Author | Topic |
mehwish_ali
PAKISTAN
|
Topic initiated on Sunday, September 19, 2004 - 6:20 PM
بدعت کی تعریف
بسم اللہ السلام علیکم برادران ، کیا اذان سے قبل درود پڑھنا اسلام میں بدعت کہلائے گی؟ شکریہ اور والسلام
Edited by: Ibrahim on Monday, September 20, 2004 5:22 AM |
|
ibrahim Moderator
PAKISTAN
|
Posted - Monday, September 20, 2004 - 6:21 AM
وعلیکم السلام بدعت کا لغوی مفہوم ہے " نئی چیز "۔ ایک چیز کو دینی حیثیت دی جاۓ جبکہ شریعت میں اس کو دینی حیثیت حاصل نہ ہو تو دینی اصطلاح میں اسے " بدعت" کہا جاتا ہے۔ اذان سے قبل درود پڑھنے کا معاملہ بھی یہی ہے۔ شریعت میں اذان کے ذریعے باجماعت نماز کے لیے بلایا جاتا ہے اور یہ بات معلوم بھی ہے اور متفق علیہ (سب کی مانی ہوئی) بھی کہ اذان کے الفاظ " اللہ اکبر" سے شروع ہوتے ہیں اور " لا الہ الا اللہ" پر ختم ہو جاتے ہیں۔ اگر ایک شخص اپنے طور پر اذان سے قبل / بعد کچھ الفاظ پڑھے تو خواہ روزانہ پڑھے اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا مگر جب کچھ الفاظ کو دینی حیثیت دے کر ان کو اذان کا لازمی جز بنا دیا جاۓ اور وہ الفاظ ایک خاص گروہ کی پہـچان بن جائیں اور ان کے اذان دینے کے طریقے کے طور پر مشہور و معروف ہو جائیں تو آپ خود فیصلہ کیجیے کہ یہ عمل بدعت شمار ہونا چاہیے یا نہیں؟ آپ کی راۓ کا انتظار رہے گا۔ والسلام حافظ ابراہیم |
|
mehwish_ali
PAKISTAN
|
Posted - Monday, September 20, 2004 - 8:26 AM
بسم اللہ سلام علیکم جواب دینے کا شکریہ۔ بہرحال یہ الجھن میرے ذہن میں کچھ اور بڑھ گئی ہے۔ مثال کے طور پر آپ نے فرمایا ہےکہ اگر کوئی اپنی مرضی سے اذان سے پہلے درود پڑھنا چاہے، تو اس کی اجازت ہے۔ جبکہ یونیورسٹی میں سلفی عرب برادران سے اس موضوع پر کئی مرتبہ گفتگو ہوئی اور ان کا کہنا ہے کہ ہر وہ عمل جو کہ رسول (ص) کی سنت سے ثابت نہیں ہے، وہ بدعت ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے شیخ بن باز کا فتویٰ بھی نقل کیا ہے:
عبادات کے تمام اعمال توفیقی ہیں اور اپنی رائے یا اجتہاد سے کوئی ایسا کوئی بھی عمل نہیں کیا جا سکتا جو کہ رسول (ص) خود نہ کیا ہو یا پھر اس کے کرنے کا حکم نہ دیا ہو۔ (مجموعہ فتاویٰ و مقالات از بن باز)
اسی تعریف کے ذیل میں انہوں نے مندرجہ ذیل اعمال کو بدعتِ ضلالت قرار دیا ہے:
۱) نماز ادا کرنےکے بعد با جماعت یا اکیلے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا۔ ۲) اذان سے پہلے درود بھیجنا۔ ۳) تبلیغی جماعت جو تبلیغی دوروں پر جاتی ہے، وہ بدعتِ ضلالۃ ہے۔ ۴) مردوں کے لیے قران خوانی کروانا بدعت ہے یا ان کے ایصالِ ثواب کے لیے فاتحہ پڑھنا بدعت ہے وغیرہ وغیرہ۔
لیکن آپ نے جو تعریف کی ہے، اس کے مطابق عبادت کا کوئی بھی نیا عمل کی جا سکتا ہے تا وقتیکہ وہ ایک رواج کی شکل نہ اختیار کر لے۔ (پلیز کنفرم فرمائیے کہ کیا یہی آپ کی بدعت کی تعریف ہے؟)
شکریہ اور والسلام۔ |
|
mehwish_ali
PAKISTAN
|
Posted - Monday, September 20, 2004 - 6:19 PM
بسم اللہ سلام علیکم نیز حافظ ابراہیم صاحب، میں آپ سے گذارش کرنا چاہتی تھی کہ آپ عبداللہ ابن مسعود کی روایت پر بھی روشنی ڈالیں کہ آیا یہ صحیح حدیث ہے کہ نہیں۔ اور اگر صحیح ہے تو اس کا اصل مفہوم کیا ہے؟ میری مراد دارمی کی وہ حدیث ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کچھ لوگ مسجد میں کنکریاں ہاتھ میں لیکر بیٹھے ہوئے تھے اور ان پر سو 100 مرتبہ اللہ اکبر اور سبحان اللہ پڑھ رہے تھے۔ جب عبداللہ ابن مسعود کو علم ہوا تو آپ ان پر غضبناک ہوئے۔ شکریہ و والسلام۔
Edited by: ibrahim on Tuesday, January 11, 2005 6:12 AM |
|
ibrahim Moderator
PAKISTAN
|
Posted - Sunday, September 26, 2004 - 9:47 AM
و علیکم السلام بہن ، جواب میں تاخیر پر معذرت میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی اپنی مرضی سے اذان سے پہلے درود پڑھنا چاہے تو اسے اس کی کھلی اجازت ہے بلکہ میری مراد یہ ہے کہ اگر کوئی انفرادی طور پر ایسا کرتا ہے تو اس سے کوئی بڑا فرق واقع نہیں ہوتا ہے ، تاہم اس شخص سے بھی یہ ضرور پوچھا جاۓ گا کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے اور پھر اس کے بیان کے مطابق ہی اس کے عمل کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا جاۓ گا۔ آپ کے سلفی عرب برادران کی بات بہت حد تک صحیح ہے اگر اس میں ان کے ہاں زیادہ غلو اور شدت نہ ہو یعنی وہ بدعت کا فیصلہ کرنے سے پہلے اس کی وجہ وغیرہ ضرور معلوم کریں۔ شیخ بن باز کا فتوی بھی درست ہے مگر یہاں اتنا اضافہ ضروری ہے کہ عبادات میں بہت سی چیزیں اختیار اور اجتہاد پر بھی چھوڑی گئی ہیں جیسے رکوع/ سجدہ/ تشہد وغیرہ کے اذکار۔ بدعت کی جو مثالیں آپ نے دی ہیں وہ بالعموم درست ہی ہیں ، تاہم ان کے بدعت ہونے کے چھوٹے/ بڑے درجے بھی ہو سکتے ہیں اور کسی کام کے بدعت ہونے یا نہ ہونے میں دو اہل علم کی راۓ مختلف بھی ہو سکتی ہے۔ اور نوٹ کیجیے کہ میری کسی بات سے یا نتیجہ نہیں نکلتا کہ " عبادت کا کوئی بھی نیا عمل کیا جا سکتا ہے تاوقتیکہ وہ ایک رواج کی شکل نہ اختیار کر لے" میں نے انفرادی اور اجتماعی عمل میں اتنا ہی فرق کرنے کی کوشش کی ہے جو بظاہر ان میں ہوتا ہے۔ آپ نے جس روایت کے بارے میڑ پوچھا ہے اس کے بارے میں ان شاء اللہ جلد جواب دوں گا۔ والسلام |
|
mehwish_ali
PAKISTAN
|
Posted - Monday, September 27, 2004 - 9:19 AM
بسم اللہ سلام علیکم حافظ ابراہیم صاحب، آپ کے جواب دینے کا بہت شکریہ۔ بہرحال لگتا ہے کہ میرے سوالات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ آپ کی اجازت سے یہ سوالات پوچھنا چاہتی ہوں۔
سوال 1: صحابہ کرام کے نام کے ساتھ ؔرضی اللہ عنہ" کہنا
صحابہ کرام کے نام کے بعد "رضی اللہ عنہ" کیوں بولا جا تا ہے؟ رسول اللہ (ص) نے کبھی صحابہ کے نام کے بعد یہ بولا اور نہ ہی صحابہ نے۔ اور رسول اللہ(ص) نے آنے والی مسلمان نسلوں کے لیے بھی یہ حکم نہیں چھوڑا کہ صحابہ کے نام کے بعد یہ بولا جاۓ۔
سعودی عرب کے شائع کردہ قران میں سورہ مجادلہ کی آخری آیت کی تفسیر میں اہل حدیث عا لم مولانا جونا گڑھی لکھتے ہیں۔
"۔ ۔ ۔ جیسا کہ یہ رواج (یعنی قران و سنت سے نہیں) ہے کہ صحابہ کے نام کے ساتھ "رضی اللہ عنھم"بولا جاتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے انبیاء کے ناموں کے ساتھ ہم "علیہ السلام" بولتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ علما نے سواۓ لغوی معنوں کے، صحابہ کرام کے علاوہ کسی اور کے لیے اس کا استعمال حرام قرار دیا ہے۔ ۔ ۔ ۔"
اعتراض: اگر اہل حدیث/دیوبندی حضرات کی بدعت کی تعریف صحیح مان لی جاۓ تو کیا پوری مسلم امت صدیوں سے بدعت و ضلالت میں مبتلا ہے (بشمول اہل حدیث/دیوبند کے)؟
دوسرا یہ کہ کسی چیز کو حلال حرام بنانا صرف اللہ کا کام ہے۔ جبکہ یہاں اہل حدیث یہ دعوی کر رہے ہیں کہ علماء نے "رضی اللہ عنہ" کسی غیر صحابی کے لیے استعمال کرنا حرام قرار دیا ہے۔ اس نئی بدعت (حلال کو حرام کرنے) کا حق ان علماء کو کس نے دیا؟
تیسرا یہ کہ سلفي عرب برادران نے اس کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ "رضی اللہ عنہ" تو بس ایک دعا ہے، جو ہر وقت کی جا سکتی ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو نبی پر درود(صلوۃ ) بھی تو دعا ہے، پھر اسے اذان سے پہلے پڑھنا کیوں بدعت ہے؟
[نوٹ: صلوۃ (درود) عربی زبان کالفظ ہے، جس کا اپنا مطلب دعا ہے اور اس کا حکم قران میں ہے ۔ یعنی جب ہم درود پڑھتے ہیں تو اسکا اس کے سوائے کوئی مطلب نہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے لیے دعا کر رہے ہیں]
اگر بدعت کي وہ تعريف ماني جائے جو کہ سلفي حضرات کر رہے ہيں تو پھر اس موقع پر دوہرے معيار نظر آنے لگتے ہيں
نيز، سلفي حضرات کا شرک کے حوالے سے يہ بھي کہنا ہے کہ دعا بہترين عبادت ہے، مگر جب ان حضرات سے رضي اللہ عنہ کے متعلق گفتگو ہوتي ہے تو يہ برادارن کہہ رہے تھے کہ يہ تو بس ايک دعا ہے جو کہ عبادت کا حصہ نہيں ہے اور اس ليے بدعت کي تعريف ميں نہيں آتي
شکريہ والسلام |
|
ibrahim Moderator
PAKISTAN
|
Posted - Saturday, October 2, 2004 - 2:24 PM
بہن آپ جتنے سوال چاہیں بے فکر ہو کر کریں تاہم جواب آپ کو آہستہ آہستہ ہی ملیں گے۔ امید ہے مائنڈ نہیں کریں گی۔ شکریہ آپ کا سوال کافی مشکل اور نازک ہے۔ میں بھی اس بارے میں صرف ایک بات ہی کہہ رہا ہوں اور فی الحال کوئی تحقیق نہیں پیش کر رہا۔ رضی اللہ عنہ ایک دعا ہے جو صحابہ کی شان میں قرآن میں وارد ہوئي ہے چنانچہ اسی پہلو سے مسلمانوں میں یہ الفاظ ان کے بارے میں استعمال کرنے کا ایک عمومی رواج ہو گيا ہے۔ تاہم علما یہ بات جانتے ہیں کہ ایسا کہنے کی کوئی دینی حیثیت نہیں ہے۔ یہی معاملہ آپۖ پر درود پڑھنے کا بھی ہے۔ اگرچہ اہل ایمان کو آپۖ کے بارے میں درود و سلام کی ہدایت بھی مو جود ہے لیکن جب اس کے اذان سے پہلے پڑھے جانے کو باقاعدہ اختیار کیا جاتا ہے تو پھر وہ تمام سوالات پیدا ہو جاتے ہیں جو کسی بھی بدعت کے حوالے سے بالعموم پیدا ہوتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ |
|
mehwish_ali
PAKISTAN
|
Posted - Saturday, October 9, 2004 - 6:48 PM
بسم اللہ سلام علیکم ابراہیم صاحب، تاخیر کے لیے بہت معذرت خواہ ہوں۔ لیکن جیسے ہی مصروفیات سے فراغت ملی ہے، آپ کی پوسٹ کا جواب عرض کر رہی ہوں۔ آپ نے فرمایا ہے کہ علماء اس حقیقت سے واقف ہیں کہ "رضی اللہ عنہ" کی کوئی دینی حیثیت نہیں ہے۔ میری ناقص رائے یہ ہے کہ میرے سامنے اب یہ سوالات ہیں: 1) عام عوام اس کی دینی حیثیت سے واقف کیوں نہیں ہے؟ 2) اور جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ سعودی عرب کے اردو ترجمہ و تفسیر کے ساتھ شائع کردہ قران میں سورہ مجادلہ کی آّخری آیت کی تفسیر میں مفسر لکھ رہے ہیں کہ:"۔۔۔۔۔ اور علمائے اہلسنت نے صحابہ کے علاوہ اسکا استعمال ممنوع قرار دیا ہے۔۔۔۔۔" 3) اسی طرح کا مسئلہ "علیہ السلام" کے ساتھ ہے، جو کہ صرف انبیاء کے لیے مخصوص ہو گیا ہے۔ بریلوی اور اہل تشیع حضرات اہلبیت کے لیے بھی اسکا استعمال کرتے ہیں مگر اس پر دیگر حضرات کی طرف سے بھرپور تنقید ہوتی ہے۔ (میں نے یہ مسئلہ کئی ڈسکشن فورمز میں دیکھا ہے)۔ حتیٰ کہ امام بخاری نے بھی اپنی صحیح میں اہلبیت کے لیے "علیہ السلام" استعمال کیا ہے، مگر موجودہ ایڈیشنز میں اسکو تبدیل کر کے "رضی اللہ عنہ" کر دیا گیا ہے۔
جہاں تک اذان سے پہلے درود کو دین کا حصہ بنا لینے کا تعلق ہے، تو میں محسوس کرتی ہوں کہ یہ بہت آخر کی بحث ہے اور ہم تو ابھی تک یہ بات ہی نہیں طے کر سکے کہ آیا کوئی عبادت کا ایسا فعل انجام دیا جا سکتا ہے جس کا حکم رسول ص نے نہ دیا ہو۔
اور مجھ جیسے کم علم کے لیے تو بہت ہی مشکل بات ہے کہ ایسے مسائل پر زبان کھولی جائے۔ بہرحال آپ کی اجازت سے صرف وہ باتیں عرض کرنا چاہوں گی جو کہ میری عقل میں آ سکی ہیں۔
جب میں نے اس مسئلے پر غور کرنا شروع کیا، تو میرے سامنے یہ سوالات تھے:
1) آیا صحابہ نے رسول ص کی زندگی میں ایسے کوئی نیا عمل کیا ہو جسکا کرنے کا حکم پہلے رسول ص نے نہ دیا ہو۔ اور ایسے نئے عمل پر رسول ص کا کیا ردِ عمل تھا۔
2) اور آیا کہ رسول ص کی وفات کے بعد بھی صحابہ نے ایسے کوئی نئے اعمال اپنی ذاتی رائے سے سر انجام دیے؟ (یعنی صحابہ کے افعال اگرچہ کہ ہمارے لیے حجت نہیں ہیں، مگر مجھے یہ دکھنا تھا کہ بدعت کے ذیل میں اُن کی انڈر سٹینڈنگ کیا تھی)۔
تو رسول ص کی زندگی کے حوالے سے پہلی حدیث تو یہ تھی:
صحیح مسلم، کتاب 34، حدیث6466 جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے: رسول (ص) نے فرمایا، "جس نے اسلام میں کسی اچھے رواج کی بنیاد رکھی اور لوگوں نے اس اچھے کام میں اس کی پیروی کی، تو اسے، اس پیروی کرنے والے کے برابر ثواب ملے گا، اور پیروی کرنے والے کے ثواب میں بھی کسی قسم کی کمی نہ ہو گی۔ اور جو کوئی اسلام میں بری رسم کی بنیاد رکھے گا اور لوگ اس کی پیروی کريں گے، تو اسے ان پیروی کرنے والوں کے گناہ کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا اور ان پیروی کرنے والوں کے بوجھ میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی
مگر اہلحدیث حضرات سے جب میں نے رجوع کیا تو انکا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ہمیں اس واقعہ کا پس منظر دیکھنا ہو گا کہ رسول ص نے کس سلسلے میں یہ فرمایا تھا۔ (یعنی رسول پہلے ہی خیرات کرنے کا حکم دے چکے تھے اور یہ ایک نیا عمل نہیں تھا)۔ پس اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ اپنی رائے یا اجتہاد سے انسان کوئی نیا عمل کر سکتا ہے۔
اس سلسلے میں دوسری حدیث جو میرے مطالعہ میں آئی، وہ یہ تھی:
ابن رفیع سے روایت ہے: ایک دن ہم رسول (ص) کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ (ص) نے رکوع سے سر اٹھایا اور کہا سمع اللہ لمن حمدہ، ایک شخص جوپیچھے نماز پڑھ رہا تھا اس نے کہا ربنا ولک الحمد حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ۔ جب نماز مکمل ہو گئی تو رسول اللہ (ص) نے پوچھا کہ یہ کون شخص تھا۔ اس آدمی نے کہا،"میں"۔ اس پر رسول (ص) نے فرمایا، میں نے تیس سے زیادہ فرشتے دیکھے جو اس نیک عمل کو پہلے لکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ [ صحیح بخاری، کتاب 12، حدیث 764]
حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں کہتے ہیں کہ یہ حدیث دلیل ہے اسپر کہ نماز میں ان اذ کار کے علاوہ، جو حدیث میں ملتے ہیں، کوئی بھی نیا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ صرف خیال یہ رکھا جاۓ کہ یہ نیا ذکر دین کے اصولوں کے خلاف نہ ہو۔ پھر حافظ عسقلانی صحیح بخاری ہی کی ایک اور حدیث کا حوالہ دیتے ہیں کہ جب حضرت خبیبؓ کو کفار قتل کرنے لگے تو انہوں نے مرنے سے قبل دو رکعت نماز ادا کرنی کی اجازت مانگی۔ اور حافظ العسقلانی کا کہنا ہے کہ یہ عمل انہوں نے اپنی ذاتی رائے سے کیا۔ اسی طرح کے چند اور واقعات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ نے اپنی رائے سے نئے کام کیے، اور جب بعد میں رسول ص کو انکا علم ہو تو آپ نے اِن اعمال کے نئے یا پرانے ہونے کو نہیں دیکھا، بلکہ یہ دکھا کہ آیا یہ اعمال دین کے مطابق ہیں یا نہیں۔
سنن ابو داؤد کی یہ حدیث ملاحظہ فرمائیے: Book 23, Number 3413:
Narrated Alaqah ibn Sahar at-Tamimi:
Alaqah passed by a clan (of the Arab) who came to him and said: You have brought what is good from this man. Then they brought a lunatic in chains. He recited Surat al-Fatihah over him three days, morning and evening. When he finished, he collected his saliva and then spat it out, (he felt relief) as if he were set free from a bond. They gave him something (as wages). He then came to the Prophet (peace_be_upon_him) and mentioned it to him. The Apostle of Allah (peace_be_upon_him) said: Accept it, for by my life, some accept it for a worthless charm, but you have done so far a genuine one.
میں نے پھر اہلحدیث کے علماء کے سامنے یہ سوال اٹھایا اور انکا جواب یہ تھا کہ اس وقت تک رسول ص زندہ تھے اور صحابہ کے ایسے اعمال کو نیا عمل نہیں کہہ سکتے۔ لیکن آج کے دور میں اگر کوئی ایسا نیا عمل کرے گا تو وہ بدعت کہلائے گا۔
تو اب مسئلہ یہاں تک پہنچا کہ آیا صحابہ کرام نے ایسے نئے اعمال (جن کا رسول ص نے اپنی زندگی میں حکم نہیں دیا تھا) آپ ص کی وفات کے بعد بھی کیے؟
یہ چیز میرے بس سے باہر تھی کہ ایسے افعال کے لیے احادیث کو ڈھونڈا جائے، اور اہلسنت بریلوی حضرات کے لٹریچر میں بھی مجھے ایسی روایات نہیں ملیں۔ البتہ اہلحدیث حضرات ابن مسعود کی روایت نقل کرتے ہیں جو کہ میں نے اپنی پچھلی پوسٹ میں نقل کی ہیں۔
بہرحال، چند دوسرے مضامین پڑھتے وقت چند ایسی احادیث میری نظر سے گذریں کہ جن پر میں رک گئی اور مجھے بہت سوچنا پڑا۔ ان میں سے چند احادیث ذیل میں درج کر رہی ہوں۔
عثمان بن عبد اللہ کہتے ہیں، " میرے گھر والوں نے مجھے ام المومنین ام سلمہ کے پاس ایک پانی سے بھرے برتن کے ساتھ بھیجا۔ ام سلمہ نے ایک بوتل نکا لی جس میں رسول (ص) کے کچھ بال تھے۔ اور ایسا ہوتا تھا کہ اگر کسی کو نظر بد لگ جا تی تھی یا کوئی بیمار ہوتا تھا تو اسے پا نی سے بھرے برتن کے ساتھ ام سلمہ کے پاس بھیجا جاتا تھا۔ وہ پا نی میں سے اس بال کو گذارتی تھیں اور پھر لوگ یہ پا نی پی لیا کرتے تھے۔ میں نے اس بوتل میں چند سرخ بال دیکھے۔ [صحیح بخاری ، جلد 7، کتاب 72، حدیث 784] میرے ناقص رائے اس حدیث کے متعلق یہ ہے کہ ام المومنین ام سلمہ (ر) نے یہ نیا عمل اپنی ذا تی راۓ سے خود متعارف کرایا (یعنی رسول ص کے بال سے بیماری کے خلاف یوں برکت حاصل کرنا کہ اسے پانی میں بھگویا جائے اور پھر یہ پانی پیا جائے)، کیونکہ انہیں علم تھا کہ رسول (ص) کے تبرکات میں برکت ہے۔
اسماء بنت ابو بکر نے کہا: یہ رسول اللہ (ص) کا جبہ ہے جو عائشہ کے پاس ہوتا تھا اور اس کی وفات کے بعد میرے قبضے میں آ گیا۔ اللہ کے رسول (ص) اس کو پہنا کرتے تھے۔ اور ہم (وہ اور عائشہ) اس کو بیماروں کے لیے دھویا کرتے تھے تاکہ وہ اس سے شفا پا سکیں [صحیح مسلم، کتاب 24، حدیث 5149] حضرت عائشہ اور ان کی بہن اسماء بنت ابو بکر نے یہ عمل اپنی ذا تی راۓ سے کیا، کیونکہ انہیں علم تھا کہ رسول (ص) کے تبرکات میں برکت ہے۔
ابو ہریرہ نے لوگوں سے درخواست کی کہ وہ دو رکعت نماز مسجس اشعار میں ادا کریں اور ان کو کہا کہ نماز کے بعد وہ یہ کہیں کہ: "ھذا لی ابی ھریرہ" (یعنی یہ ابو ھریرہ کے لیے ہیں) سنن ابو داؤد، جلد ۲، صفحہ 236 ا
س حدیث کے ذیل میں اہلحدیث حضرات کے لیے دو سوالات اٹھتے ہیں۔
پہلا یہ کہ اگر شریعت میں دوسرے لوگ ایصالِ ثواب نہیں کر سکتے تو ابو ھریرہ لوگوں سے یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ دو رکعت نماز ادا کر کے اللہ سے کہیں کہ "ھذا لی ابی ھریرہ"؟ (یعنی یہ ابو ھریرہ کے لیے ہیں)
دوسرا سوال آپ حضرات سے بدعت کے حوالے سے پیدا ہوتا ہے۔ ابو ھریرہ یہ نیا عمل مسجد العشار میں کر رہے ہیں جبکہ رسولﷺ کا انتقال ہو چکا ہے۔ اگر اہلحدیث حضرات کی بدعت کی تعریف کو صحیح مانا جائے تو پھر ابو ھریرہ کا یہ فعل ضلالت کی زد میں آ جائے گا؟
اس ابو ہریرہ والی حدیث کا متن عربی میں آن لائن پڑھیں:
http://hadith.al-islam.com/Display/Display.asp?Doc=4&Rec=5421
سنن ابو داؤد، الملاحم ، فی ذکر البصرہ
حدثنا محمد بن المثنى حدثني إبراهيم بن صالح بن درهم قال سمعت أبي يقول انطلقنا حاجين فإذا رجل فقال لنا إلى جنبكم قرية يقال لها الأبلة قلنا نعم قال من يضمن لي منكم أن يصلي لي في مسجد العشار ركعتين أو أربعا ويقول هذه لأبي هريرة سمعت خليلي رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إن الله يبعث من مسجد العشار يوم القيامة شهداء لا يقوم مع شهداء بدر غيرهم قال أبو داود هذا المسجد مما يلي النهر
حضرت انس کا رسولﷺ کے بال کو زبان کے نیچے رکھ کر دفن ہونا :::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::: ۵) ثابت البنانی بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت انس نے فرمایا: یہ اللہ کے پیارے رسول ﷺ کا ایک بال مبارک ہے ۔ پس تم اسے میری زبان کے نیچے رکھ دینا۔ وہ کہتے ہی میں نے وہ بال ان کی زبان کے نیچے رکھ دیا اور انہیں اس حال میں دفنایا گیا کہ وہ بال ان کی زبان کے نیچے تھا۔ الاصابہ فی تمیز الصحابہ۷۱:۱
یہ ایک نیا عمل ہے جو انہوں نے اپنی ذاتی رائے سے کیا۔
حضرت انس کا رسولﷺ کے پیالے سے برکت حاصل کرنا ::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::: حضرت حجاج بن حسان بیان کرتے ہیں: ہم حضرت انس کے پاس تھے کہ آپ نے ایک برتن منگوایا جس میں لوہے کہ تین مادہ گوہ اور لوہے کا ایک چھلا تھا۔ آپ نے اسے سیاہ غلاف سے نکالا، جو درمیانے سائز سے کم اور نصف چوتھائی سے زیادہ گھا۔ اور حضرت انس کے حکم سے اس میں ہمارے لیے پانی ڈال کر لایا گیا تو ہم نے پانی پیا اور اپنے سروں اور چہروں پر ڈالا اور رسول ﷺ پر درود پڑھا۔ اس روایت کی اسناد صحیح ہیں۔ مسند احمد بن حنبل ۱۸۷:۳ البدایہ و النہایہ ۳۷۰:۴
قاضی عیاض بیان کرتے ہیں: اور عبداللہ ابن عمر کو دیکھا جاتا کہ وہ منبر (نبوی) کی وہ جگہ، جہاں رسولﷺ تشریف فرما ہوتے تھے، اسے اپنے ہاتھ سے چھوتے اور پھر ہاتھ اپنے چہرہ پر مل لیتے۔ الشفاء۶۲۰:۲
انس بن مالک سے ایک اور روایت ہے: البدایہ وا لنہایہ، 4:368 http://www.al-eman.com/Islamlib/viewchp.asp?BID=251&CID=89&SW=عصية-انس#SR1 حدثنا ابو شيبة ابراهيم بن عبد الله بن محمد، ثنا مخول بن ابراهيم، ثنا اسرائيل عن عاصم، عن محمد بن سيرين، عن انس بن مالك انه كانت عنده عصية لرسول الله صلَّى الله عليه وسلَّم فمات فدفنت معه بين جنبه وبين قميصه
کہ ان کے پاس رسولﷺ کی ایک چھوٹی سی چھڑی تھی، جب وہ فوت ہوئے تو وہ چھڑی ان کے ساتھ ان کی قمیص اور پہلو کے درمیان دفن کی گئی۔ البدایہ و النہایہ ۳۶۸:۴
صحیح بخاری، کتاب الاستئذان http://www.al-eman.com/hadeeth/viewchp.asp?BID=13&CID=170#s1
6355 ـ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ ثُمَامَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ، كَانَتْ تَبْسُطُ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم نِطَعًا فَيَقِيلُ عِنْدَهَا عَلَى ذَلِكَ النِّطَعِ ـ قَالَ ـ فَإِذَا نَامَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَخَذَتْ مِنْ عَرَقِهِ وَشَعَرِهِ، فَجَمَعَتْهُ فِي قَارُورَةٍ، ثُمَّ جَمَعَتْهُ فِي سُكٍّ ـ قَالَ ـ فَلَمَّا حَضَرَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ الْوَفَاةُ أَوْصَى أَنْ يُجْعَلَ فِي حَنُوطِهِ مِنْ ذَلِكَ السُّكِّ ـ قَالَ ـ فَجُعِلَ فِي حَنُوطِهِ.
حضرت ثمامہ حضرت انس سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ام سلیم نبیﷺ کے لیے ایک چمڑے کا گدا بچھا دیا کرتی تھیں اور رسولﷺ ان کے ہاں اسی طدے پر قیلولہ فرمایا کرتے تھے۔ حضرت انس کا بیان ہے کہ جب نبیﷺ سونے سے بیدار ہو کر اٹھ کحڑے ہوتے تو میں پﷺ کا پسینہ مبارک اور موئے مبارک جمع کر لیتا اور ان کو ایک شیشی میں ڈال کر خوشبو میں ملا لیا کرتا تھا۔ حضرت ثمامہ کا بیان ہے کہ جب حضرت انس کی فوات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے وصیت فرمائی کہ وہ خوشبو ان کے کفن کو لگا دی جائے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ خوشبو ان کے کفن کو لگا دی گئی۔ صحیح بخاری ۹۲۹:۲
اب رسول ص نے کبھی یہ نہیں فرمایا تھا کہ ایسی کوئی انکے پسینے والی خوشبو کفن کو لگائی جائے، اور انس ابن مالک یہ کام اپنی ذاتی رائے سے کر رہے ہیں۔
غرض، میری نظر سے ایسی اور بہت سی احادیث گذری ہیں جہاں صحابہ کرام اپنی ذاتی رائے سے رسول ص کی وفات کے بعد نئے اعمال اپنی ذاتی رائے سے کر رہے ہیں۔ اور ان سب واقعات کو پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچ پائی ہوں کہ بدعتِ حسنہ (یعنی ایسی بدعت جو کہ دین کے مطابق ہو) کا وجود موجود ہے۔ ہو سکتا ہے کہ میں اپنے نتیجے میں غلط ہوں، مگر فی الحال یہی مجھ کم علم و کم عقل کی ذاتی رائے ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ آیا ایسے افعال کو اتنا زیادہ کیا جائے کہ وہ دین کا حصہ نظر آنے لگیں (جیسا کہ اذان سے پہلے درود کا مسئلہ)، تو اس سلسلے میں بھی علماء سے مجھے دوآراء ملی ہیں۔ پہلی رائے اہلحدیث علماء کی ہے کہ لوگوں نے اسے اذان کا حصہ بنا لیا ہے اور دوسری طرف بریلوی علماء کا کہنا ہے کہ یہ اذان کا حصہ نہیں ہے اور اسکے بغیر بھی یقیناً اذان ہو جاتی ہے۔
بہرحال میں اس بحث میں نہیں پڑ سکتی کیونکہ دلوں کا حال اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون کس نیت سے کیا کام کر رہا ہے۔
مگر اس موقع پر میں اذان سے پہلے درود پڑھنے کے مسئلہ کو ایک اور مسئلہ سے منسلک کروں گی۔
اور وہ مسئلہ ہے تراویح کی نماز کا۔ اور اس تراویح کی نماز میں بھی کئی نکات ہیں جن پر میرے پاس بہت سے سوالات ہیں ، مگر اس وقت میں صرف اور صرف دو سوالات اٹھا رہی ہوں:
پہلا سوال ::::::::::::: کیا رسول نے کبھی باجماعت تراویح کے دوران پورا قران ختم کیا (جیسا آجکل کیا جاتا ہے)؟
دوسرا سوال: ::::::::::::::: اور کیا رسول ص نے کبھی رمضان کے پورے 30 دنوں تک تراویح باجماعت ادا کی؟ (جیسا آجکل کیا جاتا ہے)
شریعت کا دارومدار صرف اور صرف ؔوحی" پر ہے۔ (یعنی رسول بھی اپنی طرف سے کسی کام کا اضافہ نہیں کر سکتے)۔
اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تراویح کا پورے 30 دن تک اہتمام کرنے سے کیا یہ دین کا حصہ بن گئی ہے (جیسا کہ اذان سے پہلے درود کا مسئلہ ہے)؟
اور کیا انبیاء کے نام کے ساتھ ہمیشہ ؔعلیہ السّلام" کا استعمال ہونے سے یہ بھی دین کا حصہ بن گیا ہے؟
(ہمارا اصل سوال یہی تھا کہ کوئی عمل اتنا زیادہ کیا جائے کہ وہ دین کا حصہ معلوم ہونے لگے)۔
جنابِ حافظ صاحب، میں معذرت چاہتی ہوں کہ میرے ذہن میں شاید ہزاروں سوالات پیدا ہوتے ہیں اور میں آپ کو بھی اِن سوالات سے پریشان کر رہیں ہوں۔ بلکہ جب میں چھوٹی تھی تو میرے تمام گھر والے میرے ان سوالات کرنے کی عادت سے تنگ تھے اور اکثر جواب دینے سے عاجز آ جایا کرتے تھے اور ناراض ہو جاتے تھے۔ بہرحال بڑے ہونے کے بعد یہ عادت کچھ کنٹرول میں ہے۔
امید ہے کہ آپ میرے ان سوالات کی عادت سے ناراض نہیں ہوں گے۔ لول۔ والسلام۔
م |
|
msohailkhalid
PAKISTAN
|
Posted - Wednesday, December 8, 2004 - 9:49 AM
السلام عليكم ابراھيم صاحب آپ نےكافي عرصےسےاس پوسٹ كا جواب نہيں ديا, ميں بھي كچھ عرض كرنا چاہتا ہوں ليكن اردو ٹايپنگ مشكل ہے اور مصروفيت بھي ہے اس ليے جب فرصت ملے گي تب ہي كچھ لكھ سكوں گا والسلام |
|
askhalifa
UNITED ARAB EMIRATES
|
Posted - Saturday, December 11, 2004 - 12:46 PM
میں مداخلت کے لئے معافی کا خواستگار ہوں بس اس سلسلے میں اپنی رائے کا ا ظہار کرنا چاہتا ہوں میرے خیال میں بدعت کی تعریف یوں ہونی چاہئے اگر غلط ہو تو تصحیح کیجئے ہر وہ نیا کام جس کو عبادت سمجھ کر کیا جائے یا ہر وہ عبادت جس کے لئے ایک مخصوص وقت، طریقہ یا عدد مقرر کیا جائے اور اس وقت؛ طریقے یا عدد پر اصرار اور تکرار کی جائے اس کو بدعت کہتے ہیں
واضح رہے کہ یہاں عبادت سے میری مراد صرف وہ اعمال ہیں جو براہ راست بندے اور اللہ سے متعلق ہیں۔ جیسے نماز، روزہ، حج، ذکر، قربانی، اعتکاف وغیرہ۔ میں یہ بات ایک طالب علم کی حیثیت سے لکھ رہا ہوں۔ اللہ بھول چوک کو معاف فرمائیں yeh urdu type karne mein to meri jaan nikal gayee |
|
ibrahim Moderator
PAKISTAN
|
Posted - Monday, December 13, 2004 - 6:02 AM
جناب یہ بالکل مداخلت نہیں ہے بلکہ یہ آپ کا جائز حق ہے اور آپ اس کو بے دھڑک استعمال کیجیے۔ اور ہاں اردو میں پوسٹ کرنے کے لیے جو مشقت آپ نے برداشت کی ہے یقینا اس پر اللہ تعالی آپ کو وافر اجر سے نوازیں گے۔ اردو میں پوسٹ کرنے کا شکریہ۔ امید ہے کہ آپ بحث میں حصہ لیتے رہیں گے۔ |
|
JAMILAHMED
PAKISTAN
|
Posted - Monday, January 10, 2005 - 10:35 AM
Ibraheem Sahab! app kay jawba ka bechanee say intizar hay. |
|
ibrahim Moderator
PAKISTAN
|
Posted - Tuesday, January 11, 2005 - 6:54 AM
جمیل بھائی میرا انتظار نہ کیجیے۔ آپ کو جو کہنا ہے بلا جھجک کہیے۔ میں جان بوجھ کر اس بحث سے الگ ہوں۔ محترمہ مہوش صاحبہ طویل گفتگو کی عادی ہیں جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ متعین سوال کیا جاۓ۔ آپ کو جہاں الجھن ہے بتائیے۔ ان شاء اللہ مطمئن کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔ |
|
munir
PAKISTAN
|
Posted - Sunday, January 16, 2005 - 10:46 PM
Asslam_u_Alaikum,
Sab se pehle mein http://www.studying-islam.org ki poori team ko Islam ki zabardast khidmat kerne per mubarkbad deta hoon.
Zer-e-nazar topic ke baaray mein itna kehna chata hoon keh meri naaqas aqal ke mutaabiq Muhtarma Mehwish Sahiba ke sawaalat taweel zaroor hain magar mutein(to the point) hain. Is liye mein muhtarma ke uthaae gaye sawalaat ke baaray mein studying-islam.org ka reaction(ya izhaar-e-khyaal) janne ka khuwahaan hoon. Is liye aap se is baaray mein apna khyaal dein nay ki darkhuwaast kerta hoon. Umeed hai keh aap ka jawab hamaray Ilm(knowlege) mein ezafe ka sabab bane ga.
W-Salaam, M.Munir.
(Is waqt mein urdu font mein likhne se maazoor hoon, Is liye Maazrat chata hoon.) |
|
ibrahim Moderator
PAKISTAN
|
Posted - Monday, January 17, 2005 - 7:40 AM
و علیکم السلام منیر صاحب محترمہ مہوش صاحبہ کے سوالات کی طوالت نے کئی مسائل پیدا کیے ہیں۔ مثلا سوال کی طوالت ہی اس کو متعین ہونے کے باوجود غیر متعین بنا رہی ہے۔ سوال کی طوالت اس کو محض سوال کے دائرے سے اٹھا کر ایک مباحثہ کا روپ دے رہی ہے جس سے ہم اجتناب کرنا چاہتے ہیں۔ سوال کی طوالت کی وجہ سے اصل اور بنیادی سوال کو متعین کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر وہ ایک ایک کر کے سارے سوالات کرتی رہیں تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ زیر بحث موضوع میں سے آپ جس پہلو کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں آپ اسے اپنے الفاظ میں بیان کر دیجیے۔ ان شاء اللہ ضرور اظہار خیال کیا جاۓ گا۔ والسلام حافظ ابراہیم |
|
askhalifa
UNITED ARAB EMIRATES
|
Posted - Monday, January 17, 2005 - 11:48 AM
جناب ابراہیم صاحب کم از کم میں نے جو بدعت کی تعریف کی ہے اس پر تو اپنی رائے کا اظہار فرمائیں |
|