پیش کردہ لائحۂ عمل کو آپ موجودہ حالات میں جبکہ لوگ بے دلیل تقلید اور اندھی پیروی کے خوگر ہیں، نئے خیالات اور اپنے سے مختلف افکار و تحقیقات کے لیے اپنے اندر بالکل بھی تحمل و برداشت نہیں رکھتے اور اپنے ذہنی رویے کے پہلو سے نہایت ہی فرسودہ اور گرے ہوئے مقام و سطح پر جی رہے ہیں، خیالی جنت کی نقشہ گری یا تصوراتی کوہ قاف کی افسانہ طرازی یا رومانوی پرستان کی داستان سرائی قرار دیتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جس کے حوالے سے میں نے آپ کو توجہ دلائی تھی کہ موجودہ حالت و کیفیت میں کھڑے ہوکر جب آپ میرے پیش کردہ خیالات کا جائزہ لیتے ہیں تو آپ کو ان کے حوالے سے سوائے یاس و تاریکی کے، روشنی کی ایک بھی کرن و جھلک نظر نہیں آتی۔ لیکن اگر آپ ماضی کی داستانوں اور تاریخ کے حقیقی قصوں اور خود اللہ کے جلیل القدر پیغمبروں کی زندگیوں کی روشنی میں ان باتوں کا مطالعہ فرمائیں گے تو آپ کو یہی نظر آئے گا کہ انسانیت کے سفر میں جو بڑی بڑی تبدیلیاں اور دور رس اثرات و تغیرات کے حامل واقعات پیش آئے ہیں، ان کی ابتدا میں کوئی تازہ فکر و فلسفہ ہوتا تھا جو اس دور و علاقے کے لوگوں کے دل و دماغ میں گھر کرتا اور انہیں اپنا گرویدہ و معتقد بناتا اور آہستہ آہستہ ان کے وجود کے رگ و پے میں اتنا گہرا اتر جاتا تھا کہ پھر ان کے سماج میں کسی اور نظریے کا چھائے اور طاقت و اقتدار پر قبضہ جمائے موجود رہنا محال و ناممکن ہوجاتا تھا۔ جب لوگوں کے دل اور دماغ اور ارواح مفتوح و مغلوب ہوجاتے اور وہ فکر و فلسفہ ان کے لیے سب سے زیادہ مؤثر و مہمیز محرک بن جاتا تو آپ سے آپ ان کے اجتماعی ماحول و نظام اور ادارات میں وہ جلوہ گر ہوتا اور اسی کا قانون اور دستور اس سوسائٹی میں رائج و نافذ اور معمول بہ بنتا چلا جاتا۔ خدا کے جلیل القدر رسولوں کی طرف آئیے، یہ بلند و پاکیزہ ہستیاں گھپ اندھیروں میں اپنے حصے کا چراغ جلاکر سرِ راہ کھڑے ہوجاتے تھے۔ شرک و اوہام اور کفر و ضلات کی وادیوں میں سرگرداں لوگوں کو توحید و بندگی اور آخرت کی زندگی کی حقیقتوں سے شناسا بناکر ان کے تن من میں اجالا کرتے تھے۔ ان کی دعوت و تربیت جب لوگوں میں خدا پرستی، آخرت ترسی، اخلاقی پاکیزگی جیسی بنیادی چیزوں کا شعور راسخ کرتی اور ان کے عمل کو انہی اساسات پر استوار کردیتی تو پھر ان کے ہاں بھی فطری و تدریجی طریقے سے خداپرستانہ ماحول و نظام ابھرنا اور اپنے اطراف و اکناف کا احاطہ کرنا شروع کردیتا تھا، تاآنکہ ان کی اجتماعیت اسلامی شریعت و قانون کے تابع آجاتی اور وہاں خدا کا قانون اور اس کے دین کے زیرِ اثر تہذیب و تمدن جاری و رواں ہوجاتے۔

اِس وقت ہوا یہ ہے کہ ایک لمبے عرصے سے مسلمانوں کے افکار و نظریات بگاڑ و انحراف کا شکار اور ان کی سرگرمیاں اسلامی دعوت کے بجائے دوسرے دوسرے عنوانات و موضوعات کی تفسیر بنی ہوئی ہیں۔ اس وقت جو فکر مسلمانوں کے مابین سب سے زیادہ مشہور و مقبول اور جو تحریک و سرگرمی ان کے ہاں سب سے بڑی اور نمایاں عملی حقیقت بنی ہوئی ہے وہ جنگ و جہاد اور تشدد و قتال پسندی کی سوچ اور طرزِ عمل ہے۔ مسلمان اپنے منحرف مفکرین اور ناعاقبت اندیش و بے بصیرت رہنماؤں کے زیرِ اثر ساری دنیا کے غیر مسلموں کو اپنا دشمن و حریف سمجھتے اور ان سے بے شمار طرح کے قلمی، لسانی، عملی اور سیاسی تنازعات کھڑے کیے ہوئے ہیں۔ وہ سارے انسانوں سے محبت کرنے کی اسلامی تعلیم و روش کو ترک کرکے الٹا ان سے بغض و نفرت اور عناد و عداوت کے جذبات کا شکار بنے ہوئے ہیں۔ اس وقت مجموعی طور پر مسلم فکر و عمل اسلام کے بالکل برخلاف و برعکس شکل و حالت اختیار کیے ہوئے ہے۔ اس تناظر میں کھڑے ہوکر دیکھنے اور غور و فکر کرنے والے کو پرامن فکری جدوجہد اور ذہنی بیداری و قلبی تبدیلی لانے کی جدوجہد کی بات بڑی اوپری اوپری اور افسانہ پسندی و فلسفیانہ خیال طرازی معلوم و محسوس ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کا موجودہ فکر و عمل گہرے طور پر اصلاح و تصحیح کا متقاضی ہے۔ اسلام جہاد و جدال کا دین نہیں بلکہ امن و محبت کا دین ہے۔ وہ زور زبردستی لوگوں پر ٹھونسا نہیں جاتا بلکہ اپنی تعلیمات و خصوصیات سے ان کے دل، دماغ، روح اور جذبات کو مغلوب کرکے ان کی زندگی میں اپنی جگہ بناتا ہے۔ وہ لوگوں سے نفرت کرنا نہیں بلکہ پیار و ہمدردی کرنا سکھاتا ہے۔ وہ غیرمسلموں کو مسلمانوں کا حریف و رقیب نہیں ٹھہراتا بلکہ انہیں مسلمانوں کا مدعو اور ان کی خیرخواہی کا مستحق قرار دیتا ہے۔ وہ اندھا دھند کسی کے پیچھے چل پڑنے کی تربیت نہیں دیتا بلکہ انسان کی فطری و عقلی اسلوب میں تربیت کرکے اسے عقلی و استدلالی انداز میں باتوں پر غور کرنے، ان کا جائزہ لینے، ان کا تجزیہ کرنے اور دلائل و شواہد کی بنیاد پر مختلف آرا کے باب میں رد و قبول کا عادی بناتا ہے۔ یہی وہ باتیں اور روایات ہیں جو آج مسلمانوں نے نظر انداز کردی ہیں۔ یہی وہ اصول، رویے اور خیالات ہیں جن کا آج مسلمانوں کے ہاں چلن و رواج ختم ہوگیا ہے۔ انہی اسلامی تعلیمات اور مؤمنانہ روایات کو ہمیں زندہ کرنا اور مسلمانوں کے فکر و عمل کا مرکزی حصہ بنانا ہے۔ فکر و عمل کو ازسرِ نو اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر تشکیلِ نو دینے کا یہی وہ کام ہے جو ہمیں اپنی اپنی استطاعت و صلاحیت کے بقدر پوری تندہی، لگن اور محنت سے انجام دینا ہے۔ اسی سے مسلمانوں کے ذہن و کردار میں تبدیلی اور انقلاب آئے گا۔ ہمیں انہیں جہاں عمومی عالمی لہر کے دنیاپرستانہ و مفادپرورانہ اثرات سے بچانا ہے وہیں انہیں اسلام کے نام پر پھیلے ہوئے غلط و کج افکار و معمولات کے دائرے سے بھی دور لے جانا ہے۔ فکر و عمل کی تصحیح اور ازسرِ نو اسلامی اساسات پر تعمیرِ نو کا یہ مشن ہی آج ہر ہر مسلمان کا دینی مشن ہونا چاہیے۔ اسی کے لیے اسے سونا جاگنا، کھانا پینا اور مرنا اور جینا چاہیے۔ اس کی تمام سعی و کاوش اور محنت و قربانی کا مرجع یہی کام و میدان ہونا چاہیے۔ جب اسلام و ملت کا درد رکھنے والے بہت سے مسلمان انفرادی و اجتماعی طور پر ان باتوں کی قدر و اہمیت سے آشنا ہوکر اس مشن کو ایک عمومی تحریک بنادیں گے تو پھر اسلام کے مسلمانوں کے فکر و عمل میں پوری آب و تاب سے جلوہ گر ہونے اور مسلمانوں کے معاشروں میں اسلامی قانون و شریعت کے نفاذ و رواج کے سلسلے کے بے روک ٹوک جاری ہوجانے کی منزل بھی ہمیں کانوں سے سنائی، آنکھوں سے دکھائی اور واقعہ و حقیقت کی شکل میں جلوہ گر محسوس ہوجائے گی۔

باقی آپ نے مثالوں کی صورت میں مجھے کسی صوفی منش یا شیعہ مسلک مسلمان کو ٹارگٹ کرکے اصل اسلامی تعلیمات کے حوالے سے اسے قائل کرنے اور اپنے کھینچے ہوئے انقلابی نقشے کا حامی و پشت پناہ بنانے کی کوشش کرنے کی جو مشق تجویز کی ہے تو اس سلسلے میں گزارش ہے کہ میں کسی کا مسلک و مشرب تبدیل کرانے کی بات ہی نہیں کررہا بلکہ میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ اس وقت مسلمان بحیثیتِ مجموعی انحراف کی روش پر گامزن ہیں۔ چاہے ان کا تعلق کسی بھی مسلک و مشرب سے ہو۔ ان کی ذہنیت، سوچ، خیالات اور عملی اقدامات جس عمومی مسلم سوچ و تحریک پر مبنی ہیں وہ جہاد و قتال اور جنگ و تشدد کا تصور اور اس کی بنیاد پر وجود میں آنے والے افکار و معمولات ہیں۔ آج کا مسلمان یہ خیال کرتا ہے کہ ہمیں تبلیغ و تلقین اور تعلیم و تربیت کے بجائے ڈنڈے، کوڑے اور گولی اور بم کی نوک پر لوگوں سے اپنی بات منوانی اور انہیں اپنے نقطۂ نظر کا قائل بنانا ہے۔ ہمیں تشدد، زور، جبر و اکراہ اور طاقت کے بل بوتے پر اسلامی شریعت و قانون کو سوسائٹی میں جاری و نافذ کرنا ہے۔ میرے خیالات بنیادی طور پر اس سوچ و ذہنیت کی تردید تھے۔ میں یہ واضح کرنا چاہتا تھا کہ بحیثیتِ مسلمان کسی معاشرے میں اسلامی تبدیلی لانے اور اسلام کے قانون و شریعت کو رواج دینے کے لیے ہمارا ہتھیار و ذریعہ جبر و تشدد نہیں بلکہ تعلیم و تربیت، نصیحت و فہمائش اور تبلیغ و تلقین ہونا چاہیے اور ہمیں لوگوں کے افکار و مزاج اور ان کے عادات و طبیعت کی اصلاح و تربیت کرکے ہی انہیں اسلام کے ماتحت لانے اور سوسائٹی میں اسلام کو ایک زندہ عملی حقیقت اور جاری و ساری واقعہ بنانے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ باقی کسی صوفی یا شیعہ مسلمان سے اس کا مسلک تبدیل کراکے اسے اپنی پسند و چاہت کے کسی مسلک سے پیوستہ کرنے سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور ان کے اختلافات کو اگر وہ حدود و آداب آشنا ہوسکیں تو میں کوئی بہت زیادہ ضرر رساں اور خطرناک بھی نہیں سمجھتا۔ نقطۂ نظر کے اختلافات حوصلہ مند اور دوسروں کی رائے کا معقول احترام کرنے والے اور دلائل و شواہد کو شخصی و مسلکی تعصبات پر فوقیت دینے والے لوگوں ہی کو زیب دیتے اور انہی کے ہاں پیدا ہوکر ترقی اور نئی علمی و فکری جہتوں کی دریافت کا باعث بنتے ہیں۔ چھوٹے ظرف کے لوگوں اور پچھلوں کی لکیریں پیٹنے والوں اور اختلاف کو نفرت و دشمنی کی علامت گرداننے والوں کے اختلافات کو مٹانا یا مٹانے کی کوشش کرنا پتھر سے سر ٹکرانے اور تپتے صحرا سے میٹھے پانی کی آس لگانے کے مترادف ہے۔ میں کم از کم ان حماقتوں کے لیے اپنے اندر کوئی رغبت و میلان نہیں پاتا۔

امید ہے کہ بات کچھ مزید واضح ہوئی ہوگی اور میری گزارش ہے کہ اگر ناقدین میرے انقلابی ماڈل کو موجودہ حالات میں بہت ہی زیادہ وقت طلب یا قریب قریب ناممکن العمل سمجھتے ہیں تو براہِ مہربانی خالی اس طرح کے تبصرے رقم فرمانے اور میرے آئڈیلسٹ ہونے کے فیصلے سنانے کے بجائے اپنی فکری و قلمی صلاحیتوں اور قیمتی فرصتوں کو اپنے فہم و فراست کے مطابق قابلِ عمل انقلابی پروگرام کی شرح و وضاحت فرمانے میں صرف فرمائیں، ان کی یہ عنایت یقیناً ہم حقیر و خطاکر طالبعلموں کے لیے بڑی رہنمائی اور درست راستے تک رسائی کا باعث ہوگی۔
safimera

CANADA
Posted - Wednesday, August 18, 2010  -  8:51 AM Reply with quote
haha....isfi22==> now you HAVE got NARAAZ with me.
ok!! I am taking all my words back which upset you.....lols

but you missed my point again....
I agreed your inqalabi model is very good.....but it could not come soooooon....or impossible in its result or outcome....the successful inqalab..

all tolerant and wise muslims should do in his/her own capacity what you advised in your model.....
but they will do becuase this is must for them.... to answer Allah in Akhirah.....

in this world , he/she would be successful to bring inqalab with such attitude of nation....I do not think SOON it could happen!!!!!,,,

I am doing from time to time what you mentioned in your model within my capacity and in my circle ,....but I am doing it because I think it is my duty and I have to answer Allah in akhirah....you and many people also may have been doing same.....
but practically speaking, I am not seeing that any change would come in next 100 yrs....

I would be happiest guy of the world if God would show me in my life time such glorious days.....God can do anything...

You mentioned ironically that if we may have any alternative in this regard....
so in my humble opinion:
one thing is possible....may be I am wrong....if we all concentrate our efforts on people who have tolerance for the truth and freedom of speech....the European and north american nations.....tolerance and freedom of speech are two very important tools where your model would work very well......

or we can modify your model, a little: first we have to councel or train our nation two things of deen only.....tolerance and freedom of speech.....when majority would learn that then we would tell them other parts of deen...

anyway!!! Good luck for your model and May God help me and you to do something like that....

Edited by: safimera on Wednesday, August 18, 2010 9:14 AM
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Wednesday, August 18, 2010  -  12:22 PM Reply with quote
Salam ' how is your father doing? i hope he is making progress and learning to fight this handicap with strength, our prayers are with him. I am stating some facts here that you only mentioned when posting the topic and explaining revolution as you suggested.


انقلاب مکمل تبدیلی اور کامل تغیر کا نام ہے"
Revolution means a full and complete change in the social order which means a change in lifestle, thinking, value system and goals of

life.

اس طرح جب آپ اپنے فکر و نظریے کی قوت افرادِ سماج کی ایک قابلِ قدر تعداد پر ثابت کر دیتے اور ان کو اپنا ہمنوا و حامی بنالینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں

۔ پھر وہ وقت آتا ہے جب خود افرادِ سماج اس فکر و نظریہ سے بغاوت و انحراف پر مبنی ماحول و نظام کو برداشت کرنے کے روادار نہیں رہتے ا
When you by your strength of philosophy and ideology prove or influence a number of people and have a following then you will

be in a position to make steady changes. For this the advent of Islam and the life of the Holy Prophet is an example for us to study

بلکہ اس کا واحد درست راستہ تعلیم و تربیت اور اسلام کے بنیادی پیغام کی پرامن ذرائع سے فطری و عقلی استدلال کے ساتھ بار بار اور ہر ہر سطح پر پیغام

رسانی ہے

The only correct way to go about this is to educate the masses and spread the basic teaching of Islam.

اس سلسلے میں لوگوں کے خدشات و سوالات کا جواب دینا ہے ۔ معاندین کے اعتراضات و شبہات کو رفع کرنا ہے ۔ اسلامی تعلیمات کی نافعیت و برتری کو

مبرہن کرنا ہے ۔ اور یہ بتانا اور ثابت کرنا ہے کہ اسلام ترقی اور ایڈوانس منٹ کا مخالف نہیں بلکہ رہبر و رہنما ہے ۔ وہ ہر اچھی اور نافع چیز کو اپنانے اور

ہر معقول و مثبت تجربے سے فائدہ اٹھانے کی نہ صرف تلقین کرتا ہے بلکہ پوری پوری حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ اسلام ساری انسانیت کا دین ہے ۔ وہ برتر اور

مسلمہ اخلاقیات کا دین ہے ۔ وہ امن اور پیار و محبت کا دین ہے ۔ اس میں کسی طرح کی زور زبردستی اور فتنہ و فساد کی گنجائش نہیں ہے ۔ وہ ظلم و ستم اور

وحشت و بربریت کا سب سے بڑ ا مخالف ہے ۔ وہ باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے لیے تو بہرحال تیار نہیں ہے لیکن اس کے معاملے میں اس حد تک پوری

طرح رواداری کا قائل ہے کہ اس کے حامی و وارث بھی زندگی کا پورا پورا حق رکھتے اور اپنے مذہب و مراسم کو بجالانے کے لیے پوری طرح آزاد ہیں"۔

What i am saying is the same, the only difference I am not calling it an islamic revolution or visibly trying to improve the society or remove misconceptions of Islam. The reason being for so many years people have being taking the name of Islam and distorting it's teaching so go ahead with education and encourage independent thought , teach good values, manners inculcate tolerance but dont take the name of Islam right now do it in the second phase when these things are there in an individual or society then tell them this is what islam is all about.
This way they have already adapted all the values you suggested and will themselves realize this is what Islam is all about.
foremost has to be education with a thrust towards inquiry,
investigation and difference between good and bad, right and wrong.
Now I am going to scold ,
you dont need to be too sensitive about criticism directed at you, Safimera said everything in all sincerity when the material is too long people are hesitant to read, it certainly does not mean you dont write your thoughts. If you cannot shorten it fine " mager naraz honai ki zaroorat nahi hai."
isfi22

PAKISTAN
Posted - Thursday, August 19, 2010  -  6:41 AM Reply with quote
Salam all and my sincere prayers for all of you....... My father is getting betterment but very slowly. Plz continue praying for him.

Thanks so much for your commentaries, i have read all the matter and points and details. I will InshAllah soon reply you guys.......
safimera

CANADA
Posted - Thursday, August 19, 2010  -  6:01 PM Reply with quote
salam

prayers for your father and flood victims as well...
please also encourage people in your circle about donating to them also.....but also advise them NOT TO DONATE TO GOVT. OR UN ORGANIZATIONs......

let me add further to our existing topic, so you can comment on it all together......

today there is news that 2 boys in sialkot were killed by public by sticks in front of the police......and you know
what happened when benazir killed what mob has done....and many many other stories....
there are many many examples of intolerance in our nation....and this is in our habits which we transfer in our generation.......

your model would not bring an inqalab if there would be no tolerance and freedom of speech.....

now listen to me very carefully:

yes !! your model should be practised by tolerant muslims but the result would be NOT INQALAB......THE RESULT WE WOULD GET:
TO HAVE FEW PERCENTAGE OF PEOPLE WHO WOULD CHANGE THEIR THINKING AND GET MORE REWARDS IN aKHIRAH.......

i REPEAT that: your model is good for few tolerant people who otherwise misguided earlier and now because of your model they would get guidance.....

upto here also, I think this is winning position for your model as you have succeded to bring few people in right path but THIS WILL NOT BRING INQALAB.....

READ THE HISTORY....GOD LEAVEs THOSE NATIONs WHICH LEAVE TOLERANCE AND FREEDOM OF SPEECH.....

WHEN Arabs went to their peak of arab superiority and racism and intolerant of any criticism against them , especailly if it is from NOn Arab....

then GOD did what Iqbal said:
"hey ayaan yoorashey tataar ke afsanay se...
pasban mil ga ay kaabay ko sanam khanay se"

when next generation of changaiz khan became muslim....Osmania and mughals

then what happened when turk(Osmania) were in peak of their intolerance and did oppression on all non-turk (read history books of last century of Osmania, how much Zulm they did on arab and iranian nations)...GOD again left them and during same time other muslims nation were also having in backward and intolerance attitude......
So God gave a non muslims; European nation to rule the world.....read the history that how in early days they were welcome and praised by the common people about their hard-working, principles, discipline , men of words and freedom what those common muslims were not observing in their own rulers and own people.....

then what happened: when these European nations went to their peak in their proudness, social injustices and intolerance quailites.....

GOD brought one nation from NOrth America as USA and made them super power....

read the declaration of independance of USA....it is very near to islamic values...ironically Thomas jefferson who wrote this declaration, always had one copy of Quran at that time, which is still available in congress library....may be He took points from Quran to write it......

Initially USA was famous for its helpful attitude, religous freedom and equal rights......
still in present time it could happen only in America that they selected thier leader an ordinary looking black guy....which was once the symbol of their ancester's slavery.....

In Indo-pak we still fighting for colour and looks EVEN when we go for marriage::::oh SEE! larki hoor aur larka langoor, larki gori aur larka itna kaala, larka is doctor or engineer, so wife should be most beutiful girl etc etc ...still I heard such remarks in different wedding parties ......

anyway, NOW again USA also has started to deviate from its good principles........
so let us see GOD would bring which nation as super power.....

but one thing i am sure : NO NATION WOULD BECOME SUPER POWER UNTIL OR UNLESS THEY HAVE GOOD TOLERANCE AND FREEDOM OF SPEECH......

AND because of that it is my humble opinion that present muslim nation have not much chance that God would select them...
instead ,may be, if European and North american nation would convert into muslim,,they can become the new rulers of the world....like "Tataar"...

haha..you may laugh at my opinion(I allow everybody to laugh)...but I think this is more real possibility than our own present muslim nation....

but yes!!! we have to follow the same model what you mention for both ==>1)our nation and 2) others....continous and persistant convincing and education.....

Sorry! It is a long comment from me which is against my own principle.....but may be I am learning from isfi22.....haha

God knows better....
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Friday, August 20, 2010  -  2:15 PM Reply with quote
Safimera you are so correct but I think Isfendiyar is saying the same thing and I agree with you we should keep trying.
Education, tolerance, independent thought and the ability to discern good from bad.
safimera

CANADA
Posted - Friday, August 20, 2010  -  5:57 PM Reply with quote
saba2===> me also tried to tell isfi22 that he is right and I agree with him .....

we have differences on:

1) but which people should be targeted....and 2) how long it may take.....

the people who do not have tolerance and acceptance of freedom of speech .....you cannot educate them..

and the time period for this model is not SOON.....(according to my speculation)...

God knows better
isfi22

PAKISTAN
Posted - Saturday, August 21, 2010  -  6:44 AM Reply with quote
محترم برادرم و محترمہ آپا صاحبہ، آداب، تحیات اور اکرامات۔۔۔۔۔۔

الحمد للہ میں خیریت سے ہوں اور میرے والد بھی آہستہ آہستہ بہتری و صحت مندی کی جانب رواں دواں ہیں۔ آپ لوگ دعا کریں کہ خدائے کریم جلد از جلد انہیں بھلا چنگا اور اپنے پاؤں پر کھڑا کردے، آمین۔

آپ لوگوں کے جوابات پڑھ کر میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں سب سے پہلے آپ کو جتلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ التجا پیش کروں کہ وہ مجھے بھی وہ حاسۂ نگاہ، ذریعۂ کشفِ خفیہ حقائق اور کسی بھی انسان کے اندرون و باطن میں پیدا ہونے والی جذباتی، نفسیاتی اور تأثراتی واردات کو جان لینے کی خداداد صلاحیت و قوت عطا فرماے جو اُس نے آپ لوگوں کو دے رکھی ہے اور جس کے استعمال ہی کی بدولت آپ کو میری ناراضی و برہمی کا علم و احساس ہوا اور آپ نے مجھے یہ تلقین فرمائی کہ میں آپ کے تبصروں پر ناراض و برہم نہ ہوں بلکہ آپ لوگ بہت حد تک مجھ سے متفق و ہم خیال ہیں لیکن بس میرے انقلابی پروگرام کی تاثیر و نتیجہ خیزی کے حوالے سے کچھ تشویش و خدشات کا شکار ہیں کہ موجود الوقت ماحول اور انسانی طبائع و عادات کے ہوتے وہ ثمر بار بھی ہوسکے گا اور اگر ہوسکے گا تو کتنی طویل اور لمبی مدت میں۔ آپ لوگوں کی نصیحتیں اور تھپکیاں فرمارہی ہیں کہ میں ناراض و نالاں ہوں اور میری تحریر میں اس حوالے سے جذباتی برہمی کے مظاہر جھلک رہے ہیں، حالانکہ مجھے اپنے تن من دھن اور وجود کے پھیلاؤ اور سمٹاؤ اور ذہن و جذبات و نفسیات کے طول و عرض میں کوئی گتھی، سلگ اور برہمی نظر نہیں آتی۔ نہ جانے آپ لوگوں کے پاس وہ کون سا روحانی کمال اور کشفِ خفیہ معلومات کا ہتھیار ہے کہ جس کے ذریعے آپ میرے حوالے سے اُس پراسرار اور خفیہ بات سے باخبر ہوگئے جس سے میں خود لاعلم و ناواقف ہوں۔ واقعی کمال اور لاجواب کارنامہ ہے، میری طرف سے داد و تحسین قبول کیجیے۔ لگتا ہے کہ آئندہ مجھے بھی اپنی تحریروں میں جا بجا سنجیدگی کو بالائے طاق رکھ کر لطیفے شامل کرنے اور ایک دو زوردار و گرجدار قہقہے لگانے پڑیں گے، تبھی آپ لوگوں کو یہ فیل ہوسکے گا کہ میں ناراض و نالاں نہیں تھا بلکہ محض سنجیدگی سے بحث میں پوری طرح محو و مستغرق تھا۔ اگر آپ لوگ نہیں چاہتے کہ میں بھی اس طرح کی تحریری مسخریاں سرانجام دوں تو براہِ کرم میری سنجیدگی اور بحث کے دوران کی محویت کو خوامخواہ ناراضگی و برہمی جیسی چھوٹی باتوں سے ملاکر مجھے واقعتا برہم مت کیجیے۔ میں کوئی ننھا بچہ تھوڑی ہوں جو آپ کے میرے ٹافی یا لولی پومپ جھپٹ لینے پر میں غصہ اور ناراض ہوجاؤں گا اور رو رو کر آپ کو کوسنا اور کھری کھری سنانا شروع ہوجاؤں گا۔ میں ان کیفیات کی سطح پر اترنے سے زیادہ دلچسپی ڈیبیٹ میں سنجیدہ رہنے اور پوری طرح افہام و تفہیم اور ٹھوس استدلال و تشریح کے دائرے میں کھڑے رہ کر بات کرنے سے لیتا ہوں۔

ہمارے اب تک کے مباحثے سے مجھ پر یہ واضح ہوا ہے کہ انقلاب کے موضوع پر اپنے خیالات میں نے جس خاص پس منظر میں بیان کیے تھے، مجھے اسے باقاعدہ طور پر پوری وضاحت کے ساتھ آپ لوگوں کے ساتھ سامنے رکھنا چاہیے تھا۔ میں نے کہیں کہیں اُس پس منظر کا اشاراتی تذکرہ کیا ہے لیکن شاید اس کی پیشکش و وضاحت کا حق ادا نہیں کیا۔ تبھی میری بات اور میرے خیالات کو صحیح تناظر میں سمجھنے میں دقت پیش آرہی ہے اور بہت سے دوسرے موضوعات و عنوانات بار بار درمیان میں چھڑ کر خلطِ مبحث کا منظر پیدا کررہے ہیں۔ لہٰذا میں یہ بتاتا چلوں کہ میں نے اس موضوع پر جو تحریر لکھی تھی اس کا بیک گراؤنڈ مسلمانوں میں پایا جانے والا وہ عمومی رجحان ہے جو ماضی کے بڑے بڑے اسلامی مفکرین کی تحریروں اور لٹریچر نے مسلمانوں میں بہت گہرے اور پختہ طور پر راسخ و رائج کردیا ہے کہ اسلام اصلاً ایک انقلابی و سیاسی نظریہ ہے اور وہ اصلاً فرد کو مخاطب کرنے اور اس کی اصلاح و تربیت و تزئین کرکے اسے آخرت کی ابدی بادشاہی اور جنت کی اقامت گاہ میں رہائش کا مستحق بنانے کے بجائے ایک خاص قسم کا سوشل سسٹم رونما کرنا چاہتا ہے۔ اس کا مزاج و سرشت یہ ہے کہ یہ سوسائٹی میں غالب و مقتدر ہوکر رہے اور اس کا قانون و شریعت سماج پر بالادست اور اس کے نظام میں مکمل طور پر جاری و ساری ہو۔ یہ کام تبلیغ و تلقین، منت سماجت، مطالبے اور احتجاج اور تعلیم و تربیت کے بجائے عملی اقدامات اور جنگی و جہادی سرگرمیوں کا متقاضی ہے۔ ٹھنڈے پیٹوں شیطان کے بندے، نفس کے غلام اور سیکولر طبقات ہمیں اسلامی نظام و شریعت کو کسی سوسائٹی میں روبعمل لانے نہیں دیں گے لہٰذا یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان سے لڑکر اور طاقت و قوت کے ذریعے اقتدار کے مناصب اور حکمرانی و فرمانروائی کے اختیارات سلب کرلیں۔ قیادت و سیادت کا کوڑا اپنے ہاتھ میں لے کر بالجبر اسلامی نظام و قانون کو معاشرے میں جاری کردیں۔ یہ سوچ اور اس کے متعین کردہ مقصد و نصب العین کے حصول کی تگ و دو میں مسلمانوں کی طرف سے کی جانے والی ماضی و حال کی بے شمار سرگرمیاں اصل میں میرے ذہن میں خلش و ارتعاش پیدا کررہی تھیں۔ میں اصلاً اس زاویۂ فکر کو غلط دکھانا اور اس کے بالمقابل فکری و قلبی تبدیلی اور تعلیمی و تربیتی کوششوں کے ذریعے اسلامی تبدیلی لانے اور اسلام کا مخاطب فرد کو اس کی انفرادی حیثیت میں بنانے اور فرد فرد کی اصلاح کو اپنا مشن بنانے کے خیالات کو زیادہ درست و نتیجہ خیز ثابت کرنا چاہتا تھا اور میں نے اس باب و تناظر میں انہیں ہی فوقیت دینے اور ان کی صحت و برتری کو واضح کرنے کی کوشش کی تھی۔

میں اصلاً اسلامی کے معاشرتی ظہور اور سماجی پیمانے پر روبعمل آنے اور اس کے لیے ممکن و مفید لائحۂ عمل کے عنوان پر اپنے خیالات و حاصلاتِ مطالعہ پیش کررہا تھا، لیکن انہیں شاید اسلام کے ایک شخص کی شخصیت میں انفرادی ظہور سے متعلق سمجھ لیا گیا۔ یعنی یہ سمجھا گیا کہ میں اس موضوع پر خامہ فرسائی کررہا ہوں کہ اسلام اپنی تعلیمات و خصوصیات کے ذریعے جب اپنے کسی وابستہ فرد کی زندگی اور کردار و سیرت میں ظہور کرتا ہے تو شخصی اسلامی زندگی کا کیا معیار و نمونہ ہمارے سامنے آتا ہے اور ایک مسلمان فرد کی زندگی میں اسلام فکر و عمل کے کن امتیازات و خصوصیات کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔ حالانکہ میں جس ٹاپک سے متعلق گفتگو کررہا تھا وہ یہ تھا کہ کسی سماج و سوسائٹی میں اسلام یا کسی بھی دوسرے نظریۂ زندگی کو برسرِ عمل لانے اور اس کے اجتماعی ماحول و نظام و سماجی ڈھانچے میں غالب و نافذ کرنے سے متعلق کون سا طرزِ فکر و منہجِ عمل معقول و مفید اور ممکن و نتیجہ خیز ہے۔ ایک طرف پچھلی کئی صدیوں سے مسلمانوں کے بڑے بڑے اور نہایت مشہور و مقبول مفکرین یہ فکر و منصوبہ پیش کرتے چلے آرہے اور بے شمار و اکثر مسلمان اسے درست و صحیح سمجھ کر اپنی سرگرمیوں، کاروائیوں اور کوششوں کی تشکیل و تنظیم کی اساس بنائے ہوئے ہیں کہ اسلام کے ماننے والوں کو چاہیے کہ وہ سیاسی و جہادی اقدامات کے ذریعے معاشرے اور ریاست کے مقتدر و حکمران طبقات کو مغلوب کرکے اقتدار و طاقت کے سرچشموں پر اپنا قبضہ جماکر اقتدار کی طاقت اور ریاست کے زور و دباؤ کے ذریعے یہ مقصد حاصل اور یہ مدعا متشکل کریں۔ ماضی کی قریبی دو تین صدیاں مسلمانوں کی طرف سے اسی فکر کو اپنانے اور اس کی عملی تفسیر کرتے ہوئے بے شمار جہادی اقدامات و تحاریک برپا کرنے اور جان و مال و اسباب کی بے شمار و ناقابلِ اندازہ قربانیاں دینے کی صدیاں رہی ہیں۔ دو تین سو سال سے مسلمان اسی رخ پر گامزن اور اسی میدان میں اپنی ساری قوت و طاقت کے ساتھ برسرِ پیکار ہیں۔ لیکن نہ صرف یہ کہ نظریاتی طور پر یہ فکر و نظریہ اور تدبیر و طریقِ عمل نادرست و ضرررساں اور بے نتیجہ و لاحاصل ثابت ہوچکا ہے بلکہ لمبی مدت تک کی جانے والی بے شمار عملی کاروائیاں، کوششیں اور قربانیاں بے ثمر و بے برگ و بار رہ کر عملی و واقعاتی طور پر یہ پروف کرچکی ہیں کہ اس سیاسی و جہادی فکر و تعبیر میں کجی و انحراف کے علاوہ کچھ بھی موجود نہیں ہے اور یہ کسی بھی سطح اور سکیل پر اپنے خالق مفکرین کے اندازوں اور امیدوں کے مطابق نتیجہ بار ہونے کی صلاحیت و استعداد سے بالکل عاری ہے۔ اس کے بالمقابل جو دوسرا نظریہ کسی سماج و معاشرے میں اسلام کو غالب و برسرِ اقتدار لانے اور سوسائٹی کی اکثریت کے اس کی تابعداری و پیروکاری اختیار کرنے کی بات کرتا ہے وہ وہی تعلیمی و تبلیغی اور فہمائشی و اصلاحی نقطۂ نظر ہے جسے میں نے اپنی کوتاہ استطاعتی کے ساتھ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں واضح کرنے کی حقیر کوشش کی تھی۔

اسلام اصلاً فرد کو اپنے پیشِ نظر رکھتا اور بنیادی طور پر زندگی کی اس خدائی اسکیم کہ وہ ایک امتحان و آزمائش کا وقتی و عارضی وقفہ ہے اور اصل ٹھکانہ و حیات آخرت میں سامنے آئیں گے، کے مطابق اخروی فوز و فلاح ہی کے ٹارگٹ کو انسان کے سامنے نصب العین بناکر رکھتا ہے۔ دنیا میں سماجی و سیاسی اور معاشرتی و اجتماعی سطح پر کس فکر و نظریے کا جھنڈا اونچا رہتا اور کس کا قانون و نظام اپنا بول بالا کرنے میں کامیابی حاصل کرتاہے، یہ بنیادی و اساسی طور پر اسلام کی توجہ اور تعرض کے مسائل و موضوعات سرے سے ہے ہی نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جب اسلام سے تعلق اور اس کی تعلیمات کے زیرِ اثر کسی سماج میں مسلمانوں کی اکثریت اور ریاستی پیمانے پر ان کی خود مختاری کا مرحلہ سامنے آجاتا ہے تو پھر اسلام انہیں اپنی اجتماعی زندگی میں دین داری، خدا پرستی اور آخرت کی فلاح کے نصب العین کو تازہ و زندہ رکھنے کے حوالے سے اجتماعی و معاشرتی تعلیمات و احکامات و ہدایات بھی ضرور دیتا ہے لیکن اس کی ترتیب و مزاج یہ نہیں ہے کہ مسلمان ضرور کسی ملک و سماج میں غالب و مقتدر ہی ہوکر رہیں تاکہ وہ اسلام کے انفرادی قوانین و احکام کے ساتھ ساتھ لازماً اس کے اجتماعی قوانین و ضوابط اور شریعت کی پابندی و پیروی کرسکیں۔ اس معاملے میں اسلام کے مزاج و میلان کو سمجھنے کے لیے ہم انفرادی سطح کی ایک مثال کو اپنے سامنے رکھ سکتے ہیں کہ حج اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن اور زندگی میں ایک بار ہر مسلمان پر فرض ہے لیکن استطاعت کی شرط کے ساتھ۔ اگر کوئی مسلمان ساری زندگی غربت و تنگدستی ہی کی حالت میں گزار دیتا اور کبھی اس بات کی استطاعت و توفیق نہیں پاتا کہ وہ حج کے اخراجات و اسباب مہیا کرسکے تو پھر ایسے شخص پر نظری طور پر حج کے فرض ہونے کے باوجود عملاً اس پر قانونی طور پر حج فرض و لازم نہیں ہوتا اور نہ اس کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ لازماً کسی بھی طرح اسبابِ حج اکٹھا کرکے لازماً فریضۂ حج ضرور ادا کرے، اس کے لیے ارادہ ہونا اور اپنی استعداد بھر کوشش کرنا بہرحال ایک مرغوب و ضروری امر ہے لیکن یہ کوئی لازمی ذمہ داری نہیں ہے کہ انسان ضرور ہی کسی نہ کسی طرح اپنے حالات کو بدلے اور اپنی استطاعت کو بڑھائے اور لازما اسبابِ حج فراہم کرکے مرنے سے پہلے حج ادا کرلے۔ اسی طرح جس اجتماعیت و معاشرت میں مسلمان اقلیت میں ہوں ان پر یہ تو بہرحال ضروری ہے کہ وہ اپنی انفرادی زندگیوں میں اسلامی تعلیمات و قوانین پر عمل پیرا ہوں، اپنے درمیان ان حدود کے اندر اندر ایک تنظیم و اجتماعیت برپا کرنے کی جدوجہد کریں جو انہیں اپنے اوپر غالب و حکمران اجتماعی نظام کے اندر اندر میسر ہوں اور ان حدود میں مل جل کر اسلامی ہدایات ہی پر چلنے کی تگ و دو کریں لیکن یہ ہرگز ضروری نہیں ہے کہ وہ لازماً لڑ مر کر اپنے مقتدر و بالادست طبقات سے طاقت و اقتدار کے مراکز چھیننے اور انہیں اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کریں تاکہ وہ ریاستی پیمانے پر اپنے نظام میں اسلام کو غالب و جاری کرسکیں اور اس کے شریعت و قانون کو عملاً رائج کرنے کی پوزیشن میں آجائیں۔

یہ وہ اصل پس منظر اور مرکزی دائرہ ہے جس کے اندر میں گفتگو کررہا اور اپنے خیالات رقم کررہا تھا۔ میرا مضبوط احساس ہے کہ شاید میری کوتاہ بیانی اور تحریری بے بضاعتی نے معاملے کو اس کے اصل محمل میں سمجھنے میں دقت و رکاوٹ ڈال دی اور میرے ناقدین اس ساری بات کو دوسرے دوسرے زاویوں سے دیکھنے اور اس پر اپنا تبصرہ فرمانے لگے۔ اب میرا گمان ہے کہ شاید اصل بات اپنے صحیح پس منظر اور حدود کے ساتھ واضح ہوگئی ہوگی اور شاید اب اس پر تبصرہ یا نقد کرنا ایک زیادہ واضح معاملہ بن گیا ہوگا۔

یہاں تک تو میں نے پچھلے تبصروں کے حوالے سے اپنی گزارشات پیش کی ہیں، لیکن اسی دوران محترم سیفے میرا بھائی جان نے کچھ مزید ارشادات رقم فرمائے ہیں، جن کے حوالے سے اپنی ناچیز معروضات ذیل میں رقم کررہا ہوں:

سیلاب کے متأثرین سے ہمدردی کرنا اور ان کی امداد کے لیے خود بھی عملاً متحرک و سرگرم ہونا اور اپنے حلقۂ احباب کو بھی اس کاز کے لیے اپنی کوششیں اور معاونت بروئے کار لانے کے لیے اکسانا یقیناً ایسے معاملات ہیں جن پر کسی پاکستانی مسلمان تو کیا کسی بھی انسان کو اشکال و اعتراض نہیں ہوسکتا۔ باقی یہ بات کہ آپ اپنی امداد حکومتی اداروں اور فنڈوں کے حوالے کریں یا یو این تنظیموں کو دیں یا پھر پرائیوٹ این جی اوز یا مختلف افراد و حلقوں کی طرف سے چلائی جانے والی ریلیف کوششوں میں، اس معاملے میں ہر آدمی اپنی معلومات اور نقطۂ نظر کے مطابق ہی عمل کرسکتا ہے۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ موقع پوری طرح مل جل کر کام کرنے اور بڑھ چڑھ کر ایثار و قربانی دینے کا موقع ہے اور اس موقع کے حوالے سے یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ پاکستانی قوم کے افراد و طبقات، فوج اور سیلیبریٹیز میں قوم کا درد، حب الوطنی اور انسانی مدد و ہمدردی کے کافی گہرے جذبات موجود ہیں جو اس نازک وقت میں بہت نمایاں طور پر جاگ اٹھے ہیں اور پوری تندہی سے اپنے آفت زدہ اور مشکل و پریشانی کا شکار بھائیوں کی غمگساری و اعانت میں مصروف ہیں۔ اس موقع پر حکومت اور حکومتی افراد و اداروں کا کردار یقیناً بے حد افسوسناک ہے کہ وہ اپنی گھسی پٹی عادت کے مطابق اس نازک و حساس وقت میں بھی بس ہوائی باتیں کرنے، نعرے نما دعوے فرمانے اور سیاسی و شیطانی بیانات و مذاکرات تک محدود ہیں۔ یہ لوگ یقیناً اس قابل ہیں کہ انہیں سماج کے کوڑا خانے کی بھینٹ چڑھا دیا جائے اور آئندہ آنے والے دنوں میں قوم ان کا زبردست احتساب کرکے انہیں ان کی کوتاہیوں اور غیر ذمہ داریوں اور ہوائی و خیالی لفظ و بیان بازیوں پر سخت سے سخت سزا دے اور انہیں بالکل ہی رد کردے۔

اس کے بعد زیرِ بحث ڈیبیٹ کے حوالے سے سب سے پہلے میں یہ عرض کروں گا کہ اپنی یہ غلط فہمی، اگر وہ آپ کے ذہن میں ہے کہ اسلام سماج و معاشرے میں واقعتا کوئی انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے، دور کرلیں۔ ایسی کوئی بات حقیقت میں نہیں ہے۔ اسلام اصلاً فرد کو مخاطب بناتا اور اسے ہی اس کے اصل مستقر و زندگی، آخرت میں کامیاب و کامران بنانے کا گائیڈ نامہ ہے۔ دنیا میں تبدیلی لانے، سماج میں عدل و انصاف پر مبنی کوئی ریاستی نظام رائج کرنے اور آسمانی قانون و شریعت کو سوسائٹی کے لیول پر روبعمل لانے اور رواج دینے جیسی چیزوں سے اسلام کو اصلاً کوئی براہِ راست دلچسپی نہیں ہے۔ جب وہ یہ کہتا اور بتاتا ہے کہ یہ دنیا ایک عارضی و فانی دنیا ہے اور انسانوں کو یہاں ملنے والی حیات بھی ایک وقتی و عارضی معاملہ ہے۔ انسان کی اصل دنیا اور حقیقی زندگی تو آخرت میں ہے تو پھر عقلی و استدلالی اور اخلاقی طور پر اسے دلچسپی بھی انسان کی حقیقی زندگی یعنی آخرت کے معاملے ہی سے ہونی چاہیے۔ اگر وہ ایک طرف انسان کو دنیا پرستی اور دنیا کے اسباب سے محبت کے بجائے آخرت پروری اور اموال و اسبابِ دنیا کے باب میں استغنا و بے رغبتی کی تلقین و نصیحت کرے اور دوسری طرف انسانوں کی اجتماعیت کی دنیوی خوشحالی کو اس کا نصب العین و مقصدِ حیات متعین کرے تو پھر اس سارے معاملے اور اسلام کے اپنے منظر نامے میں اندرونی تضاد اور داخلی فساد پیدا ہوجاتا ہے۔ ہم نے جو گفتگو شروع کی تھی وہ یہ نہیں تھی کہ سماج میں اسلامی انقلاب لانا دینِ اسلام کی تعلیمات کی رو سے مسلمانوں کا کوئی فریضہ اور مذہبی ڈیوٹی ہے بلکہ اس موضوع کو ہمیں اس لیے زیرِ بحث لانا پڑا کہ ایک لمبے عرصے سے مسلمان مفکرین نے انحراف برتتے ہوئے اسلام کو اس مقام پر لاکھڑا کردیا تھا کہ وہ سماجی پیمانے پر ایک عادلانہ اور فلاحی ریاستی نظام برپا کرنے کی اسکیم و آواز ہے۔ اس کا اصل مطلوب و نشانہ یہ ہے کہ وہ انسانوں کے معاشرے میں غالب و رائج ہوکر رہے اور وہاں کا اجتماعی ماحول و نظام اور ادارات و محکمہ جات سب اسلامی تعلیمات کی اساس پر تشکیل و تعمیر پائیں اور اُس معاشرے میں اسلام ہی کا قانون کارفرما ہو۔ مسلمان ایک لمبے عرصے سے انہی خیالات کے زیرِ اثر جہادی اقدامات اور سیاسی زور آزمائیوں کی وادی میں سرگرداں ہیں۔ میں نے اصلاً اس صورتحال کو ذہن میں رکھ کر یہ بتانا چاہا تھا کہ اسلام اصلاً خدا کا دین اور انسانیت کا ہدایت نامہ ہے۔ وہ طبقات و اجتماعات کے بجائے ہر ہر فردِ انسانی کو مخاطب بناکر اسے یہ بتاتا ہے کہ اس دنیا کے بارے میں خدا کا تخلیقی منصوبہ یہ ہے کہ اُس نے یہ دنیا ایک عارضی امتحان گاہ کے طور پر بنائی ہے۔ انسان کی اصل زندگی موت کے بعد آنے والی آخرت کی دنیا میں شروع ہوگی۔ اس دنیا میں اسے ایک خداپرست، انسانوں کا ہمدرد اور آخرت پرور انسان بن کر جینا اور اپنے نفس و اخلاق کا تزکیہ کرنا ہے تاکہ وہ کل آنے والی آخرت کی ابدی زندگی میں سرخرو ہوسکے اور وہاں خدا کے انعامات کا حقدار ٹھہرے۔ ان اسلامی تعلیمات کا اگر کسی معاشرے میں یہ نتیجہ نکلے کہ وہاں کی اکثریت ان تعلیمات اور اسلام کے دامن سے وابستہ ہوجائے اور ہوتے ہوتے نیچرل کورس کے ذریعے ان کے درمیان سیاسی خود مختاری کی سطح پیدا ہوجائے تو پھر اسلام انہیں اجتماعی سطح پر بھی اپنا پیرو اور تابع دار دیکھنا چاہتا اور ان کے اجتماعی ماحول و نظام کو بھی پاکیزہ اور آلائشوں اور نجاستوں سے پاک کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ انہیں معاشرت و سیاست و معیشت وغیرہ اجتماعی امور و شعبہ جات کے حوالے سے بھی کچھ اصولی و بنیادی ہدایات دیتا ہے تاکہ وہ اپنے اجتماعی وجود میں بھی اسلام ہی کے زیرِ اثر اور خدائی مرضیات کے حدود میں رہیں اور دنیا میں ایک مثالی معاشرے کا منظر پیش کرسکیں۔ مذکورہ انقلابی و سیاسی و جہادی نقطۂ نظر کے بالمقابل میں نے اصلاحی و تعلیمی و تبلیغی طریقے کی حمایت و تائید کی تھی اور یہ بتایا تھا کہ اگر آپ کسی سوسائٹی میں اسلامی انقلاب برپا کرنا چاہتے بھی ہیں اور اس کے ریاستی نظام میں اسلام کو بالا و نافذ دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ آپ کے نقطۂ نظر کے مطابق زور زبردستی کرنا اور اقتدار کے ذرائع اور سورسز پر قابض ہوکر جبر و طاقت کے ذریعے اسلام کے قانون و شریعت کو رواج دینا ہے جو میرے نزدیک صحیح نہیں ہے بلکہ فکر اسلامی ہو یا کوئی دوسرا نظریۂ زندگی ہو، اگر آپ اسے سماجی سطح پر غالب و روبعمل لانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے درست منہج و نتیجہ خیز انداز افراد کی اس فکر و نظریہ کے مطابق تعلیم و تربیت کا اہتمام اور تدریجی طور پر پیش قدمی کا طریقہ ہے۔ اس پس منظر میں یہ گفتگو شروع ہوئی تھی نہ کہ اس تخیل کی بنیاد پر کہ اسلامی انقلاب دینی حوالے سے کوئی مقصدی نشانہ و ٹارگٹ ہے اور اس کا درست طریقۂ کار کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔

آپ جو یہ فرماتے ہیں کہ میرا انقلابی پروگرام، یعنی اسلام کی اعلیٰ و روشن اور پاکیزہ تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ عام کیا اور لوگوں کے درمیان پھیلایا جائے، اسلام کے مطابق ان کی ذہن و کردار سازی اور اقدار و اخلاقیات تعمیری کی جائے اور اس طرح ایک تعلیمی و دعوتی تحریک کے ذریعے سماج کی اکثریت کو اسلام سے وابستہ اور اس کا مددگار و پشت پناہ بنایا جائے، اس کے نتیجے میں اسلام فطری طریقے سے سماج میں رواج و غلبہ پائے گا اور وہاں کا اجتماعی نظام و ماحول بھی آہستہ آہستہ اسلام کے زیرِ اثر آتا چلا جائے گا، بالکل درست و مفید ہے مگر اس کا نتیجہ محض اسی صورت میں نکلے گا کہ کچھ اچھے لوگ جو پہلے ہی سے برداشت و تحمل کے اوصاف اور آزادیٔ اظہار جیسی اقدار کے حامل ہوں گے، صحیح اسلامی آشنائی پاکر اس طریقے پر گامزن ہوکر زندگی کے ایام بتائیں گے کہ جس کی بدولت انہیں آخرت میں فلاح و سرفرازی نصیب ہوگی۔ میں عرض کروں گا کہ اصلاً اسلام کا پروگرام بھی یہی ہے کہ ایک فرد جس نے انفرادی طور پر اور شخصی حیثیت ہی میں روزِ آخرت خدا کے روبرو حساب کتاب کےلیے پیش ہونا اور اپنے شخصی و انفرادی اعمال و کارنامۂ زندگی ہی کے مطابق اچھے یا برے ابدی انجام سے دوچار ہونا ہے، اسے صحیح فکر و عمل کی راہ پر استوار و گامزن کیا جائے تاکہ اس کا نتیجہ یہی ہو کہ وہ روزِ آخرت فیروزمند و کامیاب ہو۔ دنیا میں انقلاب برپا کرنا اور کسی سماج میں قانون و نظام کی سطح پر اسلام کو غالب و رائج کرنا جیسے مقاصد اسلام اپنے ماننے والوں کے سامنے رکھتا ہی نہیں ہے۔ یہ نشانے تو منحرف اسلامی مفکرین مسلمانوں کے سامنے رکھتے ہیں اور میں اسی کی تو تردید و مخالفت کررہا ہوں کہ یہ اسلام کی صحیح تعبیر نہیں ہے کہ اسے دنیا میں ایک اچھا عادلانہ نظام رائج کرنے جیسے معاملے تک محدود کردیا جائے۔ اس کا تعلق اصلاً ایک انسانی فرد اور اس کی اخروی فوز و فلاح سے ہے۔ معاشرے اور ریاست کے پیمانے پر اسلام کا غلبہ و رواج اصلاً تو کوئی اسلامی مطلوب و ٹارگٹ نہیں ہے لیکن اگر اسلام کے ماننے والے کسی ملک و معاشرے کے حدود میں سیاسی خودمختاری کے پیمانے کی اکثریت حاصل کرلیں تو پھر ان کی اسلام وابستگی کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ وہ اپنے اجتماعی نظم و قانون میں بھی اسلام ہی کو اپنا رہنما اور مقتدا بنائیں۔ یہ ایک مشروط معاملہ ہے نہ کہ ہر ہر فردِ مؤمن کا مطلق فریضہ و نشانہ۔ اگر سیاسی خودمختاری فطری طور پر مسلمانوں کے حصے میں آئے گی تبھی یہ چیز ان پر فرض و لازم ہوگی۔ لیکن اگر وہ اقلیت میں رہتے ہیں تو پھر ریاستی پیمانے پر اسلام کو غالب و نافذ کرنا ان کا مشن و فریضہ نہیں بنتا۔ جس طرح زکوٰۃ صاحبِ نصاب ہونے کی شرط پوری ہونے کے بعد ہی لازم ہوتی ہے نہ کہ اس سے پہلے۔

باقی برداشت، تحمل، فکری رواداری اور آزادیٔ اظہار وہ خوبیاں ہیں جن سے اسلام ہی نے انسانوں کو وسیع پیمانے پر آشنا و روشناس اور مالا مال و آراستہ کیا ہے۔ جب آپ اسلام کو پھیلائیں گے اور اس کی اصل تعلیمات کو بے آمیز طور پر لوگوں تک پہنچائیں گے تو آپ سے آپ مسلمانوں میں یہ صفات و اقدار پروان چڑھیں گی اور سماج میں اُن لوگوں کو غلبہ و اکثریت حاصل ہوگی جو نقطۂ نظر کے اختلافات کے باوصف باہم مل جل کر جینے کا حوصلہ رکھتے اور دوسروں کو نئی بات کرنے، نئی سوچ پیش کرنے اور نیا خیال بیان کرنے کی پوری آزادی دیتے ہوں اور آزادیٔ اظہار کو ہر ہر انسان کا ایک فطری اور بنیادی حق سمجھ کر اس کا احترام کرتے ہوں۔ آپ کے اندازِ بیان سے یہ تأثر ملتا ہے کہ غالباً اسلام کی تعلیمات صرف اُن لوگوں پر اثر انداز ہوں گی جو پہلے سے ان اوصاف و خصوصیات و اقدار کے حامل ہوں۔ حالانکہ میرا گمانِ غالب اور مضبوط احساس یہ ہے ان چیزوں سے ایک انسان اسلام ہی کی بدولت حقیقی پیمانے پر آشنا و آراستہ ہوتا ہے۔ اسلام ہی کی تعلیم و تربیت انسان کو بلند نگہی، عالی قلبی، وسعتِ ظرفی، اختلافات کے باب میں رواداری اور آزادیٔ رائے و حق گوئی و سچائی پسندی جیسی صفات سے حقیقی طور پر مزین و بہرہ مند کرتی ہے۔

آپ نے مختصر تاریخی تجزیے کی شکل میں جو یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قوت و اقتدار اور سپر پاور ہونے کی حیثیت سے اسی قوم کو نوازا ہے جس کے اندر برداشت، رواداری اور آزادیٔ اظہار جیسی خصوصیات موجود تھیں تو اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ کسی قوم کو توانا بنانے اور عروج و اقتدار و شان و شوکت دلانے کے حوالے سے جس طرح ان خوبیوں اور اقدار کی اپنی حیثیت و قیمت ہے ویسے ہی دیگر بہت سے عوامل بھی اقوام کے عروج و زوال اور اقتدار و محکومی کے باب میں اپنی کلیدی و بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، جیسے انفرادی و اجتماعی اخلاقی معاملات اور مادی و ٹکنکل ایڈوانسمنٹ و ترقی وغیرہ۔ اگر آپ بس انہی چند عناصر و صفات کو اس معاملے میں اصل اساس و بنیاد گردان رہے ہیں تو اس معاملے میں بے جا محدودیت کا شکار ہورہے ہیں۔ اس معاملے میں اور بھی بہت سے پہلو ہیں جو اقوام کی بالاتری اور پستی میں کردار ادا کرتے اور کسی ملت کو سپر پاور یا محکوم و غلام قوم بناتے ہیں۔ پھر مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس وقت قومی و ملکی حدود میں کسی فکر و نظریے اور اس کے قانون و نظام کو غالب لانے کے طریقِ فکر و عمل کے حدود میں بحث کررہے ہیں نہ کہ اقوام کو سپر پاور اور عالمی رعب و طاقت و دبدبہ کی حامل سیاسی قوت بنانے کی بات کررہے ہیں۔ اور یہ بات بھی ہم اس ذہن کے ساتھ نہیں کررہے کہ اسلام ہمیں یہ تعلیم و تلقین کرتا ہے کہ لازماً اپنی ذمہ داری و ڈیوٹی سمجھتے ہوئے ہم اسے معاشرتی و ریاستی پیمانے پر غالب و نافذ کرنے کی کوشش کریں بلکہ ہماری بحث و ڈیبیٹ کا پس منظر یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی اکثریت اسلام کو سوسائٹی میں بالا دست اور مروج اور قانونی و نظامی سطح پر جاری و ساری کرنے کے لیے جس اندازِ فکر و عمل پر رواں دواں ہیں وہ ٹھیک نہیں ہے بلکہ اگر اسی مقصد کا حصول ہمارے پیشِ نظر ہو تو پھر ہمیں اس انداز کے بجائے تعلیمی و دعوتی اور اصلاحی و تربیتی اسلوب میں اس کے لیے کام اور محنت کرنا ہوگی۔ کم از کم میرا نقطۂ نظر یہی ہے کہ اسلام فرد کے سامنے اصلاً اخروی کامیابی کا نشانہ رکھتا ہے نہ کہ دنیوی بالادستی و اقتدار رسی یا اقوام کے درمیان سپر پاوری کے منصب کے حصول کے لیے رسہ کشی کا۔

میں اگر اپنے بیانات کو سمیٹتے ہوٹے مختصراً بیان کروں تو میرے نزدیک اس وقت عالمِ انسانی اور ملتِ مسلمانی کی جو افسوسناک صورتحال ہے اور جس قسم کے شدید و عمیق اخلاقی بحران و پستی کے مظاہر و نشانات ہم ہر طرف بکھرے دیکھ رہے ہیں، اس کا باعث عالم کے پرودگار سے انسانوں کی لاتعلقی، بے خوفی اور بے پروائی، دنیا اور اس کی رونقوں اور لذتوں سے حد سے بہت زیادہ بڑھی ہوئی دلچسپی، دردناک و المناک خودغرضی و مفاد پرستی اور اخلاق و روحانیت کے ابواب سے بے بہرہ ہوکر مادیات کے سمندر میں مکمل غرقابی ہے۔ اس صورتحال کا علاج سماج و معاشرے میں کسی قسم کی سیاسی یا فوجی طور پر رونما ہونے والی تبدیلی اور جنگی یا جہادی طریقے سے آنے والا کوئی انقلاب نہیں ہے بلکہ اس منظر نامے اور صورتحال کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں کو پوری قوت کے ساتھ شعوری طور پر اور معرفت و استدلال کے ساتھ خدا کے ساتھ جوڑا اور متعلق کیا جائے، اس کے حوالے سے ان کے تصورات و معتقدات اور جذبات و احساسات میں زندگی اور ذہنی و قلبی اور روحانی بیداری راسخ کی جائے، انہیں اس کی بندگی، فرمانبرداری اور اس کے اوامر و نواہی کی تابعداری کے راستے پر راستبازانہ طریقے سے گامزن کیا جائے۔ آخرت اور جنت و جہنم کو ان کی نظر میں مسئلہ نمبر ایک اور سب سے بڑا اور سنگین ایشو بناکر ان کے حوالے سے ان میں زبردست فکرمندی پیدا کی جائے اور ان کے اندر انسان دوستی، انسانی ہمدردی و خیرخواہی کے جذبات پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ اجتماعی مفادات و منافع کی خاطر ذاتی ایثار و قربانی کا حوصلہ پیدا کیا جائے۔ اپنی شخصیت کی تکمیل، اپنے نفس کے تزکیے و تطہیر اور خدا کی مرضی اور آخرت کی فوز و فلاح کے حصول کو ان کا مشن و مقصدِ حیات بنادیا جائے۔ یہی وہ صفات اور خوبیاں اور روایات ہیں جو موجودہ بگاڑ زدہ معاشروں کو پلٹاکر خیر و خوبی کا منبع بنانے کی لیاقت و صلاحیت رکھتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی استعداد و صلاحیت اور پہنچ و استطاعت کے اندر اندر خود کو اس طرزِ فکر و عمل سے مکمل طور پر بہرہ ور کرنے کی مخلصانہ و سرفروشانہ کوشش کرنے کے ساتھ اپنے اپنے دائرۂ تعلق و حلقۂ رسائی میں انہی خیالات و روایات کو عام کرنے اور ایک واقعہ کی شکل دینے کی تگ و دو کرے۔ یہ یقیناً سماج کو سنوارنے اور معاشرے کو اصلاح پذیر بنانے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا اور اپنی اخلاقی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا ہوگا۔ مسلمان ایک لمبے عرصے سے اسلام کے نام و عنوان سے جو کوششیں کررہے اور عملی اقدامات اٹھارہے ہیں ان کا رنگ ڈھنگ اور انداز و طریق مذکورہ قسم کا کبھی نہیں رہا۔ وہ یا تو مسائل و فضائل کی غیر ضروری تفصیلات کو اسلامی دعوت کے نام سے لوگوں کے گوش گزار کرتے رہے ہیں یا پھر سیاسی و انقلابی فکر کی مخصوص اسلامی تعبیر کے مطابق دنیا کے غیرمسلموں کو اپنا مدعو سمجھنے اور انہیں اسلام کی بنیادی تعلیمات کی پیغام رسانی کے ذریعے اسلام کے سائے اور رحمت تلے لانے کے بجائے انہیں اپنا دشمن و حریف خیال کرکے ان سے لڑ نے جھگڑنے اور جبر و تشدد کے راستے سے اسلامی انقلاب و نظام کی عملداری کے لیے سرگرم و کوشاں ہیں۔ لمبے عرصے سے اسلام انہیں اخروی فوز و سرخروئی کا نسخہ نظر آنے کے بجائے دنیا میں عدل و فلاح پر مبنی سیاسی سسٹم برپا کرنے کی ایک اسکیم دکھائی دیا ہے اور یہ ان کے مفکرین کے فکری انحرافات اور اپنے ادوار کے غالب و رائج فلسفوں سے اثر پذیری اور ذہنی شکست و مرعوبیت کا نتیجہ ہے کہ وہ انہیں اسلام کو ایک سیاسی انقلابی نقطۂ نظر اور سوشل نظم کے قیام کا نسخہ و پروگرام باور کراتے رہے ہیں۔ اس فکر اور اس کے زیرِ اثر روبعمل آنے والی مسلم کاروائیوں نے اسلام کے عالمی امیج کو رحمت و امن و انسانیت کے بجائے وحشت و تشدد و بربریت و جنگجوئی و مار ڈھار جیسی علامتی خصوصیات کا حامل بناکر رکھ دیا ہے۔ بہت ضروری ہے کہ اسلام کو اس کی خدا کی بندگی، آخرت کی فکر مندی، رسولِ کریم کے اخلاقی ماڈل کی پیروی، قلب و نفس و شخصیتِ انسانی کی تطہیر و پاکیزگی اور عالمی انسانی اخوت و یگانگت جیسی خصوصیات و تعلیمات کے ساتھ زبردست قسم کی دعوتی تحریک کے ذریعے قومی و عالمی پیمانے پر ابلاغ کا ہدف بنایا جائے، خود بھی اسلام کی ان تعلیمات اور خوبیوں کو اپنے عمل و کردار کا جزو بنایا جائے، اپنے ماتحتوں، بچوں اور تعلق داروں کو بھی انہیں اپنانے اور اپنی زندگی بنانے کی فہمائش و تلقین بڑے پیمانے پر کی جائے اور انہی کو اسلام کے عالمی و بین الاقوامی تعارف و امیج کی بنیاد بنانے کی سرتوڑ کوشش و سعی کی جائے۔ خدا کرے کہ ہم ایسا کرنے کی اپنی اپنی حدود کے اندر توفیق و ہمت پائیں اور کسی نہ کسی حد تک اسلام کی خدمت اور اس کے حق و قدردانی کی ادائیگی کرپائیں۔

یہ میں نے اپنے ناچیز خیالات و احساسات کا خلاصہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ امید ہے آئندہ آپ لوگ ان پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھتے اور میری اصل مراد و مقصد کو سمجھتے ہوئے ہی اپنے تبصرے اور تجزیے سے مستفید فرمائیں گے۔ آپ نے اپنی تحریر کے آخر میں مستقبل میں سپر پاور کے عہدے پر مختلف اقوام کے پہنچ سکنے اور نہ پہنچ سکنے کے بارے میں اپنے جن قیاسات یا محسوسات کا ذکر کیا ہے، میں اُن پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا، کیوں کہ یہ باتیں ہماری بحث کے دائرے سے غیر متعلق ہیں اور ان کے باب میں ہر ایک کو قیاس آرائی اور اظہارِ رائے کا بھرپور حق حاصل ہے۔ اس کے بعد آپ نے جو دو تین لطیفے تخلیق فرمائے اور ساتھ ہی اپنی ایک عادت کو بیماری کا شکار بتاکر اس کا باعث میری پیروی اور مجھ سے تأثر و لرننگ کو قرار دیا ہے اس پر بھی میں کوئی تبصرہ کرنے کے بجائے بس اتنا عرض کروں گا کہ انسان اپنی بات جب تک پوری طرح بیان نہیں کرلیتا، خصوصاً جب تک کسی بحث و ڈیبیٹ میں جب کہ وہ زور و شور سے چل رہی ہو، اس کے الفاظ، مثالیں اور دلائل کمپلیٹ نہیں ہوجاتے، وہ زبان بند کرنے اور قلم کو اٹھاکر ایک طرف رکھ دینے میں ایک بے چینی اور تشنگی محسوس کرتا ہے جو اسے اپنی بات مکمل بیان کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔ اگر یہ کوئی خامی یا بری عادت ہے اور آپ کو اس میں میں نے مبتلا کیا ہے تو مجھے اس پر کوئی تأسف و شرمندگی نہیں ہے۔ امید ہے کہ آئندہ آپ بحث کے دائرے میں رہ کر بات کو آگے بڑھانے اور ہمیں اپنی تحقیقات سے فیضیاب ہونے کا موقع عطا فرمانے کو اپنی ترجیح بناتے ہوئے ہی مختصر یا تفصیلی کمنٹری تخلیق فرمائیں گے۔
isfi22

PAKISTAN
Posted - Saturday, August 21, 2010  -  7:48 AM Reply with quote
محترم سیفی میرا بھائی جان! آپ نے اپنی آخری پوسٹ میں جو دو نکتے اٹھائے ہیں کہ ہمارے اس پروگرام یا دعوت کے مخاطبین کون ہوں گے اور یہ کہ یہ انقلابی اسکیم نتیجہ خیز ہونے اور سماجی و معاشرتی پیمانے پر کسی بڑی تبدیلی کو ظہور پذیر کرنے میں کتنا وقت لے گی، ان کے حوالے سے عرض ہے کہ میں وضاحت سے یہ عرض کرچکا ہوں کہ اسلام میرے نزدیک اصلاً کوئی سیاسی، جہادی یا انقلابی اسکیم و پروگرام ہرگز نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے نسلِ انسانی کے افراد کو ہدایتِ ربانی سے بہرہ مند کرکے آنے والی ابدی حیات و دنیا میں فیروزمند و کامران بنانے کی سبیل و رہنمائی ہے۔ جس تناظر میں میں نے اسلام یا کسی بھی دوسرے نظریۂ زندگی کے کسی سماج و سوسائٹی میں تبدیلی یا انقلاب لانے کی بات کی تھی وہ یہ تھا کہ مسلمان ایک طویل وقفے سے اسلام کو سماجی انقلاب برپا کرنے کا نظریہ باور کرکے اس نصب العین کے لیے کوشاں اور اس منزل کو پانے کے لیے جہادی و جنگی کاروائیوں میں مصروف و سرگرداں ہیں۔ اس تناظر میں میں نے یہ بات سامنے رکھی تھی کہ اگر اسی مقصد کو پیشِ نظر رکھا جائے کہ کسی معاشرے میں اسلام کو غالب فکر و طریقِ زندگی اور اس کے قانون و شریعت کو وہاں کے سماجی نظم میں بالادست و مروج بنایا جائے تو اس کے لیے بھی تشدد اور جبر کا طریقہ سراسر نادرست و ضرر رساں ہے۔ اس مقصد کےلیے بھی ہمیں پرامن فکری جدوجہد اور لوگوں کی اسلامی بنیادوں پر تعلیم و تربیت و اصلاح ہی کے راستے پر چلنا پڑے گا۔ اس طریقِ عمل پر گامزن ہوکر اگر معاشرے کی اکثریت کو اسلامی رنگ میں رنگانے اور اسلامی سانچے میں ڈھلانے میں کامیابی میسر ہوئی تو پھر یہ اکثریت اور ان کی حمایت و پشت پناہی اس بات کی ضامن بن جائے گی کہ اُس سوسائٹی میں نہ صرف لوگوں کی انفرادی زندگیوں میں اسلام روبعمل ہو بلکہ وہاں کے اجتماعی ماحول و نظام میں بھی اسلام آپ سے آپ غالب و رائج ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے یہ بات بھی پوری شرح و بسط کے ساتھ سامنے رکھی تھی کہ اسلام اصلاً اس مقصد کو ہمارا نصب العین نہیں قرار دیتا بلکہ وہ افرادِ انسانی کی اس دنیا میں نفسی و قلبی و روحانی تطہیر اور اس کے نتیجے کے طور پر آخرت میں خدا کی خوشنودی اور جنت کی مستحقی ہی کو بطورِ ٹارگٹ و نشانہ ہمارے سامنے لاتا ہے۔ لہٰذا جب یہ بات پوری طرح مبرہن اور ثابت ہے کہ اسلام اصلاً فرد کی اخروی فلاح و کامرانی کا راستہ ہے تو پھر اس راستے کو ہمیں ہر ہر فردِ انسانی کے سامنے رکھنا ہے۔ ہر فردِ نسلِ انسانی خدا کا بندہ اور موت کے بعد قیامت کے روز اس کی بارگاہ میں پیش ہونے والا ہے اور اس کی زندگی کی شکل میں بھی خدا کی وہی تخلیقی اسکیم روبعمل آرہی ہے جو انسانوں کو اس زمین پر بسانے کے باب میں خدا کے پیشِ نظر ہے لہٰذا بالکل واضح بات ہے کہ ہمیں اسلام کے پیغام و تعلیمات کو ہر ہر فردِ انسانی کے سامنے رکھنا اور اسے خدا کی بندگی، اس کے رسولوں کی پیروی اور آخرت کی فکر و تیاری کرتے ہوئے زندگی گزارنے اور دنیا میں صالح اعمال و اخلاق و اقدار اختیار کرنے کی دعوت دینی اور تلقین و نصیحت کرنی ہے۔ جو لوگ مسلمان ہیں لیکن کسی بھی وجہ سے وہ اسلام کی ان بنیادی تعلیمات سے روگرداں یا اسلام کی غلط تعبیرات سے مغلوبیت کے نتیجے میں نادرست سوچ و کردار و اقدامات کا شکار ہیں انہیں بھی ہمیں انہی باتوں اور اسی صحیح اسلامی راستے کی طرف لانے کی کوشش کرنی ہے اور جو لوگ غیر مسلم ہیں اور سرے سے اسلام ہی سے ناآشنا ہیں ان کے حوالے سے بھی ہمارا فرض یہی ہے کہ ہم اپنی حیثیت اور دائرۂ ذمہ داری کے اعتبار سے ان تک اسلام کی تعلیمات اور اس کا پیغام ان کی زبان و اسلوب و معیار پر پہنچائیں اور ان کے سوالات و اشکالات کا جواب فراہم کرنے کی حتی المقدور سعی کریں۔ ہمیں اس کے لیے ہر ہر سطح پر کوشش ہی کرنی ہے نتائج و اثرات برپا کرلینا ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ ہمارا کام بس یہ ہے کہ ہم اسلام اور اس کے پیغام کو اپنی اپنی حدود میں اپنے اپنے مدعوئین تک پوری وضاحت و بے آمیزی کے ساتھ پہنچانے کے لیے میدان میں کوشاں رہیں، انہیں ہدایت دینا اور ہمارا دوست و ہمراہی اور جنت کے راستے کا مسافر بنانا اور ہماری ان دعوتی و تبلیغی کوششوں کو کسی بھی حد تک ثمر بار کرنا خداوند تعالیٰ کا کام ہے۔ وہ اپنی حکمت و تدبیر اور مرضی و مشیت کے مطابق جو چاہے گا اس معاملے میں کرے گا۔ ہمیں بس اپنے کام سے کام رکھنا اور اسے پوری ذمہ داری و تندہی سے سرانجام دیتے رہنا چاہیے۔

آپ کے دوسرے نکتے کا جواب بھی گو مذکورہ پیرے میں ضمنا آہی گیا ہے تاہم بات چونکہ سماجی پیمانے پر تبدیلی کے رونما ہونے اور اس میں نامعلوم مدت صرف ہونے کی ہورہی ہے اس لیے میں الگ سے اس کے حوالے سے یہ عرض کروں گا کہ یہ بات بہت اچھی طرح ایک مرتبہ پھر سمجھ لیجیے کہ سماجی پیمانے پر کسی تبدیلی کو واقع کردینا یا اسلامی تعلیمات و اثرات کے حامل کسی قسم کے سماجی انقلاب کو برپا کردینا کوئی اسلامی نشانہ اور مؤمنانہ ٹارگٹ سرے سے ہے ہی نہیں۔ ایک فردِ مسلم کو جو کوشش کرنی ہے وہ بس یہ ہے کہ وہ خود کو، اپنے بیوی بچوں اور متعلقین کو آخرت کے دن خدا کی ناراضی اور پکڑ سے بچانے کی کوشش کرے اور اسی پیغام یعنی خدا کی گرفت سے خود کو اور اپنے احباب کو بچانے کے پیغام کو اپنے دائرے اور حلقے میں عام کرنے اور پھیلانے کی کوشش کرے۔ اس کے اثرات و نتائج لوگوں کی انفرادی زندگیوں اور بحیثیت مجموعی کسی سماج و معاشرے میں کیا مرتب ہوں گے اس بارے میں اسے پریشان و فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ یہ اس کا دائرہ و کنسرن ہی نہیں ہے بلکہ ایک خدائی معاملہ ہے۔

اس کے علاوہ یہ بات جو آپ نے ارشاد فرمائی ہے کہ جن لوگوں میں برداشت موجود نہیں ہے اور وہ آزادیٔ اظہار رائے کو ہر ایک کا حق تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، انہیں تعلیم و تربیت دے کر اپنے مطلوب مقاصد کو حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ تو جناب ہم بھی تو یہی سمجھتے اور بار بار عرض کرتے رہے ہیں کہ ہمیں لوگوں میں یہ اور ان جیسی دوسری اقدار اور خوبیاں رواج دینی اور تعلیم و تربیت کے ذریعے انہیں تحمل و برداشت اور آزادیٔ اظہار کے اوصاف سے مزین و آراستہ کرنا ہے۔ جن لوگوں میں یہ صفات مفقود ہوں، ان سے مایوس و متنفر ہونے کے بجائے ہمیں ان کے اندر یہ اوصاف پروان چڑھانے اور انہیں بھی آزادیٔ فکر کی نافعیت اور برداشت و تحمل کی لزومیت کا قائل بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ چیزیں کسی صحیح نظریے کی دین نہیں ہوتیں بلکہ کج فکری اور جذباتیت اور اپنے نقطۂ نظر سے دلائل کے زور و قوت کے بجائے تعصب و گروہی حمیت کے راستے سے پیوستہ ہونے کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ یہ ایک بگاڑ و فساد ہے جسے ہمیں دوسری برائیوں کی طرح ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسلام اپنے ماننے والوں میں ہرگز یہ پست و نامعقول خصوصیات پیدا نہیں کرتا۔ ہاں اسلام کے نام پر کسی کج فکر کے نظریات و ارشادات و خطبات اگر لوگوں میں یہ خرابیاں پروان چڑھائیں یا بہت سے مسلم مفکرین کے خیالات کا انحراف بڑے پیمانے پر مسلمانوں میں ان رویوں کی ترویج و تنفیذ کا ذریعہ بن گیا ہو تب بھی ہمیں بے حوصلہ، اسلام سے بدظن یا لوگوں سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمارا کام و عزم یہ ہونا چاہیے کہ ہم اسلام کے اصل مصادر و تعلیمات کو بدلائل سامنے رکھتے ہوئے یہ واضح کریں کہ اسلام عدمِ برداشت کی نہیں بلکہ برداشت کی تلقین کرتا اور آزادیٔ اظہار پر قدغن لگانے کے بجائے اس کی زبردست طریقے سے حوصلہ افزائی اور تحسین فرماتا ہے۔ ہمیں اچھی طرح یہ جان اور سمجھ لینا اور اپنے دل، دماغ اور ذہن و فکر میں بٹھا لینا چاہیے کہ ہمارا کام کوشش اور جدوجہد ہے، نتیجہ خیزی اور انفرادی یا سماجی پیمانے کی تبدیلی و اثر انگیزی کا ظہور و وقوع خدا کی مشیت پر منحصر ہے۔ آپ اپنا کام کرتے رہیے اور خدا کے کام کو اس کے حوالے کردیجیے، وہ زیادہ بہتر طور پر اپنا کام کرلے گا۔
safimera

CANADA
Posted - Saturday, August 21, 2010  -  4:32 PM Reply with quote
great....this time your version is very much clear to me.....(I am sorry that i did not understand your earlier comments in this regard....)

but this time what you said.....I agreed 100% and I could not find any point which should be cirticised....

why you did not explain earlier in this way???....haha...

and thanks for your clarification about narazgi.....so now I am encouraged to be more harsh to you next time and take advantage of being elder to you.......lols

take care
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Sunday, August 22, 2010  -  12:26 AM Reply with quote
Isfi can you please list point wise what the main facts of this revolution some how I get muddled up and loose the thread ,safimera maybe you can do it too.
I only commented on your being upset or angry because you are already under a lot of strain because of your father's ill health and didn't want you to be upset by anything said to you on this forum. So you see I donot possess any sixth sense as you indicated. I apologize for any wrong conclusions I made. As for your thinking maybe I think of you as a child that is not so you are much younger to me but it does not mean I donot value your work or opinion how did you get that impression.
We are all praying for your father's health and pray he will gain his strength to be back on his feet.
isfi22

PAKISTAN
Posted - Monday, August 23, 2010  -  5:24 AM Reply with quote
سلام و آداب و تحیات۔۔۔۔۔۔

آپ دونوں کرم فرماؤں کی آخری پوسٹیں پڑھ کر دل کو کافی تسلی اور ذہن کو کافی اطمینان ملا۔ تاہم میں نے آپ لوگوں کی اس غلط فہمی کے ازالے کے لیے جو کچھ عرض کیا تھا کہ میں کسی بھی درجے میں ناراض و نالاں نہیں ہوں، اس سے میرا مقصود ہرگز آپ لوگوں کو شرمندہ کرنا نہ تھا بلکہ میں محض یہ واضح کرنا چاہتا تھا کہ ڈیبیٹ کی حد تک آپ لوگوں کے میرے خیالات کو خام خیالی یا تصوراتی جنت یا پھر نتیجہ خیزی و تبدیلی کاری کے حوالے سے ناقابلِ اعتبار و اعتماد قرار دینا جیسی باتوں میں سے کسی بات پر مجھے کوئی برہمی اور ناگواری نہیں ہے بلکہ اس کے جواب میں جب میں اپنا نقطۂ نظر مزید واضح کرنے اور آپ لوگوں کے اعتراضات و خدشات دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو اس موقع پر میری سنجیدگی اور اپنے نقطۂ نظر کے حق میں شدت و پختگی کو آپ لوگ خوامخواہ کسی برہمی اور جذباتی ردِ عمل پر جو محمول فرماتے ہیں، اس پر مجھے کچھ ناگواری نے ضرور آلیا تھا کہ آخر آپ لوگوں نے ایک سنجیدہ اور اہم بحث کے دوران کیسے یہ گمان کرلیا کہ میں استدلال و تشریح اور تنقید و تردید کی جوابدہی سے آگے بڑھ کر کسی بات کو ذاتی رنجش و شکایت کا سبب بنالوں گا۔ آپ لوگوں سے میرے رابطے کو اب کافی وقت بیت چکا ہے۔ اگر آپ لوگ ابھی تک مجھ سے اتنا ناواقف و ناآگاہ ہیں تو یقیناً یہ خبر میرے لیے نہ صرف حیران کن بلکہ دل آزار بھی ہے۔ بہر حال اب جبکہ سیفے میرا بھائی جان نے بھی میری مزید توضیح کے بعد اس بات کا کھلے انداز میں اعتراف کرلیا ہے کہ انہیں فرد کے اسلام کے براہِ راست مخاطب ہونے اور اخروی فوز و فلاح ہی کے اسلام کے زاویۂ نظر سے اصل مؤمنانہ مقصود و نشانہ ہونے اور سماج میں تبدیلی لانے کے لیے افراد ہی کو ٹارگٹ کرکے ان کے انفرادی خیالات و اقدار و معمولات اور سیرت و کردار و اخلاقیات میں نکھار و سنوار لانے کی فکری، تعلیمی، تربیتی اور اصلاحی جدوجہد ہی کے درست راہِ عمل ہونے جیسی تمام آرا سے کلی اتفاق ہے اور محترم آنٹی جان بھی بارہا اپنی پچھلی پوسٹوں میں کچھ ایسے ہی انداز میں اپنا میرے افکار و خیالات سے اتفاق ظاہر کرچکی ہیں تو میرے خیال سے یہ بحث و موضوع بہت حک تک مکمل ہوچکا اور فکری و نظری سطح پر اتفاق کی منزل سر کرچکا ہے۔ لیکن ایک مزید بات جو غالباً آنٹی کے لیے ابھی تشنہ اور تشریح و وضاحت طلب ہے وہ یہ ہے کہ چلو مان لیا اور دلائل سے بھی یہی بات درست معلوم ہوتی ہے کہ سماج میں تبدیلی، صلاح، فلاح اور نکھار لانے کے لیے ہمیں افراد پر محنت کرنی اور ان کے فکر و عمل کے گوشوں کو اسلامی تعلیمات و ہدایات کی کرنوں سے مزین و منور کرنا ہے لیکن اس جدوجہد کا تفصیلی عملی نقشۂ کار کیا ہوگا۔ یہ وہ سوال یا پہلو ہے جس پر میرا خیال ہے کہ اب اس بحث کے ہر شریک کو اپنی توجہ گاڑ دینی اور اپنی فکری قوتوں کو لگادینا چاہیے۔

بحث کا اصل اور حقیقی پس منظر چونکہ میری طرف سے بالکل صاف و واضح ہوکر سامنے نہ آسکا تھا اس لیے بحث کافی طول پکڑتی چلی گئی، تاہم یہ اس لحاظ سے اچھا ہوگیا کہ اس طوالت نے بات کو اپنے اصل مطالب و مفاہیم کے حدود میں اور زیادہ شرح و بسط کے ساتھ واضح اور نمایاں کرنے کا موقع فراہم کردیا۔ اب جبکہ اصل فکر پر اتفاقِ رائے اور ذہنی ہم آہنگی سامنے آچکی ہے مگر اس فکر کو عملی جامہ پہنانے کا طریقہ یا نقشۂ کار کیا ہوگا یا ہونا چاہیے، یہ پہلو متقاضی ہے کہ اس پر زورِ قلم اور قوتِ فکر صرف کی جائے، میں کوشش کروں گا کہ اگلی پوسٹ میں اس پہلو پر اپنی سوچ و فہم کو تفصیلاً آپ لوگوں کے سامنے رکھنے کی کوشش کروں۔ یہ اس لحاظ سے بھی زیادہ اہم ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے لوگوں کی عام روایت کے مطابق محض نظری طور پر بحث مباحثے کی داد دینے کے بعد دامن جھاڑ کر اٹھ جائیں اور کسی عملی اقدام و واقعی کوشش کی زحمت گوارا نہ کریں۔ ہم میں سے ہر ایک میرا حسنِ ظن ہے کہ اس مذکورہ فکری زاویۂ نظر کے مطابق اپنے اپنے فہم و استعداد کے مطابق اپنی زندگی میں عملاً محنت و کوشش کررہا ہوگا۔ لیکن یہ بہت اچھا ہوجائے گا کہ ہم اس پہلو پر بھی سیر حاصل مذاکرہ کرلیں اور اس کام و جدوجہد کو عملی طور پر سرانجام کا کوئی تفصیلی خاکہ اور تدریجی نقشہ ترتیب دینے میں کامیاب ہوجائیں۔ میں ان شاء اللہ پوری کوشش کروں گا کہ اس سلسلے میں اپنے احساسات و خیالات اگلی مرتبہ آپ کے سامنے رکھوں۔
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Saturday, August 28, 2010  -  7:33 AM Reply with quote
Isfi how is your father I hope he is making steady progress and gaining his strength day by day. Our prayers are with him.
isfi22

PAKISTAN
Posted - Saturday, August 28, 2010  -  7:37 AM Reply with quote
Salam and Thanks for remembering and praying. Yes he is getting improvement gradually, but very slowly. I am too busy these days, will meet u soon in the shape of my detailed view on our last discussed points.

Reply to Topic    Printer Friendly
Jump To:

<< Previous Page
1 2 3 4
Next page >>
Page 2 of 4


Share |


Copyright Studying-Islam © 2003-7  | Privacy Policy  | Code of Conduct  | An Affiliate of Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top    





eXTReMe Tracker